امت کے اندر دینی شعور اور دعوتی مزاج پیدا کرنا وقت کی ضرورت

انفرادی ملاقاتیں اور مساجد کے اندر ’اوپن ہاوز سیشنس‘ دعوت اسلام کا موثر ذریعہ

ڈاکٹر ساجد عباسی

داعیان دین موثررابطہ اور مدلل گفتگو کی صلاحیت پیدا کریں۔ امریکہ کے معروف ڈاکٹر سبیل احمد سے انٹرویو
ڈاکٹر سبیل احمد کا تعلق اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ ICNAسے ہے اور وہ اکنا کے گین پیس پراجکٹ ((Gain Peace Projectکے اگزیکیوٹیو ڈائرکٹر ہیں ۔ ان کی تنظیم کا مقصد غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کرنا اوران کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرناہے۔ڈاکٹر سبیل زائد از 15 برسوں سے دعوتی میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔امریکہ کے سارے ہی بڑے شہروں کی تمام بڑی مساجد میں وہ غیر مسلموں کے ورکشاپس لے چکے ہیں اور لیکچرس اور سوالات و جوابات کے سیشنس کے ذریعہ اسلام کا تعارف پیش کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ میں اسلاموفوبیاکی مسموم فضا کو دور کرنے میں مساجد کے اندر منعقد کیے جانے والے عام مباحثopen house sessionsکے بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہورہےہیں جن میں غیرمسلموں کو مدعو کیا جاتا ہےاور مسلم روایتی کھانوں کے ساتھ میزبانی کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔نیز مختلف social activities کے ذریعے ان کو اسلامی کلچر سے واقف کروایا جاتا ہے۔ایسے غیر مسلمین جنہوں نے مساجد میں کبھی قدم نہیں رکھا اِن کی ایک دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مسجد کا اندرونی منظر دیکھیں ۔اسی جستجو کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے نہایت سلیقے اور اہتمام سے اسلام کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ برسوں سے ذہنوں کے اندر پنپنے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔اکتوبر کے اواخر میں راقم کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ڈاکٹر سبیل احمد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ چونکہ دعوت الی اللہ راقم الحروف کی خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے لہذا اس حوالے سے ڈاکٹر سبیل احمد کے ساتھ بہت ہی مفید گفتگو رہی ہے جو قارئین دعوت کی خدمت میں پیش ہے ۔ امید ہے کہ بھارت میں دعوتی کام کرنے والوں کے لیے یہ انٹرویو مفید ثابت ہوگا اور یہاں بھی اسی نہج پر دعوتی کام کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔

سوال: بھارت میں ہم جنوبی ریاستوں کی چند بڑی مساجد میں visit the mosque کے پروگرام منعقد کرتے ہیں جس میں ہم اذاں ،وضو اور نماز باجماعت کے بارے میں بتلاتے ہیں نیز پوسٹرس کے ذریعے سے اسلام کے عقیدے ، عبادات واخلاقیات کا تعارف پیش کرتے ہیں۔اس سے آگے بڑھ کر ہم نے Open house sessionکا تجربہ نہیں کیا ہے۔آپ بتلائیں کہ اس کو کس طرح کیا جاسکتا ہے۔
جواب : میری نظر میں دعوت الی اللہ کا سب سے بہترین اور موثر ذریعہ open house sessions ہیں۔ ہم لوگ مساجد میں غیر مسلموں کو مدعو کرتے ہیں جہاں خواتین ،بچوں اور بڑوں کے لیے social activities رکھی جاتی ہیں۔مختلف قسم کے لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کی جاتی ہے۔اس سے ان کے اندر انسیت پیدا ہوتی ہے۔آج کل ان کے لیے VR Glasses کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کے بعد اسلام پرایک مختصر presentation ہوتا ہے جس کے ذریعے اسلام کا اجمالی تعارف کروایا جاتاہے۔اس کے بعد سوالات کے لیے open house session رکھا جاتا ہے جس کا دورانیہ ۳۰ یا ۴۰ منٹ ہوتا ہے۔یہ سشن آسان نہیں ہوتا اور اس کے لیے اوسط درجے کے داعیوں کے بجائے expertsکی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس علم ہوتجربہ ہو اور اس سے بڑھ کر حکمت و دانائی ہو۔کل میں Ohioمیں تھا وہاں یہ سوال کیا گیا کہ ایران میں خواتین کے لباس و حجاب پر احتجاج ہورہا ہےاس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس طرح کے سوالات سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نہ صرف اسلامی تعلیمات سے واقفیت ہوں بلکہ حالاتِ حاضرہ پر بھی ہماری نظر ہو۔رٹے رٹائے جوابات سے کام نہیں چلے گا۔ایک داعی کو حالات و ظروف کی رعایت رکھتے ہوئے ایسا جواب دینا چاہیے جو اسلام کی صحیح ترجمانی کرتا ہو اور ساتھ میں اس کو مطمئن بھی کرے۔جب بھی سوال کیا جائے تو اس کو compliment کیا جائےکہ یہ بہت اچھا سوال ہے۔جواب قرآن و سنّت کی روشنی میں دیاجائے۔جیسے حجاب پر سوال ہوتو قرآنی آیات سے حجاب کی علت کو بیان کیا جائے۔پھر اس کی مماثلت analogy پیش کی جائےجیسے اسکول کا یونیفارم ہوتا ہے اسی طرح اللہ کی طرف سے بھی ایک ڈریس کوڈ مقرر کیا گیا ہے۔پھر ان کی مذہبی کتابوں سے حجاب کے حق میں quotationsپیش کی جائیں۔اور آخر میں یہ بتلایا جائے کہ حجاب سے معاشرہ میں بے حیائی نہیں پھیلتی۔

سوال:امریکہ کہ تمام شہروں میں open house sessionsمنعقدکرنے کے لیے جو علم اور تجربہ درکار ہے کیا آپ اس سلسلے میں ٹریننگ کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ اس میدان میں مزید لوگ تیار ہوں؟
جواب:ہاں جو لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں والنٹیرس کے طور پر ان کی عملی وفکری تربیت ہوتی رہتی ہے۔

سوال: آپ نے کیا اس سلسلے میں کوئی لٹریچر تیا رکیا ہے؟
جواب:میں نے ایک کتاب مرتب کی ہے”Top 50 Dawah Projects”
کے نام سے ۔اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مختلف مقامات پر دعوت الی اللہ کے کیا طریقے ہوسکتے ہیں۔
سوال :کسی ایک ہی مسجد میں آپ کتنی مرتبہ یا کتنے وقفے سےopen house session منعقد کرتے ہیں؟
جواب: ایک ہی مسجد میں سال میں کم از کم ایک مرتبہ visit the mosque کے ساتھ open house sessionرکھا جاسکتا ہے۔

سوال :کیا آپ غیر مسلموں کے لیے مسجد میں بیٹھنے کے لیے الگ جگہ مختص کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ ناپاک ہوتے ہیں؟
جواب: رسول اللہ کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپؐ نے نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں مدعو کیا لیکن ان سے یہ نہیں کہا کہ وہ نہا دھوکر آئیں۔
غیر مسلموں کو مسجد کا ٹور کروایا جائے اس کے بعدمسجد سے متصل اگر کوئی ہال ہوتوان کو اس میں بٹھایا جاسکتا ہےلیکن ہر مسجد میں اس طرح کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔
سوال :کیا غیرمسلموں کی نشستیں مرد و زن کے لحاظ سے مخلوط ہوتی ہیں؟
جواب: امریکہ میں چند مساجد میں خواتین اور مرد حضرات کے لیے بیٹھنے کے لیے الگ الگ نشستیں ہوتی ہیں لیکن اکثر مساجد میں مرد و خواتین ساتھ مل کر ہی بیٹھتے ہیں۔

سوال : open house session کے بعد کیا آپ کے پاس شرکاء کے اڈریس یا موبائل فون نمبرات محفوظ ہوتے ہیں جس سے آپ ان سے انفرادی ملاقاتیں کرسکیں؟
جواب: میں اپنا پرسنل موبائل فون نمبر کسی کو نہیں دیتا سکیورٹی وجوہات کی بناپر۔ الّا یہ کہ کوئی prominent شخصیت ہوجیسے کوئی pastor یا clergy ہوجو مجھ سے شخصی طور پر بات کرنا چاہے۔جو لوگ اسلام کے بارے میں دلچسپی رکھ کر سوالات کرنا چاہتے ہیں وہ Toll Free نمبر۱۸۰۰۶۶۲ پر رابطہ کرتے ہیں۔
سوال :آپ کی نظر میں امریکہ میں دعوتی کام کرنے لیے سب سے بہترین طریقہ کیا ہے؟
جواب: جیسا کہ پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ open house sessionsسب سے موثر طریقہ دعوت ہے۔اسٹریٹ دعوہ کا کام بھی یہاں بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے۔دعوت الی اللہ کے لیے انفردی ملاقاتیں بہت ہی کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔

سوال :امریکہ میں انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود کے کئی کام انجام دیے جاتے ہیں۔عام طور سے ان سے دعوتی فوائد نہیں اٹھائے جاتے۔ ہر ملک میں اس طرح امت مسلمہ کے قیمتی وسائل صرف ہوجاتے ہیں لیکن ان وسائل کی دعوتی افادیت نہیں ہوتی ۔ آپ کے نزدیک کس طرح ان فلاحی کاموں کو دعوت الی اللہ سے جوڑا جاسکتا ہے؟
جواب: امت مسلمہ کے بیشتر وسائل خدمت خلق میں صرف ہوتے ہیں جبکہ ایک قلیل حصہ دعوت الی اللہ میں استعمال ہوتاہے۔ہم کو چاہیےکہ ہم خدمتِ خلق کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ کا کام بھی غیر محسوس انداز میں کریں۔مدعوئین کے اندر جستجو پیدا کریں تاکہ وہ سوال کریں۔جب وہ سوال کرنے لگیں تو مدلل جواب کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچائیں۔

سوال :کیا آپ کے ہاں کوئی ریسرچ گروپ ہے جوغیر مسلموں کی طرف سے آنے والے نت نئے سوالات کےمدلل جوابات تیارکرے؟ آج مسلمان ہر محاذ پر کمزور ہیں لیکن اللہ کا سچا دین ان کے پاس موجود ہے جس میں سچائی کی طاقت ہے اور دلوں کو مطمئن کرنےکاپورا مواد موجود ہےلیکن یہ سچائی ظاہر ہونہیں پارہی ہے۔مسلمانوں کو خود اس بات کا شعور نہیں ہے کہ ان کے پاس کتنی بڑی نظریاتی طاقت ہے۔
جواب: ہمارے ہاں کوئی منظم ریسرچ گروپ نہیں ہے جو مشکل سوالات کے جوابات تیارکرےلیکن کچھ افراد ہیں جو کوشش کرتے ہیں اور ایسے سوالات کے مدلل جوابات سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں جس سے سب استفادہ کرتے ہیں ۔

سوال :غیرمسلموں سے ان کے تہواروں کے موقع پر greetingsکا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ آپ کا اس معاملہ میں کیا اپروچ ہے؟
جواب: میں اس طرح کی greetings کو happy holidaysکہتا ہوں اورکبھی ان کے تجسس کو بیدار کرکے ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ ہم کیوں کرسمس کے موقع پر ان کو greet نہیں کرتے۔ہم حضرت عیسیٰؑ کی بڑی عزت کرتے ہیں مگر پیغمبر کی حیثیت سےنہ کہ الوہیت میں شریک ہونے کی حیثیت سے یعنی خدا یا خدا کے بیٹے کی حیثیت سے؟

سوال :یاسر قاضی اور نعمان علی خان سے آپ کے روابط کیسے ہیں؟
جواب: نعمان علی خان سے میرا اتنا ربط نہیں ہے لیکن شیخ یاسر قاضی سےمیرا گہرا ربط ہے۔میں Dallas کی epicمسجد میں دعوہ ٹریننگ پروگرام کرواتا ہوں اور اس مسجد میں open house session ہوتے ہیں جہاں شیخ یاسر قاضی مقامی عالم و خطیب ہیں۔ان کے والدصاحب جماعت اور icnaکے دیرینہ رکن رہ چکے ہیں۔

سوال :امریکہ میں اس وقت دعوت کے میدان میں کونسے چیلنجز یا رکاوٹیں ہیں ؟
جواب: الحمدللہ غیرمسلموں کی طرف سے ہم کو چیلنجز نہیں ہیں بلکہ کافی ہمت افزائی ہوتی یہ جان کرکہ ان کی ۳۷فیصد[ یعنی ۱۲۵ ملین] آبادی اسلام جاننا چاہتی ہے ۔یہاں مواقع کی ایک وسیع دنیا ہے۔یہاں چیلنجز مسلمانوں کی طرف سے ہی ہیں۔ان کے صدقات و خیرات اور زکوٰۃ کا بیشتر حصہ انسانی فلاح و بہبود پر [ تقریباً۹۸فیصد]خرچ ہوتا ہےلیکن دعوت الی اللہ کے لیے بہت ہی کم خرچ[۲فیصد] کیا جاتا ہے۔یہ اس لیے کہ مسلم امت میں دعوتی شعور کی بے حد کمی ہے۔

سوال :امریکہ کو تہذیبوں کا melting pot کہا جاتا ہے۔یہاں پر مسلم نسلوں کا مسلم باقی رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔یہاں پر مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے اور یہاں کا پبلک تعلیمی نظام خواہشات نفس کی اندھی تکمیل پر ابھارتا ہے۔جو بھی اس تعلیمی نظام سے گزرتا ہے اس کےاندر اپنے دین سے بغاوت و بیزاری پیدا ہوتی ہے۔اس کا کیا حل ہے؟
جواب: امریکہ میں اس وقت مسلم آبادی ایک فیصد ہےاور یہ مسلسل مغربی تہذیب کے نرغے میں ہے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔11
مسلم نوجوان الحاد، خدا بیزاری اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو رہے ہیں اور کچھ LGBT Culture کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم وسیع پیمانے پر اسلامی اخلاقی اقدار کی حقیقت نوجوانوں کو سمجھائیں اور والدین اور social activists کو اس خطرے سے آگاہ کریں کہ ہماری آئندہ نسلوں کا باقی رہنا دشوار ہے۔اس سلسلے میں ہماری کاوش مساجد کی حد تک ہی ہے۔

سوال :اسلامک اسکولز بہت مہنگے ہیں اور عام مسلمان اس کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔کیا کوئی متبادل تعلیمی نظام ہوسکتا ہےجو یاتو مفت ہو یا سستا ہوجیسے انڈیا میں مساجد میں مکاتب کا نظام ہے جہاں فجر کی نماز کے بعددو گھنٹے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جواب: یہاں پر weekend پر تقریباً تمام مساجد میں اسلامی کلاسس چلائی جاتی ہیں اور بعض مساجد میں ہر روز شام میں کلاسس ہوتی ہیں۔لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ پرائیویٹ اسلامی اسکولز زیادہ سے زیادہ ہوں اور ان کی فیس کم سے کم ہو۔

سوال :امریکہ میں والدین کو کیسے تعلیم و تربیت دی جائےتاکہ وہ اپنے بچوں کی گھرپر بروقت موثر تربیت کرسکیں؟
جواب: جی ہاں یقیناً بچوں کے والدین کی اگر تربیت ہوتو وہ بچوں کو بیرونی فتنوں سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔مساجد میں جو والدین نماز پڑھنے آتے ہیں ان کی تو تربیت ہوجاتی ہےلیکن جو مسجد سے دور ہیں ان کی تربیت ایک بڑا مسئلہ ہے۔

سوال :پبلک اسکولز میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے سے قبل کیسے ان کو ذہنی طورپر تیار کیا جائے کہ وہ ان کے مضر اثرات سے بچ سکیں ؟
جواب: الحمدللہ یہاں مساجد میں یوتھ گروپس اس ضمن میں اپنا رول ادا کررہے ہیں ۔وہ نوجوان طلبا میں برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یہ کام ان طلبا تک محدود ہے جو مساجد سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوال :مساجد میں عام طورپر اصلاح بین المسلمین پر خطبے دیے جاتے ہیں لیکن دعوت الی اللہ کی اہمیت پر بہت کم بولا جاتا ہے۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: میں نے ایک template بنایا تھا جس میں یہ فارمیٹ بنایا تھا کہ ۲۵ فیصد خطبات اصلاح پر ہوں ،۲۵ فیصد خطبات task oriented کاموں پر ہو جس میں ایک دعوت الی اللہ ہے،۲۵ فیصدخطبات نوجوانوں سے جڑے ہوئے مسائل پر مشتمل ہواور بقیہ ۲۵ خطبات حسبِ موقع seasonal ہوں جیسے رمضان ،حج ،سیرت وغیرہ پر۔

سوال : بھارت کے مسلمانوں کے لیے اور بالخصوص دعوت الی اللہ کے میدان میں کام کرنے والوں کے آپ کا کیا پیغام ہے؟
جواب: اس وقت ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں ان کےاندر صحیح اسلامی شعور کے ساتھ دعوتی شعور بھی بیدار ہوناچاہیے۔جو لوگ دعوتی شعور رکھتے ہیں ان کے اندر تبادلہ خیال کی مہارت communication skillsپیداکرنے کی اشد ضرورت ہے۔جب یہ مہارت پیدا ہوگی تو ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی جس کی بدولت وہ اسلامی نقطہ نظر بہت ہی سلیقہ و شائستگی اور دلائل کے ساتھ پیش کرسکیں گے۔ ہمیں غیرمسلموں کے ساتھ گفتگو کرنے کے ہر موقع کو اسلام کی تعلیمات پیش کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے بالخصوص انڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔جتنی غلط فہمیاں ہیں اسی قدر ہم کو غیر مسلموں سے کنارہ کشی کے بجائے engagement کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ان سے خود پوچھیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے اندر کیا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اس کے لیے ہمارے اندر presentationکی بہتریں قابلیت پیداکرنی چاہیے۔مدعو کی علاقائی زبان میں یا انگریزی میں مہارت پیدا کریں اور بہت ہی شائستگی اور نرمی سے مدلل گفتگو کرنے کی صلاحیت پیداکریں۔ہر جگہ toastmaster clubs موجود ہیں ۔ہم ان کا حصہ بنیں اور اپنے اندر روانی سے گفتگو کرنے کی صلاحیت پیداکریں۔
***

 

***

 امت مسلمہ کے بیشتر وسائل خدمت خلق میں صرف ہوتے ہیں جبکہ ایک قلیل حصہ دعوت الی اللہ میں استعمال ہوتاہے۔ہم کو چاہیےکہ ہم خدمتِ خلق کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ کا کام بھی غیر محسوس انداز میں کریں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022