یوپی ٹیچر کیس: متعدد ٹویٹر صارفین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ان کی پوسٹس کو ’’قانونی مطالبے‘‘ کے سبب بلاک کر دیا گیا ہے
نئی دہلی، اگست 26: مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم ایکس (ٹیوٹر) کے متعدد صارفین نے ہفتے کے روز شکایت کی کہ سات سالہ مسلم بچے کو اس کے ہم جماعتوں سے پٹوانے والی ٹیچر کے بارے میں کیے گئے ان کے پوسٹس کو ہندوستان میں بلاک کر دیا گیا ہے۔
اس واقعے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی، بہت سے لوگوں نے ٹیچر ترپتا تیاگی کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم پر بہت سے صارفین نے اپنی ٹویٹس کے اسکرین شاٹس شیئر کیے، جو اب سائٹ پر نظر نہیں آرہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان پوسٹوں کو ملک میں ’’قانونی مطالبے کے جواب میں‘‘ روک دیا گیا ہے۔
جن لوگوں کی پوسٹس روکی گئی تھیں ان میں شاداب خان بھی شامل ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے سب سے پہلے اس واقعے کی ویڈیو پوسٹ کی تھی۔
بہت سے سوشل میڈیا صارفین بشمول اداکار ارمیلا ماتونڈکر اور صحافی روہنی سنگھ اور گرگی راوت نے پوچھا کہ ان کی پوسٹس کو کیوں بلاک کیا گیا ہے، حالاں کہ انھوں نے توہین آمیز زبان استعمال نہیں کی ہے اور نہ ہی غلط معلومات پھیلائی ہیں۔
Hello @X @TwitterIndia May I kindly know why exactly my tweet has been upheld? Neither the language nor the thought behind it is derogatory towards anyone. I’m not spreading any fake news like most others. So is it plain pressure from the establishment? pic.twitter.com/f3Kv4hZhXp
— Urmila Matondkar (@UrmilaMatondkar) August 26, 2023
کانگریس کی ترجمان سپریہ شرنتے نے الزام لگایا کہ مرکز نے جمعہ کو ٹوئٹر کو ہنگامی احکامات جاری کیے ہیں تاکہ بچے کو تھپڑ مارے جانے کی ویڈیو کو بلاک کیا جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہفتے کی صبح حکومت نے کیس کے بارے میں لنکس اور ہیش ٹیگز کو بلاک کرنے کے لیے اضافی احکامات جاری کیے ہیں۔
تاہم مرکز نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
جمعہ کی شام نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی چیئرپرسن پریانک کانونگو نے سوشل میڈیا صارفین پر زور دیا تھا کہ وہ اس واقعے کی ویڈیو شیئر نہ کریں، کیوں کہ بچے کی شناخت ظاہر کرنا جرم ہے۔