اتر پردیش حکومت نے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے شروع کیا
نئی دہلی، ستمبر 13: ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق اتر پردیش کی حکومت نے پیر کو غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے شروع کر دیا اور سروے کمیٹی کے تین رکنی پینل نے ریاست میں مدرسوں کا دورہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ کمیٹی مدارس سے ان کے فنڈز کے ذرائع سمیت 12 پہلوؤں پر معلومات حاصل کرے گی۔
پچھلے مہینے اتر پردیش حکومت نے کہا تھا کہ وہ غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرے گی تاکہ اساتذہ کی تعداد، نصاب اور دیگر تفصیلات کے ساتھ ساتھ معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔
اتر پردیش کے اقلیتی امور کے وزیر مملکت دانش آزاد انصاری نے 31 اگست کو کہا تھا کہ یہ سروے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جائے گا کہ مدارس کے طلبا کے لیے بنیادی سہولیات قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کی ضروریات کے مطابق ہوں۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق 7 ستمبر کو ریاستی وزیر برائے اقلیتی بہبود، وقف اور محکمہ حج دھرم پال سنگھ نے 10 ستمبر تک سروے کی ٹیمیں تشکیل دینے کی ہدایات جاری کیں۔ انھوں نے سروے ٹیموں کو ہدایت کی کہ وہ 25 دنوں کے اندر ضلع مجسٹریٹس کو رپورٹ پیش کریں۔ یہ رپورٹ 25 اکتوبر تک اتر پردیش حکومت کو بھیجی جانی ہے۔
سنگھ نے کہا ’’ہمارا مقصد ان اداروں کو مرکزی دھارے میں لانا اور IAS اور IPS [افسران]، انجینئرز اور ڈاکٹروں کو پیدا کرنا ہے۔ اس لیے ان میں ریاضی، انگریزی، ہندی اور سماجی علوم کی تعلیم بھی ضروری ہے۔‘‘
تاہم سروے کرنے کے اس فیصلے نے مدارس اور مسلم گروپوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
جمعیت علماے ہند نے 6 ستمبر کو اس سروے کو، مدرسوں کو بدنام کرنے کی بدنیتی پر مبنی کوشش قرار دیا۔ مسلم گروپ نے کہا کہ وہ ہر قیمت پر مدارس کی حفاظت کرے گا۔
9 ستمبر کو بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا کہ اس مشق کو انجام دینے کا فیصلہ ’’انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکام کو ایسا سروے کرنے کے بجائے سرکاری گرانٹ پر چلنے والے مدارس کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’کانگریس کے دور میں مسلم کمیونٹی کے استحصال، نظر انداز کیے جانے اور فسادات سے متاثر ہونے کی شکایتیں عام تھیں۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہے اور دہشت پھیلا رہی ہے جو کہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘‘