اتراکھنڈ میں مدارس کے طلبا کے لیے سنسکرت کا لزوم
منفی اقدامات کو بھی مثبت پیرائے میں لیا جا سکتا ہے
(دعوت نیوز ڈیسک)
دعوت و تبلیغ کے لیے ہر ممکن ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت جن میں زبانوںکا سیکھنا بھی شامل ہے
ملک میں موجودہ حکومت کے تحت بہت ساری تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، ان میں سے بعض ایسی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہیں اور بعض دینی اداروں سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ نہ صرف مرکزی حکومت کے تحت بلکہ ریاستی حکومتیں بھی اپنے دائرہ اختیار میں ایسی ایسی اصلاحات نافذ کر رہی ہیں جو کبھی غیر ضروری تو کبھی محض ذہنی تناؤ محسوس ہوتی ہیں۔انہیں میں سے ایک اتر اکھنڈ وقف بورڈ کے ذریعہ لیا گیا فیصلہ ہے جس کے تحت اپ گریڈیشن کے نام پر، اتر اکھنڈ وقف بورڈ میں رجسٹرڈ 117 مدارس کے طلباء کو سنسکرت پڑھائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس قسم کے ہر مدرسے میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کا نصاب لاگو کیا جائے گا جس کی پابندی اور نفاذ ذمہ داران مدرسہ پر لازمی ہوگا۔ اس کا اعلان پچھلے دنوں اتر اکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس نے کیا ہے۔
بورڈ کے چیئرمین نے اس بڑی تبدیلی کی کوئی واضح، مناسب اور تسلی بخش وجہ نہیں بتائی لیکن انہوں نے اعلان کرتے وقت یہ ضرور کہا کہ اتر اکھنڈ دیو بھومی ہے۔ یہ مدرسوں میں سنسکرت کو متعارف کرانے کی ایک عجیب وجہ معلوم ہوتی ہے، اس پر کئی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں۔ مثلا اتر اکھنڈ کے دیو بھومی ہو جانے سے مدرسے کے ہر طالب علم کے لیے سنسکرت پڑھنا کیوں لازمی ہوگا؟ وغیرہ
اس اعلان کے آنے کے بعد بہت سے لوگ اس کو مدرسہ کے طلباء پر اضافی بوجھ اور معصوم ذہنوں پر سنسکرت زبان کو زبردستی مسلط کرنا قرار دے رہے ہیں، جبکہ پہلے ہی مدارس کے طلبا کو عام طلبا سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ جہاں عصری اسکولوں کے طلبا پانچ یا چھ مضامین روزانہ پڑھتے ہیں وہیں مدارس کے طلبا اس سے دوگنا بلکہ کبھی تین گنا زیادہ نصاب پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں پھر ایک نئی زبان کو واجبی قرار دینا سراسر زیادتی معلوم ہوتی ہے۔
اگرچہ یہ اس اعلان کا ایک منفی پہلو ہے لیکن اگر یہ نافذ ہو جاتا ہے اور مدارس کے طلبا کو سنسکرت پر عبور حاصل ہونے لگے تو یہ خود ان کے لیے ایک خوش آئند مستقبل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جب طلبا ایسی زبانوں پر عبور حاصل کریں گے جن میں دیگر مذاہب کا بہت سارا مواد موجود ہو تو وہ انہیں پڑھ کر دعوت و تبلیغ کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دے سکتے ہیں اور برادران وطن کی ہدایت اور اخروی فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اتر اکھنڈ میں ایک مسلم طالبہ رضیہ سلطانہ نے سنسکرت زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب وہ سنسکرت میں قرآن کا ترجمہ بھی کر رہی ہیں۔ دعوتی میدان کے لیے اس قسم کے اقدامات مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ خبر ہے کہ رضیہ سلطانہ کو اتر اکھنڈ وقف بورڈ کی ریاستی سطح کی تعلیمی کمیٹی کے رکن کے طور پر شامل کیا جائے گا۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق شاداب شمس نے کہا ہے کہ مدارس کے لیے بنایا جانے والا مذکورہ نصاب سائنسی تعلیم اور اسلامی علوم کا حسین امتزاج ہو گا اور یہ کہ طلبا انگریزی کے ساتھ سنسکرت اور عربی دونوں زبانیں سیکھ سکیں گے۔ شاداب شمس نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ وقف بورڈ کے تحت تمام مدارس میں یکساں ڈریس کوڈ ہوگا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اتر اکھنڈ حکومت ریاست کے تمام مدارس کا سروے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنانے جا رہی ہے۔
سر دست اس سلسلے میں اتراکھنڈ کے چار اضلاع کے چار مدرسوں میں نئے قوانین اور اصول و ضوابط کے ساتھ جدید تعلیم کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ جن میں ریاستی وقف بورڈ کے تحت 117 مدارس میں سے چار ماڈل مدارس دہرادون، ہریدوار، اودھمنگ نگر اور نینی تال میں قائم کیے جائیں گے۔ ماڈل مدارس میں صبح 6.30 بجے سے ایک گھنٹہ نماز کے بعد تلاوت قرآن کے لیے مختص ہے۔ پھر صبح 8 بجے سے دوپہر 2 بجے تک یہ عام اسکولوں کی طرح چلے گا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کی طرح یونیفارم لازمی ہوگا۔ یعنی یہ ایک تجرباتی شکل میں ہوگا اگر یہ طریقۂ کار کامیاب ہوتا ہے تو پھر دیگر مدارس میں بھی اسی طرح کے تعلیمی اقدامات کئے جائیں گے۔ وقف بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ مدرسہ حفظ القرآن کنجاگراں کی کمیٹی نے بھی خود کو جدید مدرسہ میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی جسے وقف بورڈ نے منظوری دے دی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اسی طرح وقف بورڈ میں رجسٹرڈ تمام مدارس کو مرحلہ وار جدید مدرسہ تعلیم سے منسلک کیا جائے گا۔
اتراکھنڈ وقف بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ تما م مدرسوں کو جدید بنانے کے سلسلے میں یہ بات بیان کی جارہی ہے کہ ان مدارس میں باقاعدہ طور پر اسمارٹ کلاسز قائم کی جائیں گیں اور جدید طرز تعلیم کے لئے جو بھی مطلوبہ سہولیات اور آلات درکار ہوں گے انہیں میسر کیا جائے گا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں پر تعلیم حاصل کررہے طلباء کو ٹیبلٹ اور کمپیوٹرز بھی فراہم کیے جائیں گے تا کہ وہ بآسانی حصول علم کی راہ میں کوشاں رہ سکیں ۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دراصل، اتراکھنڈ کے مدرسوں میں سنسکرت پڑھانے کا مطالبہ کچھ مصلحتوں کے تحت وہاں کی مدرسہ ویلفیئر سوسائٹی (MWS) نے چھ سال پہلے اٹھایا تھا۔ ایم ڈبلیو ایس کے اراکین نے اس وقت کے وزیر اعلی ترویندر سنگھ راوت کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا تھا۔اورسوسائٹی نے سابق وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر اپیل کی تھی کہ سنسکرت کے اساتذہ کو بھی ریاست کے مدارس میں جانا چاہیے تاکہ وہاں کے نصاب میں سنسکرت کو شامل کیا جا سکے، لیکن اسے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے ترویندر سنگھ راوت نے مدرسوں میں سنسکرت پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں اتراکھنڈ کے 207 مدارس میں سنسکرت پڑھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم ابھی اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس نے اعلان کیا ہے کہ اس وقت مرحلہ وار کل 117 مدارس میں سنسکرت پڑھائی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اتر اکھنڈ میں ریلوے اسٹیشن کے نام سنسکرت سے اردو میں لکھے گئے تھے اسی لیے شاداب شمس نے دعویٰ کیا کہ اب وہاں کی مسلم کمیونٹی کے لوگ بھی تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق، اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی کل 1.01 کروڑ میں سے 14.07 لاکھ یعنی 13.95 فیصد ہے۔
***
***
اگرچہ یہ اس اعلان کا ایک منفی پہلو ہے لیکن اگر یہ نافذ ہو جاتا ہے اور مدارس کے طلبا کو سنسکرت پر عبور حاصل ہونے لگے تو یہ خود ان کے لیے ایک خوش آئند مستقبل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جب طلبا ایسی زبانوں پر عبور حاصل کریں گے جن میں دیگر مذاہب کا بہت سارا مواد موجود ہو تو وہ انہیں پڑھ کر دعوت و تبلیغ کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دے سکتے ہیں اور برادران وطن کی ہدایت اور اخروی فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023