ڈبلیو پی آئی، ایس آئی او نے مظاہرین کے خلاف یوپی پولس کی طرف سے زبردستی کا الزام لگایا
نئی دہلی، جون 11: ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے کل پریاگ راج میں نماز جمعہ کے بعد احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کے سلسلے میں ڈبلیو پی آئی کے ایگزیکیٹو ممبر جاوید محمد کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
جاوید محمد، ان کی بیوی اور بڑی بیٹی ان 60 افراد میں شامل ہیں جنھیں یوپی پولیس نے اب تک گرفتار کیا ہے۔
جاوید کی چھوٹی بیٹی آفرین فاطمہ، جو دہلی میں ایک طالبہ ہیں، نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اس کے والد، والدہ اور بہن احتجاج میں شامل نہیں تھے۔
ڈبلیو پی آئی کے صدر ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس نے کہا کہ جاوید محمد اور دیگر مسلمانوں کو ان کی رہائش گاہوں سے ہفتہ کی صبح گرفتار کیا گیا۔
ڈاکٹر الیاس نے کہا ’’ان لوگوں کے خلاف من گھڑت الزامات لگائے گئے ہیں جو 2019 کے شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج میں نمایاں رہے تھے۔ انھیں ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر الیاس نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ریاستی حکام کی طرف سے بلڈوزر کارروائیوں کی دھمکیوں کا از خود نوٹس لے اور ریاستی حکومتوں کو ملک میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کو روکنے کی ہدایت کرے۔ انھوں نے تمام شہریوں پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑے ہوں اور مسلمانوں سے نفرت اور شیطانیت سے پرہیز کریں۔
ایس آئی او نے یوپی پولیس پر مظاہرین کے خلاف زبردستی کرنے کا الزام لگایا۔
ایس آئی او نے اپنے بیان میں کہا ’’جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرنے والوں کو ریاست اور پولیس کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے، وہیں ملک بھر میں سیکڑوں مسلمانوں کے خلاف اندھا دھند مقدمات درج کیے گئے ہیں اور انھیں جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تشدد کے الزام میں لوگوں کے گھر بغیر کسی کارروائی کے مسمار کیے جا رہے ہیں۔ پولیس کے کام کرنے کے طریقے میں قانون کی حکمرانی اور غیر جانبداری کی کوئی جھلک بھی نہیں ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے ’’ہم خاص طور پر سماجی کارکن جاوید محمد کی غیر قانونی گرفتاری اور الہ آباد میں رات گئے خواتین اور بچوں سمیت ان کے خاندان کے افراد کو ہراساں کیے جانے سے پریشان ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔ یہ ریاست کی جانب سے غیر متعلقہ واقعات سے فائدہ اٹھانے کے آزمائے ہوئے حربے کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ کارکنوں اور سخت سوالات کرنے والے لوگوں کو روکا جا سکے۔ ہم نے یہ دہلی میں دیکھا، ہم نے یہ CAA کے دوران دیکھا، ہم یہ بار بار دیکھ رہے ہیں۔‘‘