اداریہ

طاقت ور بیانیے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت

ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور اب پچھلے دو ماہ سے ذرائع ابلاغ و سوشل میڈیا میں جاری انتخابی جنگ بھی کچھ عرصے کے لیے تھم جائے گی۔ انتخابی نتائج کے مطابق بی جے پی نے راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس سے اقتدار حاصل کرلیا ہے جب کہ مدھیہ پردیش میں اس نے اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے۔وہیں ملک کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور پچھلے دس سال سے تلنگانہ پر حکومت کرنے والی بی آر ایس کو اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔شمال مشرقی ریاست میزورم میں حکم راں جماعت میزو نیشنل فرنٹ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور میزورم پیوپلز موومنٹ کو یہاں کامیابی حاصل ہوئی۔
ان انتخابات میں اندازوں اور قیاسات کے برخلاف شمالی ہندوستان کی تینوں ریاستوں میں بی جے پی نے شاندار جیت حاصل کی اور سارے اندازوں کو غلط ثابت کیا۔ اس کے علاوہ اس نے تلنگانہ میں کافی اچھا مظاہرہ کیا۔ تلنگانہ میں بی جے پی نے آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس کو حاصل ووٹوں کا تناسب بھی گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں دوگنا ہوگیا ہے۔ بی جے پی کی ان کامیابیوں اور کانگریس کی شکست میں بی جے پی کی مرکزی قیادت کی سخت محنت، مودی کی شخصیت کے سحر اور بی جے پی کے روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ  خود کانگریس کی کمزور حکمت عملیوں اور حد سے زیادہ اعتماد کا سب سے زیادہ  کردار رہا ہے۔
راجستھان میں گہلوٹ سرکار نے اپنے دور اقتدار میں کافی اہم فلاحی اسکیمات جاری کی تھیں جو وہاں کی عوام میں کافی مقبول بھی تھیں، ان کا خیال تھا کہ اس کی بنیاد پر وہ دوبارہ راجستھان کے تخت پر متمکن ہو جائیں گے لیکن راجستھان کے عوام نے حکومت کی تبدیلی کی اپنی روایت ترک نہیں کی۔ بی جے پی نے کنہیالال کے واقعے کے مسلسل تکرار سے انتخابات کے ماحول کو گرم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی اور اسے اس میں کامیابی بھی ملی۔ یہی معاملہ چھتیس گڑھ کا بھی رہا۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی قبائلی ریاست ہے لیکن کانگریس کی حد سے زیادہ خود اعتمادی اور بی جے پی کی سخت محنت نے وہاں بھی کانگریس کو شکست سے دوچار کر دیا۔ ان سب کے برعکس مدھیہ پردیش کے نتائج نے اس اعتبار سے سب کو حیران کیا کہ شیوراج چوہان کی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہاں بی جے پی نے مودی کی شخصیت کے بل پر نہ صرف اپنی حکومت باقی رکھی بلکہ اپنی سیٹوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ کرلیا۔
تلنگانہ کے نتائج کانگریس اور بی جے پی دونوں  کے لیے حوصلہ افزا رہے۔ ایک جانب کانگریس نے بی آر ایس کے دس سالہ اقتدار کو ختم کرکے ایک طویل عرصے بعد اپنی حکومت قائم کی تو دوسری جانب بی جے پی نے بھی ریاست کے شمالی علاقے میں کافی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگرچہ کہ تلنگانہ میں بی جے پی کے اہم قائدین کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جن میں ریاست کے سابقہ صدر و کریم نگر کے رکن لوک سبھا بنڈی سنجے، نظام آباد کے رکن لوک سبھا ڈی اروند، بی آر ایس سے بی جے پی میں شامل ہوئے طاقت ور لیڈر ایٹالہ راجند اور رگھونندن ریڈی شامل ہیں۔ اگرچہ تلنگانہ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں جیتنے اور ہارنے والی پارٹیوں کے ووٹوں کے تناسب میں صرف دو تا تین فیصد کا فرق ہے لیکن اسی دو تین فیصد کے فرق نے نتائج میں بڑا فرق پیدا کردیا ہے۔
ان اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے لیے کافی سبق ہیں۔ کانگریس ان انتخابات میں پوری یکسوئی اور قوت کے ساتھ کسی طاقت ور بیانیے یا نظریے کو عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکی۔ اگرچہ راہول گاندھی نے ہندوتوا کے خلاف اور سیکولرزم کے حق میں پورے زور و شور سے آواز اٹھائی لیکن راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کے مختلف لیڈروں نے نرم ہندوتوا کا رویہ ہی اپنائے رکھا۔ کانگریس کے اس دوہرے رویے نے اسے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی نے اپنی انتخابی تقاریر میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی تائید کی اور اس کو موضوع بنایا لیکن ان تین شمالی ریاستوں میں کانگریس اس کا کوئی عملی مظاہرہ پیش نہیں کرسکی۔ ان کے پاس او بی سی طبقے کا کوئی اہم چہرہ تک موجود نہیں تھا اور نہ ریاستی قائدین نے اس موضوع کو طاقت ور طریقے سے اپنی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بنایا، جس کی وجہ سے وہ او بی سی طبقے کے رائے دہندوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہی۔ ان انتخابات میں کانگریس نے اس بات کو بھی فراموش کردیا یا مدھیہ پردیش و راجستھان کی ریاستی قیادت نے اس کو لائق اعتنا ہی نہیں سمجھا کہ کانگریس اس وقت انڈیا الائنس کا حصہ ہے۔ اس حقیقت کو فراموش کر دینے سے مدھیہ پردیش میں اکھلیش یادو وغیرہ کی پارٹیوں کے ساتھ ان کا کوئی اتحاد نہیں ہوسکا۔ کمل ناتھ نے اپنی طاقت کے غرور میں ریاستی انتخابات کے لیے اس الائنس کو غیر اہم سمجھ کر ان کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے مدھیہ پردیش میں کچھ مقامات پر کانگریس کو نقصان اٹھانا پڑا۔ جب کہ تلنگانہ میں کانگریس نے سی پی آئی وغیرہ کے ساتھ اپنے اتحاد کو قائم رکھا جس کا فائدہ یہاں انہیں حاصل ہوا۔راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی بزرگ قیادت اور ان کی روایتی حکمت عملیوں نے بھی کانگریس کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آنے والے پارلیمانی انتخابات میں اگر کانگریس  طاقت ور طریقے سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے ان تمام کمزوریوں سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا۔ اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تن تنہا یہ جنگ نہیں جیت سکتی، اسے اپنے آپ کو اس غیر ضروری زعم سے نکلنا ضروری ہے اور الائنس میں شامل تمام علاقائی پارٹیوں کو ان کی قوت کے بقدر حصہ دینے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کو واضح نظریے اور طاقت ور بیانیے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہندوتوا کی بنیاد پر نہیں بلکہ دستور پر چلے گا اور یہی اس ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کا موضوع بھی بہت اہم ہے، اس موضوع کو اگلے پارلیمانی انتخابات میں ایک اہم موضوع کے طور پر پوری قوت کے ساتھ ملک کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسے کھلے دل کے ساتھ ملک کے تمام پسماندہ طبقات کے لیے واضح حکمت کو اختیار کرنا ہوگا۔ملک کی عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی بھارت کے تکثیری تصور پر یقین رکھتی ہے اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنا نہیں چاہتی۔ چنانچہ اس نظریے کو ماننے والی تمام  سیاسی جماعتوں کو اپنے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر آگے آنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک اپنی حقیقی کیفیت میں باقی رہ سکے۔