مسلمان ووٹر ایک بار پھر سے ممتا بنرجی کا ساتھ دے گا یا مغربی بنگال کا منظر نامہ کچھ اور ہوگا؟

کیا بی جے پی اور ترنمول کے درمیان کانٹے کی ٹکر ہوگی؟

افروز عالم ساحل 

مغربی بنگال کی سیاست کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے مسلمان جس سیاسی جماعت کے ساتھ رہے ہیں اقتدار پر اسی کا قبضہ رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغربی بنگال میں مسلمان جب تک کم و بیش لیفٹ فرنٹ کے ساتھ تھے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) قریب 34 سالوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔ 2011 میں جب یہاں مسلمانوں نے ترنمول کانگریس کا ساتھ دیا تو یہاں اقتدار کا منظر نامہ پوری طرح سے بدل گیا۔ ممتا بنرجی مغربی بنگال کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنیں اور اب تک اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یہاں تبدیلیاں تو بہت ہوئیں مگر یہاں کے مسلمانوں کے حالات میں ابھی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ان حالات میں دیکھنا ہوگا کہ مسلمان ووٹر ایک بار پھر سے ممتا بنرجی کا ساتھ دے گا یا مغربی بنگال کا منظر نامہ کچھ اور ہوگا۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے مغربی بنگال کے سیاسی پنڈتوں سے ملاقات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس بار یہاں کھیلے جانے والے سیاسی کے ’کھیل‘ کے نتائج کیا کچھ نکل سکتے ہیں۔

سینئر صحافی نوراللہ جاوید کے مطابق مغربی بنگال کا الیکشن اس بار اس معنی میں اہم ہے کیونکہ یہاں پہلی بار ’سیکولر‘ بنام ’کمیونل‘ الیکشن ہو رہا ہے۔ اس سے قبل یہاں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں دو ’سیکولر‘ پارٹیوں کے درمیان ہی مقابلہ ہوا ہے اور روٹی، کپڑا اور مکان ہی اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن اس بار روٹی، کپڑا اور مکان ایشو نہیں ہے بلکہ ’جئے شری رام‘ اور ’جئے شیا رام‘ کا مقابلہ ہو رہا ہے۔

نوراللہ جاوید کولکاتہ میں مقیم ہیں اور جلد ہی بنگال کی سیاست پر ان کی کتاب ’بنگال کے مسلمان‘ شائع ہونے والی ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی کا ایجنڈہ تو سب جانتے ہیں لیکن ترنمول کانگریس بھی اس بار خود کو ہندوؤں کی پارٹی دکھانے کی کوشش میں لگ گئی ہے۔

اس مرتبہ کے الیکشن میں مسلمانوں کے رول پر گفتگو کرتے ہوئے نوراللہ جاوید نے کہا کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جانا چاہیے۔ ایک اردو بولنے والے جو اس مرتبہ آنکھ بند کر کے ممتا بنرجی کے ساتھ جائیں گے جبکہ غیر اردو بولنے والے اس مرتبہ بکھرے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے مسلمانوں میں ممتا بنرجی کے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے کیونکہ ترنمول کانگریس کے لوگوں نے ان کے ساتھ اچھا برتاو نہیں کیا ہے اور انہیں ایک طرح سے غلام بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے فرفرہ شریف کے پیر زادہ عباس صدیقی نے ‘انڈین سیکولر فرنٹ’ نامی ایک سیاسی پارٹی بنائی ہے اور اس بار الیکشن میں آئین کے تحفظ، سماجی انصاف اور ہر ایک کی عزت کے نعرے کے ساتھ یہ پارٹی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔

نوراللہ جاوید کہتے ہیں کہ بنگال کے جنوبی علاقے کے مسلمانوں کا ایک بڑا حلقہ عباس صدیقی کے ساتھ جائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سی اے اے اور این آر سی کا ڈر دکھا کر شاید ممتا بنرجی 70 فیصد مسلمانوں کا ووٹ اپنی طرف کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سیاسی تجزیہ نگار و ریسرچ اسکالر عبدالمتین نے بتایاکہ دیگر ریاستوں کی طرح یہاں کا مسلمان بھی ہمیشہ سیکولر فورس کے ساتھ رہا ہے لیکن مغربی بنگال میں مسلمانوں کا مسئلہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مسلمانوں سے الگ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ اس بار پوری لڑائی بی جے پی اور ٹی ایم سی کے درمیان ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ اس بار کے سیاسی ’کھیل‘ میں کانگریس، لیفٹ اور انڈین سیکولر فرنٹ بھی شامل ہے۔

عبدالمتین کہتے ہیں کہ 2019 لوک سبھا میں بی جے پی کو 18 سیٹیں ملنے کی وجوہات دیگر تھیں۔ لیکن بی جے پی اس بار کی لڑائی میں تیسرے نمبر کی کھلاڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ممتا بنرجی کی مقبولیت میں تھوڑی کمی آئی ہے۔ ترنمول کے بڑے لیڈرس بی جے پی میں شامل ہو جانے کے بعد کر ٹی ایم سی پر یہاں کے لوگوں کا بھروسہ مزید کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹی ایم سی کو ووٹ دینے سے فائدہ بی جے پی کو ہی ہو گا۔

واضح رہے کہ عبدالمتین دہلی کے جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے ’بنگال کی مسلم سیاست‘ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان دنوں مغربی بنگال کے جادھوپور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

کولکاتا میں مقیم صحافی عبدالحمید کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ خود مسلم لیڈروں کا ہے جو صرف تقریر کرنا جانتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد کوئی بھی کام نہیں کرتا۔ اگر وہ صرف اپنے فنڈ کا ہی ایمانداری سے استعمال کر لیتے تو مسلم علاقوں کے حالات ایسے نہیں ہوتے۔ کوئی بھی لیڈر خود مسلمانوں کے حالات نہیں بدلنا چاہتا۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی بدحالی کے ذمہ دار خود مسلم لیڈر ہی ہیں۔ ممتا دیدی کی کابینہ میں 7 مسلم وزیر ہیں لیکن انہوں نے یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ بھی کام نہیں کیا ہے۔ عبدالحمید حیدرآباد کے روزنامہ سیاست کے ویب پورٹل سے جڑے ہوئے ہیں۔

کول انڈیا سے ریٹائر ہوئے امتیاز حسین کہتے ہیں، مسلم ووٹ ہمیشہ فٹ بال کی طرح رہا ہے اور رہے گا کیونکہ ووٹنگ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ہے۔ قدر و قیمت بارگیننگ کی ہوتی ہے۔ مسلمان ابھی تک اپنے اندر بارگیننگ کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ممتا دیدی کا ہاتھ فرقہ پرستی سے بالکل پاک ہے۔ وہ واجپئی سرکار میں بی جے پی کے ساتھ رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اپنا دروازہ فرقہ پرستوں کے لیے ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔ ایسے میں اگر حالات اس طرح بنتے ہیں کہ انہیں بی جے پی سے مدد لینی پڑ جائے تو وہ مدد لینے سے دریغ نہیں کریں گی۔

امتیاز حسین کا کہنا ہے کہ ممتا دیدی پھر سے اقتدار میں ہوں گی۔ وہ کہتے ہیں میرے اپنے مشاہدے کے مطابق ممتا بنرجی نے یہاں زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کئی اہم اسکیموں کی شروعات کی ہیں۔ خاص طور پر ان کی لائی ہوئی ہیلتھ اسکیم کا لوگوں میں کافی اچھا اثر ہے۔ حالانکہ امتیاز حسین یہ بھی کہتے ہیں کہ ممتا دیدی کو لیفٹ اور کانگریس کو اپنے ساتھ ملا کر آگے بڑھنا چاہیے، اس معاملے میں انہیں تھوڑی دریا دلی دکھانے کی ضرورت ہے۔

عالیہ یونیورسٹی کولکاتا میں شعبہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کے اوفیسیٹنگ ہیڈ محمد ریاض کا بھی کہنا ہے کہ اس بار کے الیکشن میں بھی زیادہ تر مسلمان ممتا دیدی کے ساتھ ہی نظر آ رہے ہیں۔ لیکن اب بنگالی مسلم کمیونٹی نے حکومت سے اپنے لیے مطالبے کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہی مطالبوں کی ایک آواز فرفرہ شریف سے عباس صدیقی کی بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ممتا بنرجی نے اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی ترقی کا کام نہیں کیا ہے۔ حالانکہ محمد ریاض کہتے ہیں کہ ممتا بنرجی کی حکومت میں بہت سارے کام ہوئے ہیں اور اس کا فائدہ یہاں کے ہر طبقے کو ملا ہے۔

پروفیسر امرتیہ سین کے Pratichi Institute کے سینئر ریسرچر صابر احمد کے پاس کولکاتا کے مسلمانوں کے حالات پر ڈیٹا کی شکل میں کافی معلومات ہیں جس پر انہوں نے ہفت دعوت سے تفصیلی گفتگو کی۔ لیکن ان حقائق و ڈاٹا سے الگ ان کا ماننا ہے کہ اس بار الیکشن بہت سخت ہونے جا رہا ہے جس میں یہاں کے مسلمان ایک بڑا رول ادا کرنے والے ہیں۔ یہاں تمام پارٹیوں کی نظر انہی کی جانب ہے۔

ایسے حالات میں ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو پارٹی کی بجائے ہر سیٹ پر وہاں کے امیدواروں کے مطابق منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے بنگال اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہاں کی سیاست میں ہر دن نئی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، بلکہ یہ کہیے کہ یہاں کے سیاسی حلقے میں طوفان مچا ہوا ہے اور اس طوفان میں ’کھیلا ہوبے‘ نعرہ نے اس سیاسی کھیل کو مزید مزیدار بنا دیا ہے۔ ایسے میں آگے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس سیاسی کھیل میں کس ’ٹیم‘ کی جیت ہو گی اور کون ’میں آف دی میچ‘ بنے گا۔

کیا ہے مغربی بنگال میں مسلم سیاست کے اعداد و شمار

مغربی بنگال کی سیاست میں مسلمان سب سے اہم کردار رہے ہیں۔ یہاں ان کی آبادی انہیں اہم بناتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اور بھی اہم ہے کہ مغربی بنگال میں جس تناسب سے مسلمانوں کی ووٹ بینک کی حصہ داری ہے کیا اسی تناسب سے اقتدار میں بھی ان کی حصہ داری ہے؟ انہیں کوئی پوچھنے والا یا حصہ دینے والا ہے بھی یا نہیں؟ اور کیا یہاں مسلمان صرف اقتدار پانے کا وسیلہ بن کر رہ گئے ہیں؟

اعداد و شمار کی بات کریں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01 فیصد ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے لیکن جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھی ہے اس کے برعکس اقتدار میں ان کی شراکت میں اضافہ نظر نہیں آتا۔ اور یہاں کی سیاسی پارٹیاں اس تناسب میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دنیا مناسب بھی نہیں سمجھتیں۔

یہی نہیں، غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مغربی بنگال کے تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے تنظیمی ڈھانچوں میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی کم ہے۔ کسی پارٹی میں ایک دو فیصد مسلم لیڈر کسی اہم عہدے پر ہیں بھی تو ان کا ان کی پارٹی میں ہی کوئی اثر ہے اور نہ ان کو فیصلہ لینے کا کوئی اختیار۔ مغربی بنگال کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ یہاں کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی مسلم امیدوار اپنے دم پر الیکشن جیتتا ہے، اس میں ملک کے دیگر حصوں کی پارٹیوں کی طرح یہاں کسی پارٹی کا کوئی خاص رول نظر نہیں آتا۔

آپ کو بتا دیں کہ 2001 سے 2011 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 25.25 فیصد تھی۔ لیکن اقتدار میں ان کی شراکت گزشتہ 10 سالوں سے 20 فیصد کی حد تک ہی سمٹی ہوئی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس کے مقابلے اقتدار میں مسلمانوں کی شراکت نظر آنا چاہیے لیکن کہاں؟۔

2011 اور 2016 اسمبلی الیکشنوں میں یہاں59 مسلم ارکان اسمبلی (ایم ایل اے) منتخب ہوئے۔ جبکہ اس سے قبل 2006 کے اسمبلی الیکشن میں یہاں 45 مسلم رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ سال 2016 کے اسمبلی الیکشن کی بات کریں تو ممتا بنرجی کی پارٹی ٹی ایم سی کی 294 امیدواروں کی فہرست میں 52 مسلم امیدواروں کا نام نظر آتا ہے۔ یعنی اگر فیصد کے حساب سے بات کریں تو یہ تعداد کل امیدواروں کے مقابلے میں قریب 17 فیصد ہی تھی۔ جس میں 32 امیدواروں نے شاندار جیت حاصل کی۔ وہیں جیت درج کرنے والے مسلم ارکان اسمبلی میں 18 کانگریس اور 9 لیفٹ فرنٹ سے تھے۔

اور یہ حالت تب کی ہے جب مغربی بنگال کے 48 اسمبلی سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی آبادی 50 فیصد سے اوپر ہے۔ وہیں 58 سیٹوں پر مسلمان ووٹروں کی آبادی 30 فیصد سے 49 فیصد کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ 65 سیٹوں پر ان کی آبادی 20 سے 29 فیصد تک ہے۔ یعنی یہاں مسلمان کسی بھی پارٹی کی فتح میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لہٰذا اس طرح سے اگر مغربی بنگال کی کل 294 سیٹوں کا اندازہ کریں تو 171 سیٹوں پر مسلم ووٹ براہ راست نتائج پر اثرانداز ہوتے ہیں اور کم از کم 106 اسمبلی سیٹوں پر مسلمان ووٹر اپنے من پسند رکن اسمبلی منتخب کر کے اسے اسمبلی میں بھیج سکتے ہیں اور ان سے ان کی پسندیدہ حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی تمام سیا سی پارٹیاں مسلم ووٹ پانے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپناتی ہیں لیکن اس کے باوجود اسمبلی میں مسلم ارکان کی محض 59 کی تعداد حیران کردینے والی ہے۔ غور طلب رہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے محض 148 اسمبلی سیٹیں ہی درکار ہوتی ہیں۔

ایک بات یہاں مزید غور کرنے کی ہے۔ مغربی بنگال میں ایس سی/ ایس ٹی کے لیے کل 84 سیٹیں مخصوص ہیں۔ لیکن جب ہم وہاں مسلمانوں کی آبادی پر غور کرتے ہیں تو کئی سیٹوں پر مسلمانوں کی آبادی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ان 84 مخصوص سیٹوں میں دو اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 50 فیصد سے اوپر ہے۔ وہیں 7 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 40 سے 50 فیصد ہونے کے باوجود مخصوص کر دی گئی ہیں۔ 8 اسمبلی سیٹیں جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 30 سے 40 فیصد ہے، لیکن یہ سیٹیں مخصوص ہیں۔ وہیں 18 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے، لیکن ایس سی/ ایس ٹی سماج کے لیے مخصوص ہیں۔

مرشدآباد کی کھارگرام اسمبلی سیٹ میں مسلم ووٹرز کی آبادی قریب 55 فیصد ہے۔ لیکن یہ نشست ایس سی کے لیے مخصوص ہے، جب کہ یہاں دلت ووٹرس محض 23 فیصد ہیں۔

مرشدآباد کی ناباگرام اسمبلی سیٹ کی بھی کم و بیش ایسی ہی کہانی ہے۔ یہاں پر 53 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ لیکن یہ سیٹ ایس سی امیدوار کے لیے مخصوص ہے جبکہ یہاں دلت ووٹرس کی تعداد 24 فیصد کے آس پاس ہی ہے۔ قبائلی ووٹرز کی تعداد تقریباً 6 فیصد ہے۔

اویسی فیکٹر کتنا کرے گا کام؟

مغربی بنگال اسمبلی الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی سب سے زیادہ چرچہ میں اسدالدین اویسی اور ان کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس پارٹی کے الیکشن لڑنے کے نتیجے میں مغربی بنگال کی سیاست پوری طرح سے بدل جائے گی۔ لیکن کیا حقیقت میں مجلس اتحاد المسلمین زمینی سطح پر ایسا کوئی اثر رکھتی بھی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہفت روزہ دعوت نے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے رابطہ قائم کیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ مغربی بنگال میں اویسی فیکٹر کتنا کام کرے گا؟

کولکاتا کی عالیہ یونیورسٹی میں شعبہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کے اوفیسیٹنگ ہیڈ محمد ریاض کہتے ہیں کہ مغربی بنگال کے اس الیکشن میں اسدالدین اویسی کا کوئی خاص نہیں اثر پڑے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں مغربی بنگال میں اپنی پارٹی کے لیے کوئی بنگالی چہرہ بھی نہیں مل پایا ہے۔ وہ 3 جنوری کو فرفرہ شریف اس لیے آئے تھے تاکہ پیر زادہ عباس صدیقی ان کی پارٹی کا چہرہ بن جائیں لیکن عباس صدیقی نے ان کے جاتے ہی خود کی سیاسی پارٹی بنا ڈالی۔ ایسے میں اویسی صاحب کو ابھی بھی ایک بنگالی چہرے کی تلاش ہے، جس کے نام پر ان کی پارٹی کو ووٹ مل سکے، کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ صرف ان کے نام پر بنگالی مسلمانوں کا ووٹ انہیں ملنے والا نہیں ہے۔

لیکن عباس صدیقی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسدالدین اویسی کا ساتھ دینے کی بات کہی ہے؟ اس پر محمد ریاض کہتے ہیں کہ یہ عباس صدیقی کا دیگر سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ ابھی تک حالات کے مطابق عباس صدیقی کانگریس اور لیفٹ فرنٹ کے ساتھ جا رہے ہیں اور یہ تقریباً طے ہے کہ اسدالدین اویسی اس الائنس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

لیکن سینئر صحافی نوراللہ جاوید کا کہنا ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین بہار کے سیمانچل سے لگے ہوئے علاقوں کی اسمبلی سیٹوں پر ایک فیکٹر بن سکتا ہے۔ وہاں کچھ حد تک ان کی پارٹی کی پکڑ ہے اور وہیں ان کی تنظیم بھی کھڑی ہے۔

نوراللہ جاوید کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عباس صدیقی اویسی کی طرف جھکاو رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لیں گے۔ صرف کانگریس و لیفٹ فرنٹ کے ساتھ ان کا اتحاد ان کے حق میں ہو گا۔ کیونکہ ان کی مقبولیت صرف کچھ جذباتی مسلمانوں تک ہی محدود ہے۔ لیکن الیکشن صرف مقبولیت کی بنیاد پر نہیں لڑا جاتا بلکہ تنظیمی سطح پر لڑا جاتا ہے۔ اور تنظیم نام کی چیز فی الحال ان کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں کانگریس اور لیفٹ فرنٹ کے ساتھ ان کا اتحاد ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اویسی کے ساتھ جانے کے بعد اویسی کے ساتھ جو ناکامیاں لگی ہوئی ہیں وہ ان کے ساتھ جڑ جائیں گی اور پھر وہ بھی بنگال کی سیاست میں اچھوت بن جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ نگار و ریسرچ اسکالر عبدالمتین کہتے ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین یہاں کوئی بڑا فیکٹر نہیں ہے۔ ابھی یہاں ان کی پارٹی میں اویسی صاحب کے علاوہ کوئی بھی بڑا چہرہ نہیں ہے۔ بس اویسی صاحب کی ایک الگ امیج ہے، لیکن ان کی وہ امیج ووٹ پر کتنی اثر انداز ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔

عبدالمتین کا کہنا ہے کہ اگر اسدالدین اویسی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی زمینی حقیقت چاہے جو بھی ہو، اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں مغربی بنگال کی پوری سیاست اسدالدین اویسی پر ہی ٹکی ہوئی ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اویسی سے ملاقات سے قبل فرفرہ شریف کے پیرزادہ عباس صدیقی کو مغربی بنگال سے باہر جاننے والے لوگوں کی تعداد کافی کم تھی۔

مسلم سماج کے لوگ اسدالدین اویسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں لیکن دیگر سیاسی پارٹیاں اویسی کو لے کر کافی پریشان نظر آ رہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کولکاتا میں ہونے والی مجلس اتحاد المسلمین کی پہلی ریلی کو ہی ممتا بنرجی کی سٹی پولیس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اسدالدین اویسی نے امیت شاہ، بی جے پی کو اجازت دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے بنگال جانے کا عزم دہرایا ہے۔

آپ کو بتادیں کہ 3 جنوری کو اسدالدین اویسی نے فرفرہ شریف جاکر پیر زادہ عباس صدیقی سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں عباس صدیقی نے کہا تھا کہ اویسی صاحب نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا تھا کہ انہیں بنگال سے متعلق معلومامات نہیں ہے۔ اس لیے میری قیادت میں وہ بنگال کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ایک سیاسی جماعت تشکیل دینے جا رہا ہوں۔ اویسی نے کہا کہ وہ اتحاد کرنے کو تیار ہیں۔ اگر اویسی ہمارے اتحاد میں آتے ہیں تو ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

لیکن عباس صدیقی کے ذریعہ اپنی پارٹی بنانے کے اعلان کے بعد مغربی بنگال کا منظر نامہ بدلا ہوا نظر آنے لگا۔ ان کی پارٹی کے ساتھ کانگریس اور لیفٹ فرنٹ اتحاد کے لیے تیار نظر آ رہی ہے۔ عباس صدیقی نے اس الائنس میں مجلس اتحاد المسلمین کو شامل کرنے کی بات رکھی تاکہ مسلم ووٹ زیادہ منتشر نہ ہو، لیکن کانگریس نے مجلس اتحاد المسلمین کو اپنے الائنس شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عباس صدیقی مستقبل میں کیا کرتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ اسدالدین اویسی کی نظر مغربی بنگال کی صرف ان سیٹوں پر ہے جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بیشتر سیٹیں بہار اور آسام سے متصل ہیں۔ بہار میں مجلس نے سیمانچل علاقے کی جن پانچ سیٹوں پر جیت درج کی ہے وہ علاقے بھی مغربی بنگال سے متصل ہیں اور مغربی بنگال کے ان علاقوں میں کشن گنج کی سیاست کا کافی اثر پڑتا ہے اور مجلس کے بہار سربراہ اخترالایمان کی یہاں الگ ہی شناخت ہے۔

ویلفیئر پارٹی بھی ہو گی میدان میں

مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے بھی حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں بتایا کہ پارٹی نے پورے مغربی بنگال سے 22 اسمبلی سیٹوں کو منتخب کیا ہے اور 4 اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی پوری تیاری کرلی ہے۔

مغربی بنگال میں مسلم سیاست کے سوال پر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ ’’ہم لوگ مسلم سیاست نہیں کرتے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا ہر طبقہ کے لیے ہے۔ جہاں تک فرفرہ شریف کے پیر زادہ عباس صدیقی کا تعلق ہے تو انہوں نے ‘انڈین سیکولر فرنٹ’ بنایا ہے اور ان کی لیفٹ فرنٹ اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کی بات چل رہی ہے اگرچہ وہ بھی مسلم سیاست نہیں کر رہے ہیں بلکہ سب کے ساتھ مل کر لڑنے کی بات کر رہے ہیں، حالانکہ پہلے ان کی بات چیت اسدالدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ چل رہی تھی لیکن کانگریس نے اس اتحاد سے انکار کر دیا ہے ایسے میں عباس صدیقی کیا کریں گے یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ ویلفیئر پارٹی کے اتحاد کے امکانات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’’ہمارا ان کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا اس لیے کہ ویلفیر پارٹی کمیونل یا آئیڈنٹیٹی پالیٹکس نہیں کرتی۔‘‘

ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ اویسی صاحب آئیڈنٹیٹی پالیٹکس ہی کرتے ہیں۔ ایک سیکولر پارٹی ہونے کے ناطے ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آئیڈنٹیٹی پالیٹکس کو بی جے پی کمیونلرائز کر لیتی ہے چاہے اویسی صاحب کمیونل سیاست کریں یا نہیں کریں لیکن جیسے ہی وہ سیاسی میدان میں اترتے ہیں ووٹر پولرائز ہوجاتا ہے۔

حالانکہ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہنا ہے کہ مغربی بنگال میں اگر کوئی بڑا الائنس بنتا ہے اور اسدالدین اویسی بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے،۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس جنگی پور لوک سبھا سیٹ سے دو بار الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا گزشتہ کئی سالوں سے مغربی بنگال کے کچھ علاقوں میں کافی سرگرم ہے۔ یہ پارٹی مغربی بنگال کو شراب سے نجات دلانے کیلئے ریاست گیر مہم چلا چکی ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں جلوس اور عوامی بیداری کیلئے کئی پروگرام بھی منعقد کر چکی ہے۔ گزشتہ دنوں مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں شراب کی دوکانوں کے سماج پر برے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی کے سیکڑوں کارکنان نے کولکاتا میں اپنا احتجاج درج کرایا تھا۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کیلئے دیہی علاقوں میں شراب کی دوکانیں کھول رہی ہے مگر سماج و معاشرہ پر اس کے بہت ہی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔

کیا ہے فرفرہ شریف اور کتنا ہے اس کا اثر؟

فرفرہ شریف مغربی بنگال میں ضلع ہگلی کا ایک گاؤں کا نام ہے جو کولکاتا سے 41 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں سن 1375 میں تعمیر شدہ ایک تاریخی مسجد اور ایک مشہور مزار ہے۔ یہ مزار پیر ابوبکر صدیق کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیر ابوبکر صدیق ایک سماجی و مذہبی مصلح تھے جنہوں نے یہاں کئی خیراتی اداروں، یتیم خانوں، مدرسوں، اسکولوں اور لرننگ سنٹر کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر کافی زور دیا اور ان کے لیے یہاں ’صدیقہ ہائی اسکول‘ قائم کیا تھا ۔ آپ ’’سلسلہ فرپورہ شریف‘‘ کے بانی تھے۔

سلسلہ فرفرہ شریف پر جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے عبدالمتین بتاتے ہیں کہ اس کا اثر مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ آسام، تریپورہ اور بنگلہ دیش تک ہے۔ اس سلسلہ نے مغربی بنگال میں تقریباً دو ہزار سے زائد مدارس و مکاتب قائم کیے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کے مرید ہیں۔ بنگال میں ہر طبقے کے لوگوں کا فرفرہ شریف سے خاص لگاؤ ہے۔ اس کے علاوہ پورے مغربی بنگال میں ان کا جلسہ ’ایصال ثواب‘ صرف برسات کا موسم چھوڑ کر پورے سال ہوتا ہے۔ اس فرفرہ شریف سے وابستہ قریب سو سے زائد پیر حضرات جلسہ ’ایصال ثواب‘ میں تقریر کرتے ہیں اور اس طرح کے جلسے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ ایک طویل گفتگو میں عبدالمتین نے بتایا کہ عباس صدیقی اس سلسلہ کے کئی پیرزادوں میں سے ایک ہیں۔ جس طرح ان کے سیاسی جلسوں میں پر جوش لوگوں کا ہجوم امڈ رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال کے اس اسمبلی الیکشن میں عباس صدیقی کیا اثر ڈال سکتے ہیں۔ عبدالمتین کے مطابق فرفرہ شریف کی اہمیت سمجھنے کے لیے مغربی بنگال کے گاؤں میں جانا مفید ہوگا۔

آپ کو بتا دیں کہ فرفرہ شریف سے سیاسی لیڈروں کا کافی پرانا رشتہ رہا ہے۔ ہر سال الیکشن میں مختلف پارٹیوں کے لیڈر یہاں آتے ہیں اور پیرزادوں کی دعا لیتے ہیں، لیکن اب پہلی بار فرفرہ شریف کے ایک اہم پیر زادہ عباس صدیقی نے خود کی سیاسی پارٹی ’’انڈین سیکولرفرنٹ‘‘ بنا لی ہے، جس کے بعد سے بنگال کے سیاست میں طوفان مچا ہوا ہے۔ ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور لیفٹ فرنٹ نے ان کے ساتھ الائنس کرنے کی بات بھی گردش کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عباس صدیقی کی مغربی بنگال کے کچھ علاقوں میں دلت اور مسلم کمیونٹیز میں مضبوط گرفت ہے۔ انہیں یہاں بھائی جان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

پارٹی بننے کے بعد کولکاتا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عباس صدیقی نے کہا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ریاست کی اقلیت، دلت اور آدی واسی حاشیائی کردار پر ہیں، ان کی سماجی و معاشی حالت انتہائی خراب ہے۔ اس لیے ہم نے اقلیت، دلت اور قبائلیوں کو انصاف دلانے کے لیے سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے آئین نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے تحفظ اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے اپنے طور جدوجہد کریں۔ یعنی انہوں نے شروع میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اقلیت کے ساتھ دلت اور قبائلیوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے۔

حالانکہ اسی فرفرہ شریف سے تعلق رکھنے والے عباس صدیقی کے چچا سینئر پیر زادہ طہ صدیقی نے سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی نے ہی مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لیے عباس صدیقی کو کھڑا کیا ہے اور وہی فنڈنگ بھی کر رہی ہے۔

19,20 لوک سبھا میں بی جے پی کو 18 سیٹیں ملنے کی وجوہات دیگر تھیں۔ لیکن بی جے پی اس بار کی لڑائی میں تیسرے نمبر کی کھلاڑی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ممتا بنرجی کی مقبولیت میں تھوڑی کمی آئی ہے۔ ترنمول کے بڑے لیڈرس بی جے پی میں شامل ہو جانے کے بعد ٹی ایم سی پر یہاں کے لوگوں کا بھروسہ مزید کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ لوگوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ٹی ایم سی کو ووٹ دینے سے فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021