امریکا کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی، روہنگیا مہاجرین نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا
نئی دہلی، مارچ 22: بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکہ نے پیر کو باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا برادری کی نسل کشی کی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں خطاب کرنے والے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حملے ’’وسیع پیمانے پر اور منظم‘‘ تھے۔
بلنکن نے کہا ’’ہولوکاسٹ سے آگے بڑھتے ہوئے، امریکہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سات بار نسل کشی کی گئی۔۔۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ برمی فوج کے ارکان نے روہنگیا کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘
اگست 2017 میں میانمار کی فوج کی جانب سے ریاست رخائن میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہو گئے تھے۔ کریک ڈاؤن کے صرف پہلے مہینے میں 6,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
میانمار روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن سمجھتا ہے اور ایک سرکاری نسلی گروہ کے طور پر ان کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔
الجزیرہ کی خبر کے مطابق تقریباً 14 ماہ قبل، جب بلنکن نے اپنے دفتر کا چارج سنبھالا تھا، انھوں نے خطے میں تشدد کا جائزہ لینے کا عہد کیا تھا۔
اس جائزے کے بارے میں پوچھے جانے پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ بلنکن کے ذریعے اس جبر کو نسل کشی قرار دینے کا اعلان، خاص طور پر متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے، اس کا مظہر ہے کہ امریکہ نے ’’جرائم کی سنگینی‘‘ کو تسلیم کیا ہے۔
ساکی نے کہا ’’ہمارا خیال یہ ہے کہ برمی فوج کے جرائم پر روشنی ڈالنے سے ان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا اور ان کے لیے مزید زیادتیاں کرنا مشکل ہو جائے گا۔ روہنگیا کو طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ خارجی پالیسیوں کا شکار ہیں۔ اور اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے محکمہ خارجہ میں جائزہ لینے کا یہ ایک طویل عمل رہا ہے۔‘‘
ساکی نے کہا کہ بلنکن نے میانمار کے لیے ’’2011 کے بعد سے برما میں سب سے زیادہ سنگین بین الاقوامی جرائم‘‘ کے شواہد کو جمع کرنے، ان کی تحقیقات کرنے، انھیں محفوظ کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے تقریباً 1 ملین ڈالر کی رقم کا اعلان بھی کیا ہے۔
ستمبر 2018 میں اختیار کیے گئے میکانزم کا مقصد خطے میں ہونے والے مظالم کے شواہد کا تجزیہ کرنا اور منصفانہ اور آزاد مجرمانہ کارروائیوں میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
بی بی سی کے مطابق بلنکن نے کہا ’’وہ دن آئے گا جب ان خوف ناک حرکتوں کے ذمہ داروں کو ان کے لیے جواب دینا پڑے گا۔‘‘
دریں اثنا ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں نے اپنی کمیونٹی پر جبر کو نسل کشی قرار دینے والے امریکی اعلان کا خیرمقدم کیا۔
وہیں ڈھاکہ یونیورسٹی کے سینٹر فار جینوسائیڈ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ یہ اعلان ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم احمد نے امید ظاہر کی کہ اس کے بعد ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا ’’صرف یہ کہہ دینا کہ میانمار میں روہنگیا کے خلاف نسل کشی کی گئی ہے، کافی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس بیان کے بعد کیا ہوگا۔‘‘