وحی متلو اور وحی غیر متلو

قرآن کریم نبی ﷺ یا کسی انسان کا کلام ہونے کا دعویٰ انتہائی لغو

ابو فہد ندوی

قرآن وحدیث کے بیانیوں اور اسلوب میں واضح فرق کتاب مجید کےکلام اللہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل
قرآن اور حدیث میں بیانیے کی سطح پر بڑا واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام کے ان دونوں بنیادی مآخذ کے بیانیوں میں یہ فرق معترضین کے اس دعوے اور اعتراض کو باطل قرار دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ دونوں بیانیے ایک ہی شخص یعنی پیغمبر محمد (ﷺ) کے ہو سکتے ہیں یا واقعی ہیں (نعوذ باللہ من ذالک) کیونکہ ایک ہی شخص دو الگ الگ مآخذ میں دو بہت ہی مختلف طرح کے بیانیے تخلیق نہیں کرسکتا۔ بطور خاص اس وقت جب ان دونوں مآخذ کے موضوعات اور مواد تقریباً یکساں ہوں اور پھر صنف سخن بھی ایک ہی ہو یعنی نثرِ معری، غیر مرصع اور غیر مسجع ومقفیٰ۔ پھر خاص طور پر ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص اپنے ایک بیانیے میں تھرڈ پرسن یا مفعول اور مخاطب کی صورت میں ظاہر ہو اور دوسرے بیانیے میں فرسٹ پرسن، یا فاعل اور متکلم (خطیب) کی صورت میں۔ یعنی ایک میں وہ  فاعل ومتکلم ہو اور دوسرے میں سامع اور مفعول ہو۔ اور پھر اس طرح تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ساری زندگی دو مختلف طرح کے بیانیے تخلیق کرنے میں مصروف رہے اور کہیں بھی اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر دونوں بیانیوں میں ایک ادنیٰ سا جھول بھی راہ نہ پاسکے جو ایک ہی شخص کے دو مختلف بیانیے ہونے کی دلیل کو جواز فراہم کرے۔ پوری انسانی تاریخ میں آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔
پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ نبی (ﷺ) نے بزعم خویش کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ قرآن ان کا اپنا بیانیہ ہے اور نہ ہی مسلمانوں نے کبھی ایسا سوچا اور کہا ہے کہ قرآن (نعوذ باللہ) نبی (ﷺ) کا کلام یا تصنیف ہے۔
نبی (ﷺ) نے ابتدائی دور میں احادیث یعنی اپنے کلام کو محفوظ کرنے سے منع فرما دیا تھا، اور اس کی علت واضح طور پر یہی تھی کہ نبی کے ارشادات اور قرآن کے بیانات آپس میں خلط ملط نہ ہوجائیں۔ اگرچہ اس بات کے امکانات بہت کم تھے کیونکہ اہل عرب اور خاص طور پر شعر ونثر میں مہارت رکھنے والے عرب علماء جو یہود ونصاریٰ بھی تھے اور مشرکین بھی، وہ کلام کی خصوصیات اور امتیازات سے پوری طرح آشنا اور واقف تھے۔ وہ کسی بھی کلام کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد صاف طور پر یہ بتاسکتے تھے کہ کونسا بیانیہ کس بیانیے سے مماثل ہے اور کونسا الگ ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جب عام لوگوں نے محض معاندانہ روش کے طور پر قرآن کو شاعری کہا تو فن شاعری کے ماہرین نے اس دعوے کی تغلیط کی اور کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ شاعری کیا ہوتی ہے، قرآن کسی ناحیے سے بھی شاعری نہیں ہوسکتا۔ اس وقت جو لوگ فن جادوگری سے وابستہ تھے ان کا بھی صاف اعلان یہی تھا کہ قرآن ساحری تو بالکل بھی نہیں ہے۔ کوئی جادوگر بھلا ایسا اعلیٰ اور ایسا منظّم کلام کیسے تخلیق کر سکتا ہے؟
جن لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ قرآن کس طرح ایک مافوق الفطرت ہستی یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہو سکتا ہے اور یہ کلام کس طرح ایک انسان تک پہنچ سکتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی کمی وبیشی اور کتر وبیونت کے؟ وہ لوگ اس پوائنٹ پر بھی ضرور غور وخوض کریں کہ قرآن آخر کس طرح کسی انسان کی تصنیف ہوسکتاہے؟ کیا مہبط وحی کے پورے علاقے اور نزولِ وحی کے پورے دورانیے میں کوئی ایک شخص بھی اس قابل تھا کہ وہ قرآن جیسا بیانیہ تخلیق کر سکتا تھا؟ اور اگر تھا تو کیا اس نے قرآن جیسا بیانیہ تخلیق کرنے کی کبھی کوئی کوشش بھی کی؟ اور اگر کی تو کیا وہ اس میں کامیاب بھی ہوا؟ اور اگر کامیاب بھی ہوا تو کیا دنیا میں اس بیانیے کا کوئی چھوٹا سا حصہ بھی کہیں محفوظ ہے؟ اور اگر ’’الفیل ما الفیل وما ادراک ماالفیل۔۔‘‘ ٹائپ کا کوئی کلام تاریخی ریکارڈ پر موجود ہے بھی تو کیا اس کو قرآن کے اعلیٰ وبرتر بیانیے سے کوئی دور کی بھی نسبت ہے؟ اور کیا کسی کی طرف سے کم از کم اتنا دعویٰ ہی کہیں محفوظ ہے کہ موجودہ قرآن اس کی تصنیف ہے یا اس میں اس کا اپنا تخلیق کردہ ایک فقرہ اور ایک ٹکڑا ہی سہی کہیں موجود ہے، یا پہلےکبھی موجود تھا مگر بعد میں حذف کر دیا گیا؟ کیا کسی بھی انسان کی طرف سے کبھی بھی ایسا کوئی دعویٰ کیا گیا ہے؟ اور کیا خود پیغمبر محمد (ﷺ) نے کبھی ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے جس سے یہ اشارہ بھی نکل سکتا ہو کہ قرآن پیغمبر محمد (ﷺ) کا خود کا ہی تخلیق کردہ بیانیہ ہے؟ اگر ہے تو اس دعوے کا مآخذ کیا ہے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
ذیل میں ان اہم نکات کی وضاحت موجود ہے جو صاف طور پر بتاتے ہیں کہ قرآن وحدیث کے بیانیے کسی ایک ہی شخص کے ہرگز نہیں ہو سکتے۔
۱۔ قرآن کے بیانیے میں لفظ ’قل‘ ہے جبکہ حدیث کے بیانیے میں لفظ ’قل‘ نہیں ہے۔ کسی بھی عربی بیانیے میں لفظ ’قل‘ کا موجود ہونا یہ بتاتا ہے کہ اس بیانیے میں جو ذات بظاہر تھرڈ پرسن نظر آرہی ہے وہ دراصل فرسٹ پرسن ہے۔ یعنی قرآن میں جس ذات کا ذکر (بعض مقامات پر) غائب کے صیغے کے ساتھ ہے وہی دراصل متکلم ہے۔ اور یہ فرق بیانیے میں موجود لفظ ’قل‘ کی وجہ سے آتا ہے جو کہ ایک حکمیہ قول ہے یا صیغہ امر ہے۔مثلا سورۂ اخلاص ہے: ’’قل ھو اللہ احد۔۔۔۔‘‘ اس میں لفظِ جلالہ (اللہ) کی تعریف صیغۂ غائب میں ہے مگر سورت میں موجود لفظ ’قل‘ نے اسے متکلم کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ کیونکہ خود اللہ اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ میری تعریف اس طرح ہے۔ خود تم بھی اپنے ذہن وزبان پر میرا تعارف اس طرح رکھا کرو اور اہل ایمان کو بھی سکھادو کہ وہ بھی اسی طرح میری شناخت کریں اور زبان سے شہادت دیں۔
ھواللہ احد، اللہ الصمد ’’وہ اللہ ہے، اکیلا اور یکتا اللہ‘‘ اس بیانیے کو ذرا متکلم کے بیانیے کے طور پر لکھ کر دیکھیے۔ ’’اننی انا اللہ، احد، الصمد۔۔‘‘  ایک تو یہ بیانیہ لچر پوچ اور بے وزن بیانیہ ہوجاتا اور دوسرے اس کی ظاہری نسبت خود نبی (ﷺ) اور پھر قرآن کے قاری کی طرف بھی ہوجاتی۔
2- قرآن کے بیانیے میں ’ربی اور ربنا‘ ہے جبکہ حدیث کے بیانیے میں ’اللہم‘ ہے (نوٹ: قرآن میں غالبا پانج مقامات پر ’اللہم‘ آیا ہے، مگر یہ ہر جگہ دوسروں کے بیان کے طور پر ہے، یا تو انہیں ایسا کہنے کی ہدایت دی جارہی ہے یا پھران کی دعا کے کلمات کو رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ جیسے: ‏ قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (الزمر:46) اور قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ(المائدہ:114)
3 -قرآن کے بیانیے میں  ’اننی انا اللہ‘ ’نحن نزلنا‘ ‘انا انزلنا‘ہے جبکہ حدیث کے بیانیے میں’اللہم انی عبدک وبن عبدک۔۔‘اللہم لک الحمد ولک الشکر کے انداز کا خطاب اور اسلوب پایا جاتا ہے۔
4 -قرآن کا بیانیہ تخلیق کرنے والے اور حکم  دینے والے کا بیانیہ ہے جبکہ حدیث کا بیانیہ حکم قبول کرنے والے اور طلب کرنے والے کا بیانیہ ہے۔
-5 قرآن کا انداز خطاب ایک غالب اور طاقت ور شہنشاہ کے انداز خطاب کی طرح ہے جبکہ حدیث کا خطاب بندہ ومحتاج کے انداز خطاب کی طرح ہے۔
-6 قرآن میں لفظ جلالہ کہیں تھرڈ پرسن (اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔۔)اور کہیں فرسٹ پرسن بھی ہے (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ‎﴿٢٥﴾‏ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ‎﴿٣١﴾‏ وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ (قرآن میں بے شمار جگہ جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جیسے اوپر کی آیات میں۔ ان سب آیات میں لفظ جلالہ فرسٹ پرسن کے طور پر ہی خطاب کر رہا ہے) جبکہ حدیث کے بیانیے میں لفظ جلالہ ہمیشہ تھرڈ پرسن کے طور پر ہی ہے۔
-7 قرآن کے بیانیے میں کوئی راوی (Narrator) نہیں ہے، جیسا کہ احادیث میں ایک راوی ہوتا ہے اور ادبی وصحافتی تحریروں میں ہوتا ہے۔ قرآن کا بیانیہ بالراست نبی (ﷺ) تک پہنچا ہے اور پھر اسی فارم میں جس فارم میں نبی (ﷺ) تک پہنچا اسی فارم میں صحابہ کرام تک پہنچا اور اسی فارم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی (ﷺ) نے اللہ سے کلام لے کر پھر اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو۔۔ ’’اے مؤمنو، سنو! اللہ یوں فرماتا ہے، اللہ نے تمہارے لیے یہ حکم نازل کیا ہے کہ نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘ قرآن کا بیانیہ اس طرح کا نہیں ہے، جبکہ احادیث کا بیانیہ اسی طرح کا ہے، اس میں ایک راوی ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے، میں نے رسول اللہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے یا میں نے فلاں کام اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، یا رسول اللہ کو فلاں چیز اور فلاں عمل پسند تھا اور فلاں فلاں عمل اور چیز نا پسند تھی وغیرہ ۔
8۔ محمد (ﷺ) اپنے دعوؤں میں نبی اور رسول ہی ہیں اور قرآن میں بھی رسول اور نبی ہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک متن (قرآن ) میں وہ نبی ورسول ہوں اور دوسرے متن (حدیث) میں وہ نبی ورسول سے بڑھ کر ہوں۔
9۔ کلامِ نبوی (حدیث رسول) بھی بے شک جوامع الکلم ہے. قرآن کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل بھی ہے مگر وہ قرآن کے بیانیے کی طرح بالکل مماثل نہیں ہے۔
10۔ قرآنی متن کی کتابت اور قرآت کے لیے جو قواعد اور قوانین ہیں وہ کلام نبوی کے لیے نہیں ہیں۔
11۔ قرآن وحدیث کے بیانیوں کی سرسری قرأت سے ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں ایک اصل ہے اور دوسرا اس کا وضاحتی اور تشریحی بیانیہ ہے۔ یعنی قرآن کا بیانیہ اصل ہے اور حدیث کا بیانیہ اسی کا تشریحی وتوضیحی بیانیہ معلوم ہوتا ہے۔
قرآن وحدیث، دونوں بیانیوں کے درمیان ان کے علاوہ، وہ تمام فرق بھی ہیں جو عموماً کتابوں میں ملتے ہیں، جیسے قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو، اسی طرح قرآن روایت باللفظ ہے اور حدیث روایت بالمعنیٰ، نیز، قرآن تواتر قطعی کے ساتھ محفوظ ہوا ہے جبکہ حدیث کا بڑا حصہ خبر واحد پر مشتمل ہے۔
لہذا ان سب دلائل سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیات منزل من اللہ ہیں اور احادیث حضرت محمد (ﷺ) کے اقوال و افعال ہیں، اور اس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ دونوں کلام ایک ہی شخص کے نہیں ہیں اور قرآن محمد (ﷺ) یا کسی انسان کی تصنیف ہرگز نہیں ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023