وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر

ایک بھولا ہوا سبق۔حالات حاضرہ کے تناظر میں

مشتاق رفیقی، وانم باڑی

قرآن میں موجود فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعات امت کے لیے بہترین نمونہ
قرآن دنیا کی وہ واحد احکامی کتاب ہے جس کے پڑھنے والے بے شمار ہیں لیکن اس کو سمجھنے والے محدود، اس کے حفاظ کروڑوں میں مل جائیں گے لیکن اس کے احکامات پر عمل کرنے والے گنے چنے، شاید ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی گھر ہو جہاں اس کا نسخہ موجود نہ ہو لیکن یہ احکامی کتاب کے طور پر نہیں بلکہ حصول برکت کی نیت سے ہوگا۔ عجیب بات ہے کہ مسلمان اس بات کو بطور عقیدہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی ہر بات منجانب اللہ ہے اور یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ قرآن بلا تفریق ہر عربی عجمی، مشرقی مغربی، کالے گورے، عالم جاہل ہر انسان کی ہدایت کے لیے ہے کہ جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر قیامت تک کے آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے، وہیں کبھی کھلے طور اور کبھی دبے دبے انداز میں اس بات کا اقرار بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے کئی علوم میں مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالانکہ موقع بہ موقع وہ بڑے زعم سے اور پوری خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی وہ آیات بھی پڑھتے ہیں جس میں قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے آسان بنا کر اتارا گیا ہے:
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر)
اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے نصیحت اخذ کرنے کے لیے‘ تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (ص)
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَیٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا – (محمد)
کیا یہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے؟
موجودہ دور کے مسلمانوں کی کم نصیبی کہیں یا بے عقلی کہ وہ اپنے پاس ایک ایسی شاندار احکامی کتاب رکھتے ہوئے بھی جس پر عمل پیرا ہو کر ان کے آباؤ اجداد نے کئی صدیوں تک ایک عالم پر زمینی اور روحانی حکمرانی کی اور انسانوں کو فلاح والا راستہ دکھایا، نہ اس کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہ اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ کبھی اپنے بد ترین حالات اور مشکلات میں اس پر غور و خوض کر کے ان سے نکلنے کے لیے راہ ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ خراب اور مشکل حالات میں بطور وظیفہ اس کی تلاوت کو کافی سجھ کر اس کی ورق گردانی کر لیتے ہیں اور پھر اسے چوم کر کسی اونچی جگہ پر حصول برکت کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ آج ہم لوگ جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اور رب العزت نے اسے ایک امتحان گاہ بنا کر انسانوں کو یہاں پیدا کیا تبھی سے حق اور باطل میں کشمکش اس دنیا کے وجود کا اک حصہ بنی ہوئی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ باطل ایک مدت تک بظاہر طاقتور اور ناقابل تخسیر اور حق پسپا ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اچانک پانسا پلٹتا ہے اور حق باطل پر غالب آجاتا ہے۔ در حقیقت یہ اس امتحان کا ایک حصہ ہے کہ جس کے نتائج پر انسانوں کے اُخروی فلاح کا تعین ہوگا۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف باطل کا بول بالا ہو حق پرستوں کو کیا کرنا چاہیے اس کی صحیح رہنمائی قرآن میں کئی مثالوں کے ساتھ سجھائی گئی ہے۔
دنیا بھر میں حق اور باطل کی کشمکش آج ایک نئے اور الگ انداز میں سامنے آئی ہے۔ باطل ہر جگہ مال و دولت کے انبار کے ساتھ سیاسی اقتدار سے لیس ‘أَنَا رَبُّکمُ الْأَعْلَی’ کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے تو حق مضمحل اور شکست خوردہ نظر آرہا ہے۔ بالکل قوم مصر، فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح، جب وہاں کی ایک بڑی اکثریت اپنے حاکم کی اندھ بھکتی میں بنی اسرائیل نامی ایک کمزور اقلیت کے درپے ہو گئی۔ فرعون کوئی عام بادشاہ نہیں تھا وہ ایک نظریہ رکھتا تھا اور اس نظریے کی سر بلندی اس کا مقصد حیات تھا۔ اس کے لیے اس نے اپنی قوم کے جذبات کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کیا اور کس طرح انہیں اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کیا قرآن میں اس تعلق سے واضح آیات موجود ہیں:
وَ نادی فِرْعَوْنُ فی قَوْمِہِ قالَ یا قَوْمِ أَلَیْسَ لی مُلْکُ مِصْرَ وَ ہذِہِ الْأَنْہارُ تَجْری مِنْ تَحْتی أَفَلا تُبْصِرُون؛(زخرف)
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا: اے میری قوم کیا مصر کی مملکت میری نہیں ہے اور میرے قدموں کے نیچے بہنے والی نہریں کیا میری ملکیت نہیں ہیں؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے؟
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یا أَیہَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَکم مِّنْ إِلَہٍ غَیرِی (القصص)
اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی خدا کو نہیں جانتا۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِی الْأَرْضِ وَ جَعَلَ أَہْلَہا شِیَعاً یَسْتَضْعِفُ طائِفَۃً مِنْہُمْ یُذَبِّحُ أَبْنائَہُمْ وَ یَسْتَحْیی نِسائَہُمْ إِنَّہُ کانَ مِنَ الْمُفْسِدین؛ (القصص) فرعون زمین پر سرکش بن گیا اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک گروہ کو ضعیف و کمزور کر دیا، ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا بے شک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔
إِلی فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِہِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ ما أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشید (ھود)
فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، پس انہوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی اور فرعون کا امر عقلمندانہ نہیں۔
وَ أَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہُ وَ ما ہَدی (طہٰ)
اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھا
ان آیات کو ہمارے موجودہ حالات پر چسپاں کر کے دیکھیں، کیا دونوں میں حیرت انگیز مماثلت نہیں ہے؟ یہ اور بات ہے ظلم کی شکلیں مختلف ہوگئی ہیں لیکن شر اور فساد پھیلانے میں دونوں کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ اہل زمین کو گروہوں میں تقسیم کرنا اور پھر انہیں آپس میں لڑانا یہ ازل سے باطل کا معمول رہا ہے۔ اس کے علاوہ طاغوت کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو شر اور فساد پھیلانے والوں سے تعبیر کر کے ان کے گمراہ ہونے کا زور و شور سے پروپگینڈا کرتا ہے۔
وَ قالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونی أَقْتُلْ مُوسی وَ لْیَدْعُ رَبَّہُ إِنِّی أَخافُ أَنْ یُبَدِّلَ دینَکُمْ أَوْ أَنْ یُظْہِرَ فِی الْأَرْضِ الْفَساد (المومن)
اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔ بے شک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فساد برپا کرے گا۔
یہ آیت تو کھلے طور پر موجودہ فاشسٹ طاقتوں کی ذہنی عکاسی کر رہی ہے کہ وہ کس طرح حق کو فساد کہہ کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مذہب کے خطرے میں ہونے کی بات کہہ کر حق کے خلاف ماحول تیار کرتے ہیں۔ ان حالات کے درمیان حق کو کیسے بلند کیا جائے اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے خود کو اور اہل حق کو کیسے بچایا جائے اس پر قرآن مجید صاف الفاظ میں کہتا ہے:
فَأْتِیاہُ فَقُولا إِنَّا رَسُولا رَبِّکَ فَأَرْسِلْ مَعَنا بَنی إِسْرائیلَ وَ لا تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِئْناکَ بِآیَۃٍ مِنْ رَبِّکَ وَ السَّلامُ عَلی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدی(طہٰ) پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس سے جا کر کہو: ہم تیرے رب کے رسول ہیں پس ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو آزاد چھوڑ دے اور ان کو مزید عذاب میں مبتلا مت کر، ہم تیرے رب کی جانب سے تیرے پاس نشانی لے کر آئے ہیں اور اس پر سلام ہو جس نے ہدایت کی اتباع کی۔
وَأَوْحَیْنا إِلی مُوسی وَأَخیہِ أَنْ تَبَوَّئا لِقَوْمِکُما بِمِصْرَ بُیُوتاً وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَۃً وَأَقیمُوا الصَّلاۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنین؛(یونس)
اور ہم نے موسی اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور تم لوگ اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور تم مومنین کو بشارت سنا دو۔
ان آیات سے اور ان جیسی دیگر آیات سے جو فرعون اور بنی اسرائیل کو لے کر قرآن میں موجود ہیں یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں نماز کا قیام یعنی رجوع الی اللہ بے حد ضروری ہے، اس کے بعد وقت کے نبی کی قیادت میں مجتمع ہونا اولین مرحلہ ہے، چونکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے اس لیے کسی امیر کی قیادت میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بے باک ہو اور باطل سے لڑ جانے کا حوصلہ رکھتا ہو اس کے تابع ہوکر، اگر یہ امر محال نظر آئے تو ایک جماعت کی قیادت میں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیؐ اور حضرت ہارونؐکی مشترکہ قیادت میں کیا تھا اور اپنے حالات کو سنوارنے میں کامیاب ہوئے۔
ماحصل بس یہی ہے کہ کلمہ کی بنیاد پر مجتمع ہوکر قرآن کو مضبوطی سے تھام کر باطل سے ٹکرانے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرکے اس پر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔ چاہے فرعون وقت کا پورا لشکر ہی ہمارے پیچھے کیوں نہ پڑ جائے رب عظیم حالات کے نیل کو چیر کر ہمیں سرخروئی عطا کرے گا۔ اس کے لیے حضرت موسیؐ اور ہارونؐعلیھم السلام کے وارثین میں سے عظیم اور حوصلہ مند قیادت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ باطل کو اس کے چنگل میں پہنچ کر للکارنے کی جرات رکھنے والی قیادت کی ہر حال میں اطاعت ہو، چاہے اس کے لیے ذہن و دل کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے۔ اس بات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا کوئی بھی ترجمہ پڑھ کر اور غور وفکر کر کے دیکھ لیں، ان شاء اللہ آپ کے ذہن میں عمل کے اتنے دریچے وا ہوں گے کہ آپ کلام اللہ کی وسعت، گہرائی اور گیرائی پر حیران رہ جائیں گے۔ ہمارے آباؤ اجداد، جن کے کارناموں پر باطل آج بھی لرزاں ہو جاتا ہے، ان کی کامیابی کا واحد راز یہی تھا کہ وہ قرآن کے قاری ہی نہیں اس پر مکمل یقین کے ساتھ عمل کرنے والے بھی تھے اور یہی وہ بات ہے جو آج ہم میں نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم بہت کچھ رکھتے ہوئے بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا:
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024