حزب اختلاف کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے بغاوت کے قانون کو روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا
نئی دہلی، مئی 11: اپوزیشن لیڈروں اور سماجی کارکنوں نے بدھ کو سپریم کورٹ کے بغاوت کے قانون کو موخر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہما کوہلی پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے مرکز اور ریاستی حکومتوں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اس قانون کے تحت کوئی بھی نیا مقدمہ درج نہ کریں جب تک کہ اس کی دوبارہ جانچ نہیں کر لی جاتی۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے کہا کہ سچ بولنا غداری نہیں ہے۔
راہل نے ٹویٹ کیا ’’سچ بولنا حب الوطنی ہے، غداری نہیں…سچ سننا ریاست کا فرض ہے، سچ کو پامال کرنا ریاست کا غرور ہے۔‘‘
ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا نے، ان درخواست گزاروں میں سے ایک جنھوں نے اس قانون کو چیلنج کیا ہے، اس فیصلے کو فتح قرار دیا۔
انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’’سپریم کورٹ نے سیکشن 124A پر روک لگا دی- کوئی نیا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا، موجودہ مقدمات میں ضمانت اور رہائی کے لیے فوری طور پر درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘
کانگریس ایم پی ششی تھرور نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک ’’خوش آئند خبر‘‘ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اپنی پارٹی کے ساتھی کپل سبل پر فخر ہے جو اس مقدمے میں قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی وکالت کر رہے ہیں۔
تھرور نے نشان دہی کی کہ انھوں نے قانون کو ختم کرنے کے لیے 2016 میں پرائیویٹ ممبرز بل پیش کیا تھا اور کانگریس نے بھی اپنے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے منشور میں ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
پرائیویٹ ممبرز بل ایسے ایم پیز متعارف کراتے ہیں جو وزیر نہیں ہوتے۔ وزرا کی طرف سے پیش کردہ بلوں کو سرکاری بل کہا جاتا ہے۔
ایمنسٹی انڈیا کے چیئرپرسن آکار پٹیل نے امید ظاہر کی کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔
اسی دوران اس فیصلے کے بعد مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ریاست کے تمام حصوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ایک لائن کو عبور نہ کریں۔
رجیجو نے کہا ’’ہم نے اپنی پوزیشن بالکل واضح کر دی ہے اور عدالت کو اپنے وزیر اعظم کے ارادے سے بھی آگاہ کیا ہے۔ ہم عدالت اور اس کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن ایک ’لکشمن ریکھا‘ ہے جس کا احترام ریاست کے تمام حصوں کے لیے ضروری ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ آئین کی دفعات اور موجودہ قوانین کا احترام کیا جانا چاہیے۔