یہ سوچنا غلط ہے کہ موجودہ نظام ہمیشہ جاری رہے گا: وزیر قانون کرن رجیجو

نئی دہلی، جنوری 24: عدالتی تقرریوں پر مرکز اور عدلیہ کے درمیان تنازعہ کے درمیان مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے پیر کو کہا کہ یہ سوچنا غلط ہوگا کہ موجودہ نظام ہمیشہ جاری رہے گا اور اس پر کبھی سوال نہیں کیا جائے گا۔

رجیجو نے کہا ’’1947 کے بعد سے بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں… یہ بدلتی ہوئی صورت حال ہے جو ضرورت کا تعین کرتی ہے اور اسی وجہ سے آئین میں سو سے زیادہ بار ترمیم کرنی پڑی۔‘‘

حالیہ مہینوں میں رجیجو نے ججوں کی تقرری کے موجودہ کالجیم نظام پر بار بار تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کے ساتھ تبدیل کرنا چاہیے، جسے سپریم کورٹ نے 2015 میں ختم کر دیا تھا۔

یہ قانون 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے کچھ مہینوں بعد پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز اور وزیر قانون، چیف جسٹس، وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ذریعہ نامزد دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

کالجیم نظام کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔

دریں اثنا این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ریٹائرڈ جج آر ایس سوڈھی نے پیر کو رجیجو کو مشورہ دیا کہ وہ ’’میرے کندھے سے گولی نہ ماریں‘‘۔ انھوں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی ہے جب وزیر قانون نے مرکز اور عدلیہ کے درمیان تعطل کے درمیان ان کی ویڈیو شیئر کی تھی۔

ہفتہ کو وزیر قانون نے سوڈھی کا ایک ویڈیو کلپ ٹویٹ کیا تھا جس میں سوڈھی نے الزام لگایا تھا کہ سپریم کورٹ نے ججوں کی تقرری کا فیصلہ کرکے آئین کو ’’ہائی جیک‘‘ کیا ہے۔ سوڈھی نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے اور مزید کہا تھا کہ ایسا کرنے کا حق پارلیمنٹ کا ہے۔

رجیجو نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ منتخب نمائندے عوام کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں اور قانون بناتے ہیں۔ بعد میں انھوں نے مزید کہا کہ لوگوں کی اکثریت جسٹس سوڈھی جیسے خیالات رکھتی ہے۔

پیر کو سوڈھی نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کالجیم سسٹم کے بارے میں ان کے خیالات ان کی ذاتی رائے کا حصہ تھے۔

سوڈھی نے کہا ’’میں اس معاملے کو اٹھانے کے لیے وزیر قانون کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن میں سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ میرے کندھے سے بندوق نہ چلائیں… پارلیمنٹ قانون سازی میں سب سے اوپر ہے، لیکن سپریم کورٹ قانون کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘