حج کمیٹی کے سابق ممبر نے اقلیتی امور کی مرکزی وزیر پر سنگین الزامات عائد کیے
اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی پر حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مرکزی حج کمیٹی کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے انہیں ایک تفصیلی خط لکھا ہے
نئی دہلی: اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی پر حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مرکزی حج کمیٹی کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے انہیں ایک تفصیلی خط لکھا ہے جس میں انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر موصوفہ آپ نے اپنی ہی وزارت میں وضع کردہ قانون حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
پریس کو جاری خط میں انہوں نے کہا ہے کہ ایکٹ میں صاف صاف لکھا ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا اور اسٹیٹ حج کمیٹی کی چار ماہ پہلے پوری کمیٹی بن کر تیار رہنی چاہیے مگر جون 2019 کے بعد حج کمیٹی آف انڈیا کی مدت ختم ہوگئی اور وزارت نے چھ چھ ماہ کی مدت کے لیے توسیع کی اور یہی نہیں بلکہ عدالت کے دخل کے بعد بیشتر اسٹیٹ میں حج کمیٹیاں بنی ہیں اور حج کمیٹی آف انڈیا کو آج تک ایکٹ 2002 کے تحت نہیں بنائی گئی۔
اپریل 2022 میں حج کمیٹی آف انڈیا جو 12 رکنی کمیٹی بنائی گئی اس میں بھی ایک ممبر کی مفتی کوٹہ میں ممبر شپ رکھی گئی اور دوسرے راجیہ سبھا ممبر جن کی مدت 3 ماہ بعد ختم ہونی تھی اور جو اب ختم بھی ہوگئی اس طرح قانون کا مذاق اڑا کر حج کمیٹی کی آدھی ادھوری تشکیل کی گئی جبکہ 19 ممبران کو ووٹ دینے کا حق ہے۔
سب سے پہلے ضروری ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل حج ایکٹ 2002 کے تحت پوری 23 رکنی کمیٹی بناکر ایک ساتھ اس کا انتخاب کیا جائے۔
مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ آل انڈیا حج کانفرنس سے میڈیا کو دور رکھا گیا جبکہ اس کانفرنس کی طرف پورے ملک کے مسلمانوں کی نگاہیں لگی رہتی ہیں کیوں کہ انہیں امید بندھی رہتی ہے کہ حج کانفرنس میں ملک کے عازمین حج کے لیے کچھ نئی سوغاتیں ملیں گی۔
مسٹر اعظمی نے کہا کہ وزیر موصوفہ نے جواشارے دیے ہیں اور اس تعلق سے کچھ اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ ڈیپوٹیشن پر ڈاکٹرز، خادم الحجاج، اے .ایچ. اوز وغیرہ جاتے ہیں شاید آپ کی رائے ہے کہ انھیں بند کردیا جائے۔
مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ مکہ شہر پوری طرح پہاڑ پر بسا ہوا ہے اور ملک سے جانے والے حاجیوں کی ایوریج عمر 65 سال سے زیادہ ہوتی ہے اور وہاں کا موسم بھی یہاں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور عازمین مکہ پہنچنے کے بعد فوراً انھیں ضروری ارکان پیدل چل کر کافی محنت اور مشقت سے ادا کرنے پڑتے ہیں ایسے میں 90 فیصد عازمین کا شروعاتی دور میں بیمار پڑنا لازمی ہوتا ہے اور مکہ میں 20 سے 40 اسپتال قائم ہوتے ہیں جس کے ایک ایک اسپتال میں کئی کئی ڈاکٹر اور عملہ ہوتا ہے اور وہ حاجیوں کا ضروری علاج کرتے ہیں اور مدینہ میں بھی یہی نظام قائم ہے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ خادم الحجاج اور اے.ایچ. او، جو وہاں بھیجے جاتے ہیں۔ کاؤنسلیٹ وہاں اپنے طور پر ڈیوٹی لگاتا ہے اور مختلف بلڈنگوں میں خادم الحجاج کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ اور چوں کہ یہاں کے عازمین سعودی عرب کی زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کی وہ پوری طرح رہنمائی کرتے ہیں اور وہاں پر حاجیوں کے گم ہونے کی شکایت بھی بہت زیادہ رہتی ہے ایسے میں یہ افسران انھیں تلاش کر کے انہیں ان کے کمرے تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں اس لیے یہ سہولت بھی برقرار رہنی چاہیے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ عازمین حج کو انٹر نیشنل مسافر کی طرح ڈالر دینے کے بارے میں بھی کئی طرح کے اشکال ہیں لیکن وہ نظام کسی بھی طرح حج کمیٹی کے حاجیوں کے لیے مناسب نہیں ہوگا کیوں کہ 75 فیصد آبادی کا تعلق گاؤں اور قصبوں سے ہوتا ہے۔
اس طرح پہلے یہ نظام تھا کہ جدہ میں ایئرپورٹ پر انھیں ریال دیے جاتے تھے جس میں بھی بہت شکایتیں ملتی تھیں کہ وہاں قطار میں لگ کر بھی حاجی ریال حاصل نہیں کرپاتے تھے۔ اس طرح کی شکایت ملنےکے بعد حج کمیٹی آف انڈیا نے غورخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اپنے ملک ہی میں انھیں ایئرپورٹ پر ضرورت کے بقدر ریال فراہم کرا دیا جائے اور یہ نظام سب سے بہتر ہے اگر اس سلسلے میں ڈالر کا پھر سے نظام قائم کیا گیا تو حاجی گاؤں سے لے کر مکہ شہر تک ڈالر کو کیش کرانے میں اور ڈالر کو حاصل کرنے میں پریشان ہوں گے، لہٰذا یہ نظام کسی بھی طرح بند نہ کیاجائے۔ انہوں نے بتایا کہ 2100 ریال جو حاجی کو دیے جاتے ہیں وہ ان کی ضرورت کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ فلائٹ کے شیڈول سے بھی حاجیوں کو بھیجنے پر غور وخوض ہو رہا ہے جوکسی بھی طرح عملی طور پر کامیاب نہیں ہوسکتا کیوں کہ جدہ میں حج ٹرمنل الگ ہے اور شیڈول فلائٹ کا ایئرپورٹ الگ ہے اور ساتھ ہی شیڈول فلائٹ سے اتنی بڑی تعداد میں عازمین کا جانا ناممکن ہے۔ حج کمیٹی عازمین حج کوچارٹر فلائٹ سے ہی بھیجے جو زیادہ مفید اور کارگر ہے۔ کرایہ کم کرنے کے لے گلوبل ٹینڈر کا سہارا لینا سب سے موزوں ہے اور اس میں شفافیت لانے کی ذمہ داری وزارت شہری ہوا بازی کو دے دی جائے۔ اس کے علاوہ جو9 بڑے امبارگیشن پوائنٹ بنائے گئے ہیں ان کی الگ سے ٹینڈرنگ کی جائے تو یہ سفر بہت حد تک سستا اور آرام دہ ہوسکتا ہے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ جہاں تک حج کے اخراجات کو کم کرنے کا سوال ہے، حج فیس اس وقت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کا راست تعلق سعودی عرب کی حکومت سے ہے۔ اس سلسلے میں امبیسڈر اور کونسل جنرل آف انڈیا کی طرف سے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ رہائش کے لیے جو کمرے کرایے پر لیے جاتے ہیں ایسی صورت میں اگر مکان مالکان سے رابطہ کیا جائے تو کرایے میں تخفیف کرائی جاسکتی ہے جس سے عازمین کو سیدھا فائدہ پہنچے گا۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے پاس جو بھی اثاثہ اور سرمایہ ہے وہ مسلمانوں کی گاڑھی کمائی ہے، اسے خرچ کرنے کے لیے ایکٹ 2002 میں 4 ایکس آفیشیو ممبران کی تجویز ہے جو حکومتی احکام کی جانکاری بھی عازمین کو فراہم کرتے ہیں۔
مسٹر اعظمی نے اخیر میں محترمہ وزیر سے مؤدبانہ اپیل کی ہے کہ عازمین حج کا یہ متبرک سفر گاؤں سے شروع ہوکر دوسرے ملک میں ختم ہوتا ہے اس میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے سے پہلے متعلقہ محکمہ وزارت خارجہ وزارت شہری ہوا بازی، اسٹیٹ حج کمیٹی، سینٹرل حج کمیٹی اور ہرشہر میں حج رضا کار کے مشوروں سے بتدریج اصلاحات کرکے قائم ہوئی ہیں اس لیے اس میں ہفتوں اور مہینوں میں کچھ لوگوں سے مشورہ اور رائے مانگ کر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لیے کم ازکم ایک سال کی مدت کے لیے کوئی کمیٹی بنائی جانی چاہیے اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داروں کو اس شامل کرکے اور اس کے لیے جگہ جگہ دورے کرکے ان سے رپورٹیں لی جائیں اس کے بعد ہی کوئی انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے اور تبھی وہ عازمین حج کے لیے سودمند ہوسکتی ہے ۔
مسٹر اعظمی نے خط کی کاپی وزیر اقلیتی فلاح وبہبود وحج محترمہ اسمتی ایرانی کے علاوہ وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری اور وزارت شہری ہوا بازی کے جوائنٹ سکریٹری، اقلیتی فلاح وبہبود وحج وزارت کے جوائن سکریٹری سعودی عرب ریاض میں امبیسڈراور کونسل جنرل آف انڈیا جدہ اور چیف ایکزیٹیو حج کمیٹی آف انڈیا ممبئی کو بھیجی ہے۔