وقف املاک کا ڈیجیٹائزیشن: رفتار دھیمی اور معلومات ادھوری، اپنی معنویت کھورہی ہیں وقف کی دو اہم اسکیمات

مرکزی وقف کونسل اہداف حاصل کرنے میں ناکام

افروز عالم ساحل

موجودہ مرکزی حکومت نے اوقاف کے مسئلہ میں وعدے اور دعوے تو بہت کیے لیکن جب ان کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا موقع آیا تو صرف یہ کارِ خیر انجام دیا کہ پرانی اسکیم کا نام بدل کر دو نئی اسکیموں کا اعلان کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اسکیموں سے وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا جو اقلیتوں کو دکھایا گیا تھا۔ فی الحال وقف سے متعلق حکومت کی دونوں اسکیمیں کاغذوں پر ہی دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

مرکزی حکومت اقلیتوں کی بد حالی کو دور کرنے کی نیت سے وقف کی دو اہم اسکیمیں چلا رہی ہے۔ پہلی اسکیم ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ کہلاتی ہے جبکہ دوسری ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ کہلاتی ہے۔ ریاستی وقف بورڈس کے ریکارڈ کمپیوٹرائیزیشن کی اسکیم کو ختم کر کے ان دونوں اسکیمات کی شروعات کی گئی ہے۔

وقف کی ترقی اور ڈیجیٹائزیشن اسکیم کی اصلیت پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں پوری طرح آشکار ہو چکی ہے جس میں اوقاف کے معاملہ میں وزارت اقلیتی امورکی کار گزاری پر کئی سوال کھڑے کیے گئے ہیں۔ کمیٹی نے جس میں کل 30 ارکان پارلیمنٹ شامل تھے اپنی رپورٹ 12 فروری 2021 کو ہی لوک سبھا میں پیش کردی تھی۔

کمیٹی نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی ہے کہ ملک میں موجودہ وقف املاک میں سے 50 فیصد املاک کی جی آئی ایس میپنگ کا کام سال 2019-20 تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا، لیکن وزارت اقلیتی امور اس کام میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور اس کے پیچھے جو وجہ بتائی گئی ہے وہ کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔ وزارت اقلیتی امور نے 50 فیصد املاک کی جی آئی ایس میپنگ پورا نہ ہونے کی اہم وجہ کوویڈ کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کو بتایا ہے۔ لیکن کمیٹی کا ماننا ہے کہ وزارت کا یہ جواب گمراہ کرنے والا ہے کیونکہ ملک میں لاک ڈاؤن مارچ مہینے کے آخر میں لگایا گیا تھا، اس کام کو اس سے پہلے ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔

کمیٹی نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر آگے بھی یہی رویہ رہا تو سال 2022 تک بھی یہ کام مکمل نہیں ہو سکے گا جبکہ وزارت اقلیتی امور کو یہ کام مارچ 2022 تک ہر حال میں مکمل کرلینا چاہیے تھا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے تمام وقف بورڈوں سے ان کے یہاں ہونے والے الیکشن کی بھی جانکاری مانگی تھی لیکن اس تعلق سے اس کمیٹی کو جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ کمیٹی نے ان دونوں اسکیموں کے لیے جاری کردہ فنڈس کا پوری طرح استعمال نہ کیے جانے پر بھی سوال اٹھایا کہ وزارت اپنے مختص کردہ بجٹ کو پوری طرح کیوں خرچ نہیں کر سکی۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب اہم دستاویز سے پتہ چلا کہ اوقاف کی ترقی کے لیے چلائی جانے والی اہم اسکیموں کے ساتھ مرکزی حکومت کا رویہ بہتر نہیں رہا ہے۔ ان اسکیموں کے زیادہ تر فنڈس کا استعمال نہیں ہو سکا اور حد یہ ہے کہ اس بار کے بجٹ میں اس اسکیم کی رقم میں اضافہ کی بجائے کٹوتی کی گئی ہے۔ یو پی اے کے دور حکومت میں بھی اس اسکیم کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔

ان دونوں اسکیموں کے تعلق سے حکومت ہند کے بے شمار دعوے ہیں۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی میں ریاستی وقف بورڈس کے عہدیداروں کے لیے سنٹرل وقف کونسل کی طرف سے ’’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘‘ کے تحت منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ ’’آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں وقف املاک پر سماجی و اقتصادی اور تعلیمی سرگرمیوں اور مہارت سے متعلق منصوبوں کے لیے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے تعمیر کیے ہیں۔ ہماری مستعد مہم نے وقف ریکارڈس کو ڈیجیٹالائز کر کے وقف املاک کی ایک بڑی تعداد کو مفاد پرستوں اور وقف مافیا عناصر کے چنگل سے آزاد کرایا ہے۔‘‘ وزیر کی یہ باتیں ایک طرف لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم

آرٹی آئی دستاویزات کے مطابق مالی سال 2019-20میں اس ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ کے لیے بجٹ 18کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا، لیکن مرکزی حکومت اس اسکیم پر 31 دسمبر 2020 تک صرف 0.08 کروڑ روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔

سال 2019-20میں اس اسکیم کے لیے 17کروڑ50لاکھ روپے بجٹ طے کیا گیا، لیکن محض 11کروڑ 82لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

ایسی ہی کہانی سال 2018-19میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 16کروڑ 94 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن خرچ 11کروڑ 89لاکھ روپے ہی ہوسکے۔

اس بار حکومت نے اس اسکیم پر خوب قینچی چلائی ہے۔ سال 2021-22 کے لیے اس ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ کو ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ کے ساتھ ملاتے ہوئے ان دونوں اسکیموں کا بجٹ محض 16.00 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 2020-21 میں ان دونوں اہم اسکیموں کے لیے ایک ساتھ 21 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ وقف املاک کے ریکارڈ کو کمپیوٹر سے منسلک کرنے یا ڈیجیٹل بنانے اور وقف بورڈوں کو یقینی طور پر مؤثر بنانے کی خاطر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام وقف بورڈ کو مزید فنڈ کی دستیابی کے لیے شروع کی گئی ہے۔ اس کے تحت وقف زمینوں و عمارتوں کا جیو ٹیگنگ/ جی پی ایس سروے اور میپنگ کا کام ہونا ہے تاکہ جی پی ایس یعنی گلوبل پوزیشنینگ سسٹم کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی تصویروں، ملکیت کے نقشوں، اور اس وقف پراپرٹی کے اطراف میں کونسی عمارت یا زمین موجود ہے یا پراپرٹی کس حال میں ہے اس کی تمام تفصیلات گھر بیٹھے حاصل کی جا سکیں گی۔

علاوہ ازیں اس اسکیم کا مقصد ملک کے تمام اسٹیٹ وقف بورڈس میں ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت قائم کرنا، سنٹرلائزڈ کمپیوٹنگ سہولت (سی سی ایف) کے رکھ رکھاؤ اور وقف بورڈوں کے بہتر انتظام وانصرام کے لیے ای آر پی حل کے ضمن میں مالی تعاون فراہم کرنا ہے۔

شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا

آر ٹی آئی کی دستاویزات کے مطابق مالی سال 2019-20 میں اس ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ کے لیے بجٹ محض 3 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا، لیکن مرکزی حکومت اس اسکیم پر 31 دسمبر 2020 تک صرف ایک کروڑ 19 لاکھ روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔

حالانکہ سال 2018-19 اور 2017-18 میں اس اسکیم کے لیے 3 کروڑ 16 لاکھ روپے بجٹ طے کیا گیا اور پوری رقم خرچ کی گئی۔

سال 2016-17 کی کہانی تھوڑی الگ ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 3کروڑ 18لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن خرچ 2 کروڑ 8 لاکھ روپےہی ہو سکے۔

سال 2020-21 کے لیے اس اسکیم کو ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ کے ساتھ ملاتے ہوئے ان دونوں اسکیموں کا بجٹ محض 16.00 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 2020-21 میں ان دونوں اہم اسکیموں کے لیے ایک ساتھ 21 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ وقف املاک کو تجارتی مقاصد کے لیے فروغ دینے کی خاطر وقف اداروں، وقف بورڈوں کو سود کے بغیر قرض کی فراہمی کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت شہر میں موجود خالی وقف زمین پر مالی طور پر فائدہ پہنچانے والی عمارتیں جیسے بزنس کامپلیکس، میرج ہال، اسپتال، کولڈ اسٹوریج وغیرہ کے تعمیر کے لیے ملک میں وقف اداروں/وقف بورڈوں کو بلا سودی قرض مہیا کیا جاتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت وقف ادارے یا ریاستوں کے وقف بورڈ تجویز پیش کرتے ہیں، ان تجاویز پر سنٹرل وقف کونسل غور کرتی ہے اور قرض دستیاب کراتی ہے۔

زمینی سطح پر ان اسکیموں کی سچائی

وقف سے جڑی ان دونوں اسکیموں پر حکومت ہند کے چاہے جو دعوے ہوں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان اسکیموں کے تحت حکومت نے کام کم اور تشہیر زیادہ کی ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’وقف کمپیوٹرائزیشن‘ کا یہ کام مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن اس تعلق سے لوگوں کو بہت ساری شکایتیں ہیں۔ الزام ہے کہ حکومت کے ذریعہ یہ کام محض خانہ پری کے لیے کرایا جا رہا ہے، اس کام سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں آرٹی آئی داخل کر کے سچائی جاننے کی کوشش کر چکی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ نے سنٹرل وقف کونسل سے یہ سوال پوچھا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے سلسلے میں آپ کے دفتر کو کتنی شکایتیں موصول ہوئی ہیں ان شکایتوں کی کاپیاں اور اس سے متعلق تمام دستاویزات فراہم کریں۔

ہفت روزہ دعوت کے اس سوال پر سنٹرل وقف کونسل کا واضح جواب تھا کہ ’گزشتہ پانچ سالوں میں وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔‘

لیکن ہفت روزہ دعوت نے مہاراشٹر کے شہر پونے میں رہنے والے سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر (آئی آر ایس) اکرم الجبار خان سے بات کی تو پتہ چلا کہ سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت ملی اطلاع جھوٹی ہے۔ مسٹر خان نے بتایا کہ میں نے وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے کئی شکایتیں الگ الگ وقف بورڈوں کو بھیجی ہیں۔ ایک شکایت میں نے سنٹرل وقف کونسل کو بھی بھیجی تھی لیکن کونسل نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔

ڈیجیٹائزیشن کے کام میں خامیاں ہی خامیاں

مسٹر خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں وقف سے وابستہ افسر اپنے آپ کو بہتر دکھانے کی کوشش میں فائدہ سے زیادہ نقصان کرتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت صرف کام کو مکمل دکھانے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن طریقہ کار میں ہی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ کام کافی کام چلاؤ طریقے سے ہوا ہے۔ اب تک جو بھی ڈیجیٹائزیشن کا کام ہوا ہے زیادہ تر وہ ادھورا ہے۔ کسی میں جائیداد کی مالیت کی جانکاری نہیں، کسی میں جائیداد کے چوہدری کا ہی پتہ نہیں ہے۔ بہت ساری جائیدادوں کے آگے ’ٹو بی ڈیلیٹیڈ‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اور زیادہ تر وقف جائیدادوں میں تو ان کا رقبہ ہی غائب ہے۔ دلی کے علاقے دریا گنج میں ’بچوں کا گھر‘ کافی مشہور ہے، لیکن وقف مینجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ wamsi پر اس کا رقبہ ہی ندارد ہے۔ اب کوئی اس کا ایک کمرہ بیچ ڈالے تو کون کیا کرے گا؟ ایسے میں تو آپ جتنی زمینیں چاہیں بیچ کر کھا جائیں گے۔

مسٹر خان نے مزید بتایا کہ ممبئی شہر و مضافات کا وقف ریکارڈ جو wamsi کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ان تمام خامیوں کے بارے میں، میں نے کئی بار وقف بورڈ کو آگاہ کرایا ہے لیکن ان کے افسر سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ میں نے فروری 2019 میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی سے بھی ملاقات کی لیکن وہاں بھی مجھے مایوسی ہوئی۔

حالانکہ اکرم الجبار خان یہ بھی مانتے ہیں کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے اس پروجیکٹ کا ہر مسلمان کو خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ جیسے جیسے وقف املاک کے دستاویزات کو آن لائن پیش کیا جا رہا ہے ان املاک کے بارے میں عوامی معلومات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وقف املاک سے منسلک غلط اطلاعات وقف کے لیے ہی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں دوسری طرف حکومت کی نیت بھی صاف نظر نہیں آتی ہے۔

ان شکایتوں کو جاننے کے بعد راقم الحروف نے بذات خود wamsi.nic.in ویب سائٹ پر اپنے ہی شہر کی وقف جائیدادوں کی چھان بین کی۔ اس بات پر حیرانی ہوئی اس ویب سائٹ پر صرف 14 وقف جائیدادوں کی ہی جانکاری دی گئی ہے جبکہ شہر میں سیکڑوں کی تعداد میں وقف کی جائیدادیں ہیں۔ اس شہر کی مشہور مسجد جو راقم الحروف کے خاندان کے لوگوں نے وقف کی ہوئی زمین پر بنائی تھی اس کا ذکر بھی اس ویب سائٹ پر کہیں نہیں ہے۔

جب راقم الحروف نے دلی کے جامعہ نگر میں موجود وقف جائیدادوں کو دیکھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ یہاں وقف کی کوئی جائیداد ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہاں وقف کے چار قبرستان ہیں اور اس کی جانکاری خود راقم الحروف کو آرٹی آئی کے تحت ملی تھی۔ اس جانکاری کے بنیاد پر ہی جامعہ نگر میں قبرستان کے مسئلے پر ایک مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں بٹلہ ہاؤس میں ایک قبرستان یہاں کے مسلمانوں کو واپس مل سکا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وقف ڈیجیٹائزیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے تو دوسری طرف ویب سائٹ پر موجود جائیدادوں کی فہرست میں بے شمار خامیاں نظر آرہی ہیں۔ ویب سائٹ پر اکثر وقف جائیدادوں کے رپورٹ کارڈ میں رقبے کی تفصیل موجود نہیں ہوتی۔ زیادہ تر وقف جائیدادوں کی قیمت زیرو روپے دکھائی گئی ہے۔ کچھ صوبوں کے وقف جائیدادوں کی تصاویر اور جی پی ایس کے نقشے غائب ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بے شمار وقف جائیدادوں میں انتہائی ضروری کالموں جیسے انتظامیہ کی تفصیلات، متولی اور اس وقف جائیداد کی موجودہ حیثیت وغیرہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سینکڑوں ایکڑ رقبے کی بڑی بڑی جائیدادوں کا سروے بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی کو کیسے معلوم ہوگا کہ معلومات مکمل اور قابل اعتماد ہیں؟ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کا یہ کام اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ کام نہ صرف غلطیوں سے بھرا ہوا ہے بلکہ ادھورا بھی ہے۔

واضح ہو کہ وقف املاک کی دستاویزوات کا ڈیجیٹائزیشن اور ان کے سروے کے سلسلے میں ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کی گئی ہے۔ یہ پی آئی ایل دلی میں رہنے والے سپریم کورٹ کے وکیل رؤف رحیم اور علی اصغر رحیم نے جنوری 2020 میں داخل کی ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت میں بھی ’وقف کمپیوٹرائزیشن‘ کی دھیمی رفتار پر پی آئی ایل داخل کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت کو عدالت سے پھٹکار لگی تھی اس پھٹکار کے بعد اس کام میں تیزی آئی تھی۔ اوراب یہی دوبارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

غور طلب ہے کہ سال 2009 کے آخر میں وقف بورڈ کے کمپیوٹرائزیشن اور وقف املاک کے ڈیجیٹائزیشن کا کام شروع ہوا، لیکن اس کام کی رفتار تھوڑی دھیمی رہی۔ اس دھیمی رفتار سے ناخوش ہو کر ایک سماجی تنظیم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ ستمبر 2013 میں سپریم کورٹ نے ملک کے تمام وقف بورڈوں کو پھٹکار لگائی تھی اور طے شدہ وقت پر اپنے ریکارڈوں کی کمپیوٹرائزیشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی۔سپریم کورٹ کے پھٹکار کا اثر یہ ہوا کہ 31 دسمبر 2013 تک وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا میں 2,09,615 وقف املاک ویب سائٹ پر نظر آنے لگیں۔ وہیں سال 2014 کے 31مارچ تک 2,98,302وقف املاک ویب سائٹ پر درج ہو چکے تھے۔ اس کے بعد اقتدار میں چہرے بدل گئے اور کام کی رفتار وہیں کی وہیں رہی۔ wamsi کی ویب سائٹ پر موجود جانکاری سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم اپریل 2021 تک 7,48,831 وقف املاک کا ڈیجیٹائزیشن کیا جاچکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر جانکاری آدھی ادھوری ہی موجود ہے۔

جی آئی ایس میپنگ کا کام بھی ہے ادھورا

وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے متعلق تمام شکایتوں سے بے خبر اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے دعوے کافی مختلف ہیں۔

8 نومبر 2019کو کیرالا کے شہر کوچی میں منعقدہ ’جنوبی ہندوستان متولی کانفرنس‘ میں مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ ایک اہم کامیابی کے تحت پورے ملک کی وقف جائیدادوں کا 100 فیصد ڈیجیٹائزیشن کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ ڈیجیٹائزیشن اور جیو میپنگ سے بڑی تعداد میں گمشدہ وقف جائیدادوں کو وقف ریکارڈ کا حصہ بنانے میں مدد ملی ہے۔ کئی دہائیوں سے بڑی تعداد میں وقف جائیدادیں وقف ریکارڈ سے غائب ہو گئی تھیں، گزشتہ پانچ برسوں سے جنگی خطوط پر وقف جائیدادوں کے ڈیجیٹائزیشن کے کاموں کا نتیجہ ہے کہ ایسی وقف جائیدادوں کے کاغذات بھی درست کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وقف جائیدادوں کی 100 فیصد جیو ٹیگنگ جی پی ایس میپنگ کے لیے جنگی پیمانے پر مہم شروع کر دی گئی ہے تاکہ پورے ملک میں واقع وقف جائیدادوں کا سماج کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ انہوں اسی کانفرنس میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ تقریباً 24 ہزار وقف جائیدادوں کا جیو ٹیگنگ یا جی پی ایس میپنگ کا کام مکمل ہو گیا ہے۔

وقف املاک کی دستاویزات کے ڈیجیٹائزیشن کے اس کام میں ایک اہم کام جیو ٹیگنگ یا جی پی ایس میپنگ بھی تھا۔ ہفت روزہ دعوت کی تحقیق میں پایا گیا کہ یہ کام بھی ابھی ادھورا ہے اور اس کام کے تعلق سے لوگوں میں بیداری نا کے برابر ہے۔

وقف بورڈ ویب سائٹس کو اپڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے

ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں مختار عباس نقوی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ کئی ریاستی وقف بورڈس ایسے ہیں جن کی ویب سائٹس اس ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں اپڈیٹ ہی نہیں ہوئی ہیں۔ کئی اسٹیٹ وقف بورڈس کے پاس تو خود کی ویب سائٹ ہی نہیں ہے۔ ان میں جھارکھنڈ اور دادر اینڈ نگر حویلی کے نام شامل ہیں۔ وہیں آسام، انڈمان ونکوبار، آندھراپردیش، بہار شیعہ وقف بورڈ، چھتیس گڑھ، دلی، گجرات، ہماچل پردیش، لکشدیپ، منی پور، میگھالیہ، اڑیسہ، پڈوچیری، راجستھان اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے پاس wamsi کے تحت بنی ویب سائٹ تو ہے لیکن سال 2012-13کے بعد یہ ویب سائٹ کبھی بھی اپڈیٹ نہیں کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ جن ریاستوں کی ویب سائٹس ہیں ان میں دو چار ریاستوں کو چھوڑ کر باقی کی حالت کچھ بہتر نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں ہو رہا ہے۔

قومی وقف ترقیاتی کارپوریشن نے بھی نہیں کیا ہے اب تک کوئی خاص کام

غور طلب ہے کہ سابقہ یو پی اے حکومت نے ہی ان دونوں اسکیموں کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یو پی اے حکومت نے ملک بھر میں اوقاف کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ کے لیے 31 دسمبر 2013 کو کمپنی ایکٹ 1956 کے تحت ’قومی وقف ترقیاتی کارپوریشن‘ (نواڈکو) تشکیل دی۔ ابتداء میں اس کے لیے 500 کروڑ روپوں کارپس فنڈ بھی دیا۔ لیکن تاحال ملنے والی جانکاری کے مطابق وقف کارپوریشن نے ابھی تک کسی ترقیاتی پروجیکٹ کی شروعات نہیں کی ہے جبکہ اس کارپوریشن کا افتتاح کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ اوقافی جائیدادیں ہندوستان میں ہیں، اوقافی جائیدادوں کے ذریعہ قابل لحاظ آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جو مسلم برادری کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس ادارہ کے ذریعہ اوقافی جائیدادوں پر انتہائی صاف و شفاف انداز میں اسکولس، کالجس اور ہاسپٹلس کے قیام کیلئے مالی وسائل مجتمع کرنے میں مدد ملے گی۔

این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آتے ہی 9 ستمبر 2014 کو اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہبةاللہ نے بھی منموہن سنگھ کے باتوں کو دوہرایا اور بتایا کہ ان کی حکومت نے مسلمانوں کی فلاح کے لیے ایک انوکھا پروگرام تیار کیا ہے، جس کے تحت قومی تعمیراتی کارپوریشن (این بی سی سی) وقف جائیدادوں پر تعمیرات کرے گی، جس سے سالانہ 12ہزار کروڑ روپوں آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ ان تعمیرات سے ہونے والی آمدنی کا استعمال مسلم طبقہ کی سماجی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لیے کیا جائے گا۔ اس موقع سے ملک کے مختلف حصوں میں وقف کی املاک پر بڑے پیمانے پر ناجائز قبضوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر نجمہ ہبةاللہ نے اعتماد ظاہر کیا تھا کہ موجودہ مرکزی حکومت پارلیمنٹ میں ایک ایسا بل منظور کرانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی جس سے اوقافی جائیدادوں سے غیر قانونی قبضوں کو ہٹایا جا سکے گا۔ لیکن اس کے برعکس ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک بھر میں وقف املاک پر سرکاری قبضوں اور تصرفات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

***

وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے اس پروجیکٹ کا ہر مسلمان کو خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ جیسے جیسے وقف املاک کے دستاویزات کو آن لائن پیش کیا جا رہا ہے ان املاک کے بارے میں عوامی معلومات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وقف املاک سے منسلک غلط اطلاعات وقف کے لیے ہی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں دوسری طرف حکومت کی نیت بھی صاف نظر نہیں آتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 11 اپریل تا  17 اپریل 2021