سری نگر: وشو بھارتی اسکول نے عبایہ پر پابندی کا فیصلہ لیا واپس، زبردست احتجاج کے بعد  معافی مانگی

نئی دہلی ،08 جون:

مدھیہ پردیش میں گنگا جمنا ہائر سیکینڈری اسکول میں حجاب  میں ہندو طالبات کی تصویر وائرل ہونے کے بعد خوب ہنگامہ ہوا اور ہندو شدت پسند تنظیموں نے اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خوب  ہنگامہ کھڑا کیا جس کے بعد شیو راج حکومت نے فوری طور پر نوٹس لیا اور اسکول کے خلاف کارروائی کی ۔دریں اثنا سری نگر  کے رینہ واری علاقے میں واقع  وشو بھارتی ہائر سیکنڈری  اسکول میں اس کے بر عکس معاملہ سامنے آیا ہے جہاں عبایہ،یاحجاب پہن کر  طالبات کو اسکول میں  ا ٓنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔جس کے بعد طالبات نے اسکول انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ۔حجاب یا عبایا کو اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے طالبات نے اسکول انتظامیہ سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔

اسکول انتظامیہ کے ذریعہ حجاب پر پابندی کے خلاف طالبات کے ذریعہ احتجاج کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور معاملہ اتنا بڑھا کہ اسکول انتظامیہ کو بیک فٹ پر آنا پڑا۔  احتجاج کے بعد، اسکول کے پرنسپل نے جمعرات کی شام کو متنازعہ حکم واپس لے لیا اور طالبات اور والدین سے "غیر مشروط معافی” مانگی۔حیران کن بات یہ ہے کہ اسکول کے پرنسپل میم روز شفیع مسلمان ہیں اور اسکول میں زیر تعلیم تقریباً 100 فیصد طلبہ بھی مسلمان ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ پرنسپل نےریاستی انتظامیہ کے دباؤ میں یا خود  اسکول کے احاطے میں عبایا نہ پہننے کی ہدایت جاری کی تھی ۔

طالبات کے ذریعہ احتجاج نے سیاسی شخصیات کی توجہ بھی مبذول کی اور متعدد سیاسی رہنماؤں نے اسکول کے اس متنازعہ فیصلے کی مذمت کی ۔متعد  سابق وزرائے اعلیٰ نے اس معاملے کو لے کر اسکول کی کارروائی کی مذمت کی۔ تاہم، تنازعہ کے سنگین ہونے کے بعد، پرنسپل نے سرکاری اسکول کے فیس بک پیج پر ایک دستخط شدہ بیان پوسٹ کیا اور معافی مانگی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹس جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبات کو عبایہ نہ پہننے کی ہدایت دی گئی ہے وہ مکمل طور پر بے بنیادہے۔

انہوں نے کہا کہ طلباء اور والدین کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔اسکول پرنسپل شفیع نے کہا، ’’اگر کسی صورت (عبایا پر پابندی لگا کر) طلبہ یا والدین کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں اس کے لیے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔‘‘

جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسکول انتظامیہ ہمیشہ معاشرے کے تمام طبقات کے جذبات کا احترام کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’اسکول کے پرنسپل یا انتظامیہ کی طرف سے عبایا پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ طالبات کو  کہا گیا تھا کہ  وہ اسکول  ڈریس پہنیں۔ تمام طالبات کی اطلاع کے لیے ہے کہ وہ عبایا پہن سکتی ہیں اور کلاسوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں  عائد کی گئی ہے۔

طالبات نے صبح الزام لگایا تھا کہ انہیں عبایا میں اسکول کے احاطے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، جس سے سوشل میڈیا پر تنازعہ اور بحث چھڑ گئی۔ طالبات نے اسکول کو مخلوط تعلیمی اسکول میں تبدیل کیے جانے کی شکایت بھی کی، جب کہ یہ پہلے صرف لڑکیوں کا اسکول تھا۔

اسکول کے فیس بک پر پرنسپل کی پوسٹ پر متعدد صارفین نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ ایک سوشل میڈیا صارف عاقب شفیع نے تبصرہ کیا کہ پتہ نہیں یہ عبایا کیوں بہت سے لوگوں کے جسم کا کانٹا بن گیا ہے، وہ بھی کشمیر جیسی جگہ پر۔ایک اور سوشل میڈیا صارف مبشر احمد نے اسکول انتظامیہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ لڑکیوں کو عبایا پہننے کی اجازت کیوں نہیں دے رہے؟ عبایا ہماری بہنوں کا فخر ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر ملک کا واحد مسلم اکثریتی خطہ ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق متحدہ جموں و کشمیر کی آبادی 1,25,41,302 ہے۔ جموں ڈویژن کی آبادی 53.5 لاکھ اور کشمیر ڈویژن کی آبادی 68.8 لاکھ ہے۔یہاں تقریباً 68.31 فیصد لوگ مسلمان ہیں، جب کہ 28.44 فیصد ہندو ہیں۔ عیسائی 0.28 فیصد، جین 0.02 فیصد، بدھ 0.90 فیصد اور سکھ 1.87 فیصد ہیں۔ اس حساب سے کشمیر کی آبادی 68.9 لاکھ ہے جب کہ جموں کی آبادی 53.8 لاکھ ہے۔