اکثریت پرستی کے زہر آلود معاشرے میں اقلیتیں جینے کی تدبیر کریں

یو پی میں مسلم امیدواروں کی کامیابی کا جائزہ

افروز عالم ساحل

ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک مشکل سیاسی دور ہے۔ مسلمان اور مسلم سیاست لگاتار حاشیے پر جاتی نظر آرہی ہے۔ اتر پردیش میں 157 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جسے چاہے اقتدار کا مزہ چکھا سکتے ہیں وہاں اس بار صرف 34 مسلم امیدواروں نے جیت درج کی ہے۔ اگرچہ کہ یہ اعداد وشمار گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہیں۔ جبکہ 2017ء اسمبلی انتخابات میں 25 مسلمان کامیاب ہوئے تھے۔ 2012ء میں 68 اور 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں 56 مسلمان انتخاب جیت سکے تھے۔

اس بار 31 مسلم امیدوار دوسرے مقام پر رہے ہیں۔ کچھ امیدواروں کی ہار کافی معمولی ووٹوں سے ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ضلع بجنور کے دھامپور اسمبلی سیٹ پر سماجوادی پارٹی کے امیدوار نعیم الحسن صرف 203 ووٹوں سے بی جے پی امیدوار اشوک کمار رانا سے ہار گئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس اسمبلی سیٹ پر کل 7 امیدوار تھے۔ اشوک کمار رانا کو 81791 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ نعیم الحسن کو 81588 ووٹ ملے اور بی ایس پی کے ٹھاکر مولچند چوہان 38993 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مقام پر رہے۔

ایسی ہی کہانی مرادآباد نگر اسمبلی سیٹ کی بھی ہے۔ یہاں سماجوادی پارٹی کے امیدوار محمد یوسف انصاری کی ہار محض 782 ووٹوں سے ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ اس اسمبلی سیٹ پر کل 10 امیدوار تھے۔ یہاں سے بی جے پی کے ریتیش کمار گپتا نے 148384 ووٹ حاصل کر اپنی جیت درج کی۔ وہیں بی ایس پی کے ارشاد حسین 14013 ووٹ اور کانگریس کے رضوان قریشی 5351 ووٹ حاصل کر کے تیسرے اور چوتھے مقام پر رہے۔ سماجوادی پارٹی کے محمد یوسف انصاری کو کل 147602 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ اس بار جیتنے والے تمام مسلم امیدواروں کا تعلق سماجوادی پارٹی اتحاد سے ہے۔ دو مسلم امیدواروں کا تعلق جینت چودھری کی آر ایل ڈی، ایک کا تعلق اوم پرکاش راجبھر کی ایس بی ایس پی جبکہ باقی 31 کا تعلق سماجوادی پارٹی سے ہے۔ دوسرے مقام پر رہنے والے امیدواروں میں بھی زیادہ تر سماجوادی پارٹی اتحاد کے ہی امیدوار ہیں۔ ان میں صرف دو امیدوار کا تعلق بی ایس پی سے ہے۔

آگرہ (نارتھ) اسمبلی سیٹ سے بی ایس پی کے شبیر عباس بی جے پی کے امیدوار پرشوتم کھنڈیوال سے کل 112370 ووٹوں سے ہارے ہیں۔ وہیں ضلع ہردوئی کے ساندیلا اسمبلی سیٹ سے پی ایس پی کے امیدوار عبدالمنان کی ہار 37103 ووٹوں سے ہوئی ہے۔ انہیں بی جے پی کے الکا سنگھ نے ہرایا ہے۔ وہیں دوسرے مقام پر رہنے والے امیدواروں میں ضلع بلرامپور کے تلسی پور اسمبلی سیٹ کی آزاد امیدوار زیبا رضوان بھی شامل ہیں۔ یہ 51251 ووٹ حاصل کرنے کے باوجود 35781 ووٹوں سے بی جے پی کے کیلاش ناتھ سے ہار گئی ہیں۔ یہاں تیسرے مقام پر سماجوادی پارٹی کے عبدالمشہود خان ہیں، انہوں نے 42815 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار محمد سجاد نے ان اعداد وشمار کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم مخالف نفرت میں اگر اکثریت کا خاطر خواہ حصہ ایک مخصوص پارٹی کی طرف شدت سے مائل ہو چکا ہے تو ایسی صورت میں اقلیت بہت کچھ نہیں کر سکتی۔ ایسے پر خطر ماحول میں ہمیں حواس باختہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے جتنا ممکن تھا اتنا انہوں نے کر دیا ہے۔ نتائج پھر بھی مخالف آئے تو اس کی وجہ اکثریت پرستی ہے، دوسری کوئی وجہ نہیں ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ کیپیسیٹی بلڈنگ کو ہی فوقیت اور ترجیح دی جائے، اگرچہ سرکاری رکاوٹیں وہاں بھی آئیں گی لیکن راستہ صرف وہی ہے۔ ہر وقت لوک سبھا ودھان سبھا میں مسلم تناسب ڈھونڈنا اور اسی جدوجہد اور کشمکش میں دیگر ترجیحات کو نظر انداز کرنا، قطعی دانش مندی نہیں ہے۔ اکثریت پرستی کے زہر سے آلودہ معاشرے میں اقلیتوں کے جینے کی حکمتیں دیگر ہوا کرتی ہیں۔ ایسے کشیدہ ماحول میں علی الاعلان قانون سازی میں مسلم تناسب ڈھونڈنے کے مرض اور symptoms کو dormant رکھنا غالبا بہتر حکمت عملی ہے۔

یاد رہے کہ 2017ء اسمبلی انتخابات میں ہی یو پی کمیونل سیاست کی ایک نئی لیبارٹری بن کر ابھری تھی۔ گزشتہ کی طرح اس بار بھی یہ انتخاب مسلم بنام ہندو ہی لڑا گیا۔ گزشتہ انتخابات کی طرح اس انتخابات کی بھی خاص بات یہ رہی کہ او بی سی اور دلتوں کا ایک بڑا طبقہ نسلی بنیاد پر پارٹیوں سے آگے بڑھ کر فرقہ وارانہ سیاست میں کھو گیا۔ یعنی جو تجربہ بی جے پی نے 2014ء لوک سبھا انتخابات میں کیا تھا وہ اب بھی کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کیا مایاوتی کو اب بھی لگ رہا ہے کہ مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا؟ اس پر پروفیسر سجاد کہتے ہیں کہ ان کا یہ بیان زہریلا ہے۔ انہوں نے بھی مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھیرایا ہے جیسے کہ مسلم ووٹرز ان کے زر خرید غلام ہوں!

لیکن اب سوشل میڈیا کے چند مسلمان بھی مسلم ووٹروں کے ساتھ وہی کر رہے ہیں۔ ان سے اپیل ہے کہ ذرا ٹھنڈے دماغ سے غور وخوض کریں۔

خیال رہے کہ اس مرتبہ بی ایس پی نے 88 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا جبکہ کانگریس نے سب سے زیادہ 75 مسلمانوں کو امیدوار بنایا تھا اور سماجوادی پارٹی نے سب سے کم 64 مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے۔

***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022