انیس بیس کا فرق!
حسیب جاوید، شارجہ
محاورے یوں ہی وجود میں نہیں آتے بلکہ ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی عبرت آمیز واقعہ ضرور ہوتا ہے۔ محاورے کے وجود میں آنے سے پہلے کسی نہ کسی کا مشاہدہ و تجربہ ہوتا ہے۔ کسی محاورے کا استعمال پہلی بار کس نے کیا ہو گا، اس کا پتہ لگانا ممکن تو نہیں ہوتا لیکن پہلی بار کسی کے استعمال کرنے کے بعد ہی یہ مقبول ہوتا ہے اور یوں محاورے زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں۔
انہیں میں سے ایک محاورہ ہے’’انیس بیس‘‘ اس کا استعمال اکثر یوں ہوتا ہے ’’زیادہ نہیں بس انیس بیس کا فرق ہے‘‘۔ ’’انیس بیس کے فرق سے کام چل جائے گا‘‘ وغیرہ۔ اس محاورے کا استعمال بھی کسی نہ کسی نے پہلی بار کیا ہی ہوگا۔ اگر بس میں ہوتا تو ضرور ان صاحب سے پوچھ لیتے کہ آخر وہ معاملہ کیا تھا؟ کیونکر تم نے یہ کہا کہ انیس بیس کا فرق ہے، چل جائے گا؟ کیا اس زمانے میں ہر کوئی اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ بس انیس بیس کا فرق رہ جائے، کیا وہ زمانہ اتنا اچھا تھا؟
25 سال خلیجی ممالک میں گزار کر میں وطن عزیز واپس لوٹا۔ اب مجھے چاچا جان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ قصہ یوں ہے کہ چاچا جان شہر کی نامور شخصیت ہیں۔ دینی و فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ علماء و دانشوروں کا ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایک دن ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ آپ کے چاچا تو بڑے نیک اور شریف انسان ہیں۔ انہیں تو دین و دنیا کا اچھا خاصہ علم ہے۔ وہ کسی عالم سے کم نہیں ہیں بلکہ ان کے اور کسی عالم کے درمیان بس انیس بیس کا فرق ہے۔ چاچا کی تعریف سن کر میں بڑا خوش ہوا۔
دوسرے دن چاچا کے گھر جانا ہوا۔ چاچا سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن ان کے گھر پھوپھی جان سے ملاقات ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے ترکہ کے حصول کے لیے چاچا کے گھر کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ چاچا نے ان کے حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ میں اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ان کا پڑوسی دروازے پر کھڑا ہے، وہ بڑے غصہ میں تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ چاچا گھر پر نہیں ہیں تو مجھ سے کہنے لگا کہ جناب! اپنے چاچا کو سمجھائیے، وہ میری دیوار پر اپنا کمرہ بنانے جارہے ہیں۔ میرے صحن میں اپنا پانی چھوڑ رکھا ہے۔ میرے گھر کے سامنے اپنی گاڑی پارک کر رہے ہیں۔ تنگ کر کے رکھا ہوا ہے مجھے۔ کیسے آدمی ہیں، پڑوسی کا کچھ خیال ہی نہیں ہے۔ میں وہاں سے بھی گزر گیا لیکن راستے میں یہ خیال دل سے نہیں نکل رہا تھا کہ اس آدمی نے چاچا کے بارے میں ایسے کیسے کہہ دیا کہ ان کے اور کسی عالم کے درمیان بس انیس بیس کا فرق ہے۔ یہاں تو بہت بڑا فرق نظر آر ہا ہے۔
کچھ دنوں بعد ہمارے پڑوسی امجد صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بڑے دلبرداشتہ نظر آ رہے تھے۔ میں نے دکھ بانٹنے کی کوشش کی تو سنانے لگے کہ میرا بیٹا سیول سرویسیس کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ہمارے شہر کا جو لڑکا کامیاب ہوا ہے اس کی محنت اور میرے بیٹے کی محنت میں بس انیس بیس کا فرق تھا لیکن میرا بیٹا تعصب کا شکار ہو گیا۔
لو یہاں پر بھی انیس بیس کی بات آگئی۔ لیکن تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ جو لڑکا کامیاب ہوا ہے اس نتیجہ سے پہلے اسے کوئی جانتا تک نہ تھا۔ اس لیے کہ وہ کم سے کم 18 گھنٹے پڑھائی کرتا اور باقی وقت میں وہ دوسری ضروریات پوری کرلیتا۔ وہ کسی کو نظر ہی نہیں آتا تھا۔ اس کے برعکس امجد صاحب کے فرزند کو تو ایک زمانہ جانتا تھا۔ وہ اکثر اوقات، دن ہو کہ رات کئی قسم کے پروگرامس اور تقاریب میں مشغول رہتا اور باقی وقت کچھ پڑھائی بھی کرلیتا۔ مجھے پھر سے وہی خیال ستانے لگا کہ آخر امجد صاحب نے کیسے کہہ دیا کہ ان کے بیٹے اور کامیاب لڑکے کی کوشش میں بس انیس بیس کا ہی فرق تھا۔
ان ہی خیالوں کی لپیٹ میں، میں گھر میں بے چین سا آرام کر رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میرا ایک دوست مجھے ڈھونڈتا ہوا آگیا۔ وہ بھی پریشانی میں مبتلا تھا۔ اس نے شکایت کی کہ تم نے جس بلڈر کی سفارش کی تھی میں نے اسے ہی اپنے گھر کی تعمیر کا کام دیا تھا لیکن اس بلڈر نے تعمیر کی ایسی کی تیسی کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ میں نے ہی اپنے دوست کو اس بلڈر کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اس کا مارکٹ میں کافی اچھا نام تھا۔ میرا دوست پھر کہنے لگا ’’میں نے نمونے کے طور پر تمہارا گھر بتایا تھا۔ اس نے مجھ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ایسا ہی کام کرے گا لیکن اس نے مجھے دھوکہ دیا۔ جب میں نے اسے یاد دلایا کہ تم نے تو میرے دوست جیسا گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا تو کہتا ہے کہ زیادہ نہیں ہے بس انیس بیس کا فرق ہے۔ تم انجنیئر ہو تم خود چیک کر لو‘‘
میں اچھل پڑا۔ پھر سے انیس بیس؟ یہ انیس بیس میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ مجھے دوست کے نئے مکان کی جانچ کرنی پڑی۔ بیچارہ میرا دوست! میرے دل سے ایک آہ نکلی۔ میں نے اسے دلاسا دیا۔ بلڈر غائب ہو گیا تھا۔ اچھے خاصے کاروبار کو اس نے اپنی بدنیتی سے داؤ پر لگا دیا تھا۔
میرے اندر شدت سے بے چینی پیدا ہوئی کہ نہ جانے وہ زمانہ کتنا اچھا تھا جب معاملات میں انیس بیس کا فرق پایا جاتا تھا۔ زمانہ حال میں تو زمین آسمان کا فرق ہوتا جا رہا ہے۔
اسی بے چینی کے عالم میں، میں نے جب آس پاس کا دوبارہ جائزہ لیا تو کچھ ایسے معاملات کا بھی سامنا ہوا جن میں واقعی انیس بیس کا فرق پایا جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ لوگ اسے ماننے کو تیار نہیں تھے۔
ماما کے لڑکے کی شادی کا معاملہ تھا۔ مامی نے بہت ساری لڑکیاں دیکھیں اور ایک بہترین رشتہ تلاش کرلیا۔ لڑکی خوبصورت بھی تھی اور پڑھی لکھی بھی۔ بااخلاق اور امور خانہ داری سے واقف بھی۔ لوگ عزت دار لوگ تھے اور دیندار بھی لیکن پھر بھی بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ مخبر نے اندر سے خبر دی کہ لین دین کا معاملہ ہے۔ کچھ رقم کا پیچ پھنسا ہوا ہے۔ میں عید کے دن ماما کے گھر گیا۔ ماما مامی کے ساتھ عید کی مبارکباد اور بہت ساری باتیں ہوئیں۔ رشتہ کا بھی ذکر نکلا۔ ماما نے مامی سے کہا عید کا دن ہے شیر خرما تو لائیے۔ اٹھ کر جانے سے پہلے مامی نے رشتہ کے بارے میں مجھ سے مشورہ طلب کیا۔ میں نے کہا کہ رشتہ بہترین ہے۔ سارے جائز تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ کوئی انیس بیس کا فرق ہو گا۔ لین دین چھوڑیے بسم اللہ کیجیے۔ مامی خفا ہو گئیں۔ وہ اٹھ کر اندر چلی گئیں۔ میں وہاں بہت دیر بیٹھا رہا۔ شیر خرما نہیں آیا اور ماما نے مامی کو شیر خرمے کے بارے میں دوبارہ یاد بھی نہیں دلایا۔ میں واپس چلا آیا۔ شام کو مخبر نے فون کیا۔ بھائی صاحب آپ نے یہ کیا کہہ دیا کہ انیس بیس کا فرق ہے؟ وہاں تو 5 ، 10 لاکھ کا فرق چل رہا ہے۔
کچھ دنوں بعد شاید معاملات طے کر لیے گئے تھے۔ رشتہ طے ہو گیا اور شادی کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ شادی کی خبر سن کر بیگم نے شاپنگ شروع کردی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ تقریب نکاح اور ولیمے کے لیے الگ الگ ساڑیاں اور کچھ سوٹ لینے ہیں۔ میں نے بیگم کو یاد دلایا کہ ابھی 3 ماہ پہلے خالہ زاد بھائی کی شادی ہوئی تھی تو بہت سارے کپڑے خرید لیے گئے تھے۔ 40 ہزار روپیوں کی شاپنگ ہوگئی تھی۔ بیگم نے کہا وہ کپڑے اب پرانے ہوچکے ہیں۔ اب بس نئے چاہئیں۔ مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔ اب کی بار 50 ہزار سوچ کر رکھ لیں۔ میں نے احتجاج کیا کہ صرف ایک بار استعمال شدہ کپڑے پرانے کیسے ہوگئے؟ تو بیگم ناراض ہوگیئں۔ کہنے لگیں سب لوگوں نے وہ کپڑے دیکھ لیے ہیں اب وہ پرانے ہی لگیں گے۔ میں نے سمجھانا چاہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ 3 مہینے کے ملبوسات پرانے نہیں لگیں گے۔ وہ نئے ہی لگیں گے۔ بس انیس بیس کا فرق محسوس ہوگا۔ بیگم پھر سے ناراض ہو گئیں۔ اس بار میں بھی ناراض ہوگیا اور پھر ہم میں نوک جھونک شروع ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسری صبح ناشتہ میں مجھے کھچڑی کے ساتھ صرف کھٹا ملا۔ نہ قیمہ تھا نہ آملیٹ، نہ پاپڑ تھے نہ دہی۔ شوہر اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ سب کی طرح میں نے بھی مفاہمت کر لی۔ طے یہ پایا کہ چارمینار جائیں گے اور پتھرگٹی پر شاپنگ ہوگی۔
ایک ہفتہ بعد شام کو ہم چارمینار پہنچے۔ بیگم ایک اسٹور سے دوسرے اسٹور، دوسرے سے تیسرے اور پھر تیسرے سے چوتھے اسٹور میں پہنچ گئیں۔ میں پیچھے پیچھے چلتا رہا۔
اتنے میں عشاء کی اذان ہونے لگی۔ میں نے سوچا بیگم کی شاپنگ تو جلد ختم نہ ہو گی۔ عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ سستا لیتا ہوں۔ میں نے بیگم سے اجازت لی اور قریب کی مسجد پہنچ گیا۔ نماز کے بعد مسجد میں بحث و تکرار شروع ہو گئی۔ کسی نے الگ طریقے سے نماز پڑھ لی تھی۔ دو گروہ آپس میں ٹکرا گئے۔ ایک گروہ کہتا کہ ہاتھ سینے پر باندھنا چاہیے۔ دوسرا کہتا کہ نہیں، ہاتھ پیٹ پر باندھنا چاہیے۔ بحث طول پکڑنے لگی۔ میں نے مداخلت کی۔ کہا بھائیو، دین کے ارکان و فرائض میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ طور طریقے کچھ الگ ہوں تو کوئی بات نہیں۔ آپس میں ٹکرانا کیسا۔ سب کا دین ایک ہے۔ بس انیس بیس کا فرق ہے۔
دونوں گروہ غیظ و غضب کے عالم میں میری طرف متوجہ ہوئے۔ تم ہمیں غلط کہتے ہو۔ تم دین سے خارج ہو جاؤ گے۔ کچھ جوشیلے نوجوان میری طرف آگے بڑھنے لگے۔ مجھ پر ہیبت طاری ہونے لگی۔ اتنے میں ایک اور نوجوان مصلے سے اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد کے پچھلے دروازے سے مجھے باہر لے آیا۔ میں نے اس نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ نوجوان تم کون ہو۔ اس نے جواب دیا۔ میں اسی علاقے کا رہنے والا ہوں۔ آئی ٹی پروفیشنل ہوں۔ میری رات کی ڈیوٹی ہے۔ میں عشاء پڑھ کے نکلتا ہوں۔ مسجد میں بحث و مباحثہ جاری تھا۔ اس نوجوان نے اپنی بائیک اسٹارٹ کی اور جاتے جاتے مجھ سے کہا۔ اندر میرے دو کلاس میٹس بھی ہیں۔ کالج میں وہ مجھ سے بھی زیادہ ذہین تھے لیکن آپ لوگوں نے انہیں مسئلے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ آپ لوگ ذمہ دار ہیں ان کی اس حالت کے۔ اس سے پہلے کہ میں کہتا کہ میں تو بے قصور ہوں، وہ چلا گیا۔
میں تھکا تھکا سا بیگم کی تلاش میں نکلا۔ مجھے بیگم سولہویں اسٹور کے سامنے آٹھ پیکٹس کے ساتھ کھڑی ہوئی مل گئیں۔ خوش تھیں۔ پورے اکیاون ہزار کی شاپنگ جو ہو گئی تھی۔ ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ بھر مجھے مسجد کا واقعہ یاد آرہا تھا اور اس نوجوان آئی ٹی پروفیشنل کی بات میرے ذہن میں گونج رہی تھی۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ ذہین تھے۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ ذہین تھے۔ وہ ذہین بچے کہاں الجھے ہوئے ہیں، کون ذمہ دار ہیں آخر کون؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023