شیوسینا کے انتخابی نشان کا اصل حقدارکون ؟ 27 ستمبر کو فیصلہ
نئی دہلی، ستمبر 8: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ وہ 27 ستمبر کواس بات پر غور کرے گی کہ آیا الیکشن کمیشن انتخابی نشان دھنش تیرشیوسینا کے کس دھڑے کو ملے،اس پر غور کرے یا نہ کرے۔
جون میں مہاراشٹر میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد شیوسینا پارٹی پر قبضہ کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ اس کے اصل نشان کا معاملہ الیکشن کمیشن کے زیر غور ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت میں دونوں دھڑوں نے انتخابی نشان پر اپنا دعویٰ پیش کیا ہے۔ مسٹر شندے کی قیادت والے دھڑے نے خود کے حقیقی شیوسینا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے پارٹی کے دونوں دھڑوں سے جواب مانگے ہیں۔ سپریم کورٹ میں آج اس معاملے کی مختصر سماعت ہوئی۔
یہ تبصرہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کیا۔ عدالت نے تمام فریقوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ سماعت سے پہلے تین صفحات سے زائد کا ایک تفصیلی نوٹ اس تعلق سے داخل کریں۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اروند داتار نے کہا کہ الیکشن سمبلز ایکٹ کے تحت اگر کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو تمام فریقین کو نوٹس جاری کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عمل میں کافی وقت لگتا ہے۔
آئینی بنچ میں جسٹس ایم آر شاہ، جسٹس کرشنا مراری، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا بھی شامل ہیں۔
سینئر وکیل نیرج کشن کول نے شندے دھڑے کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہے اور اسے فیصلہ کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
ٹھاکرے دھڑے کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکم نے مسٹر ٹھاکرے اور ان کے حامیوں کو وقت مانگنے کی آزادی دی تھی۔
قبل ازیں منگل کو سپریم کورٹ نے شیو سینا کے تنازعہ میں ایکناتھ شندے دھڑے کے موقف کی سماعت کی تھی۔ ٹھاکرے دھڑے نے الیکشن کمیشن سے شیو سینا اور شندے دھڑے کے پارٹی کے نشان پر دعوے پر کارروائی روکنے کی اپیل کی ہے۔
خیال رہے کہ شندے دھڑے نے ایک عرضی دائر کی تھی جس میں انہیں ‘اصل شیوسینا’ کے طور پر تسلیم کرنے اور پارٹی کے انتخابی نشان دھنش اور تیر کو الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے 25 اگست کو ٹھاکرے دھڑے کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کی درخواست پر شیوسینا کے نشان کے معاملے پر عبوری راحت کے لیے یہ معاملہ آئینی بنچ کے سامنے رکھا تھا۔