الجھا ہے پاوں یار کا زلفِ دراز میں

بے جا خریداری ایک نفسیاتی عارضہ!

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ

پرسکون زندگی کا راز سادگی اور میانہ روی میں مضمر
لوگوں کو آسائشوں سے نہیں اپنی شخصیت سے متاثر کریں
کیاتحفے میں ملنے والا ایک قیمتی لباس کسی شخص کی زندگی تباہ کرسکتا ہے، اس کا سکون غارت کرسکتا ہے، اسے تنگ دست اور مقروض بنا سکتا ہے یا ایک نظریہ کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے۔ اوراس دعوی کے ثبوت میں ڈینیس ڈیڈاراو کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ (1713 -1784) Denis Diderot ایک مشہور فرانسیسی مفکراورایڈیٹر گزرا ہے۔ اس نے نہایت عسرت میں اپنی زندگی گزاری۔ لیکن اسے مطالعے کا بے حد شوق تھا اور اسی لیے معاشی تنگدستی کے باوجود اس کی ذاتی لائبریری میں کافی کتابیں موجود تھیں۔ 1765 میں روسی شہزادی کیتھرائن کو اس کی غربت کا پتہ چلنے پراس نے ازراہ کرم ڈینیس کی لائبریری خرید کر اسے ہی اس کا تاحیات نگراں مقرر کردیا اورپچاس سال کی تنخواہ ایڈوانس میں دے ڈالی۔ اب اس کے پاس کافی رقم آچکی تھی۔ ملاقات پرشہزادی نے اسے ایک قیمتی سرخ ڈریسنگ گاون بھی تحفتاً عطا کیا۔اور اسی قیمتی لبادے کے باعث ڈینیس کچھ ہی عرصے میں پھر سے تنگ دست اور مقروض ہو گیا۔ فلسفی اور مفکر ہونے کے باعث ڈینیس نے اس ترقیِ معکوس کا معروضی تجزیہ کیا اوراپنے تجربات کو ایک دلچسپ اور پر مغز مضمون”Regrets on Parting with My Old Dressing Gown”. میں پیش کیا۔ بعد ازاں 1988میں کینیڈین ماہرِ عمرانیات میک کیراکین نے اِن تجربات کی روشنی میں صارفیت سے متعلق ایک نظریہ پیش کیاجسے ڈینیس ڈِیڈاراو کے نام پرDiderot Effectکہا جاتا ہے۔جولیٹ شورنے بھی اپنی مقبول کتاب The Overspent American :Why we want what we dont Needاور اپنے مضمون Learning Diderots Lessons2005) میں اس اصطلاح و نظریہ کے متعلق گفتگو کی ہے۔دراصل ڈینیس کے ساتھ جو ہوا وہ بڑا دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ جب وہ اس قیمتی وخوبصورت گاون میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تواسے احساس ہوا کہ یہاں کی عام اور سادہ چیزیں اِس قیمتی لبادے سے قطعی میل نہیں کھاتیں۔ان میں اور اس خوبصورت گاون میں نہ تو کوئی ہم آہنگی ہے نہ کوئی میل اور نہ ہی کوئی مشترکہ بات ہے۔ لہذا اس نے سب سے پہلے قیمتی گاوں پہن کر بیٹھنے کے لیے سادہ کرسی کی جگہ چمڑے کی گدوں والی نئی کرسی خریدلی، پھر کرسی سے میچ کرتا ٹیبل لے آیا، نئے ٹیبل پر پرانا قلمدان چچ نہیں رہا تھا، اسے ہٹا کر نیا قلم دان خریدا۔ اِن نئی چیزوں کے درمیان پرانا بک کیس بھدا لگ رہا تھا تو نیا خرید لیا۔ نئی کرسی و ٹیبل کی مناسبت سے پرانی قالین کی جگہ دمشق کی خوبصورت قالین بچھا دی، اتنے خوبصورت کمرے میں اچھی گھڑی اور گلدان تو ہونا ہی چاہیے تھے ۔ وہ بھی خرید لیے۔ اِس طرح ہر نئی چیز سے متعلقہ مزید نئی چیزیں خریدنے کا ایک چکر شروع ہوگیاجس نے اسے پھر سے بدحال و مقروض بنا دیا۔دانشور ہونے کے باعث اسے جلد ہی اپنی حماقت کا احساس ہو گیا۔اسے محسوس ہوا کہ میرا پرانا گاون بھی کافی اچھا تھا، دیگر اشیاء بھی آرام دہ اور کارآمد تھیں،بدلنا ناگزیر نہ تھا،لیکن ایک نئی قیمتی چیز آجانے سے وہ فرسودہ لگنے لگیں۔لہذا کسی کو بھی اِس احمقانہ رویہ کا شکار ہو کر اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں مارنی چاہیے ۔ ڈیڈاراو ایفیکٹ یہ ظاہر کرتا ہے کسی نئی چیز کے حاصل ہو جانے سے اس سے متعلق دیگر چیزیں خریدنے کا ایک سلسلہ (Spiral Consumption) شروع ہو جاتا ہے۔ہم ان چیزوں کو بھی خریدنے لگتے ہیں جو نہ تو پہلے ہمیں ضروری لگتی تھیں اور نہ ہی ہمارے اطمینان اور مسرت کےلیے لازمی ۔مثلاً اگر آپ ایک ڈریس خریدتے ہو تو فوراً اس سے میچ کرتی جوتی، چوڑیاں، اسکارف یابیلٹ خریدنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہو۔اگرچہ کہ آپ کے پاس پہلے سے ہی کئی آرام دہ جوتیاں اور خوبصورت چوڑیوں کے سیٹ موجود ہوتے ہیں۔انسانی فطرت ہمیشہ زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی ہوتی ہے۔ ہم کبھی چیزوں کو سادہ کرنے اور کم کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ہمارا رجحان ہمیشہ اکٹھا کرنے، اضافہ کرنے اور اَپ گریڈ کرنے کی طرف مائل رہتا ہے۔ڈیڈاراو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ جب آپ کوئی چیز خریدیں تو وہ اسی معیار کی ہونا چاہیے جس معیار کی دیگر چیزیں آپ کے مکان میں ہیں۔ اپنی موجودہ حیثیت سے بڑھ کر کوئی ایک چیز خریدنا آپ کو نادیدہ جال میں جکڑ سکتا ہے ۔ عظیم بیگ چغتائی کی ایک دلچسپ کہانی میں بادشاہ اپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو جاتا ہے مگر ظاہر نہیں کرتااور چند دنوں بعد اسے ایک ہاتھی تحفتاً عطا کردیتا ہے۔ابتدا میں نہایت خوش ہونے والے مصاحب کی مہینہ بھر میں ہی جو حالت ہوتی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی برتاو کی نفسیات کے ماہر اور مشہور مصنف جیمس کلیر بھی کہتے ہیں کہ اپنی حدود طے کریں اور سختی سے اپنی حدود کے اندر رہیں۔ورنہ وہ دن یا وہ مرحلہ کبھی نہیں
آئے گا جب آپ کو محسوس ہو کہ اب مزید کچھ خریدنے یا حاصل کرنے کی حاجت نہیں رہی ہے۔ کیونکہ اگر آپ کے پاس ماروتی کار ہے تو آپ ہونڈا سے اپ گریڈ ہونا چاہیں گے۔ یہی حال دیگر چیزوں کا ہے۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے اور ترقی کرنے کے لیے بازار میں آئی نئی چیزوں اور پرانی چیزوں کے اپ گریڈ ورژن کا حاصل ہونا لازمی ہے۔ یہ ایک بھرم ہے جو سرمایہ دار اشتہارات کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا ایسے کامیاب لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے محدود وسائل کو دشواری نہیں سمجھا۔ جیسے گیم آف تھارن سیریز کے مشہور مصنف جارج مارٹن، جن کی کتاب کی ۲۵ ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں، آج بھی کمپیوٹر کے نہایت پرانے ورڈاسٹارپروگرام ورژن میں لکھتے ہیں اور کوئی دشواری محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سُوز نے صرف پچاس الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مشہور کتاب Green Eggs and Ham لکھی جس کی ۲۰۰ ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ چیزوں کا سادہ پرانا یا کم ہونا کوئی رکاوٹ یا مجبوری نہیں ہو سکتی۔جیمس کلیر کے مطابق ہم تصور کرتے ہیں کہ اگر ہمیں بہتر زندگی گزارنا ہے تو ہمیں زیادہ سے زیادہ چاہیے۔ زیادہ مواقع، زیادہ دولت، زیادہ چیزیں۔ سرمایہ دارانہ سماج اپنے مفادات کےلیے اشتہارات اور ماڈلنگ کے ذریعے اِس غلط فہمی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ جب کہ پرسکون اور کامیاب زندگی سادگی اور حدود میں ہے نہ کہ زیادہ سے زیادہ کی ہوڑ میں؟ بیجا خریداری کا ایک سماجی اور نفسیاتی پہلو بھی ہوتا ہے۔ کیا آپ ہمیشہ صرف وہی چیزیں خریدتے ہیں جن کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے؟ جواب نفی میں ہوگا۔دراصل اکثر ہم ایسی چیزیں خریدتے ہیں جو لوگوں میں وہ امیج قائم کر سکے جو ہم اپنے بارے میں بنانا چاہتے ہیں یا اس تصور کو باقی رکھے جو ہم اپنے بارے میںمحسوس کرتے اور کرواتے ہیں۔فیشن کی چیزیں تو کبھی ان کے Functional use کے لیے نہیں خریدی جاتی ہیں۔جیسے کپڑے کا بنیادی مقصد جسم کی حفاظت اور ڈھانکنا ہے لیکن کئی اچھے لباس موجود ہونے کے باوجود ہم بالکل نئے فیشن کا لباس خود کو ماڈرن ثابت کرنے یا اپنی امارت کا اظہار کرنے کےلیے کرتے ہیں۔لیکن اشیاء کبھی آپ کا تعارف نہیں ہو سکتی ہیں۔(اگرچہ کہ صنعت کار اور تاجر آپ کو اس کا قائل کرنے سر توڑ کوشش کرتے رہتے ہیں)۔جوشوا بیکر کے الفاظ میں” Your possessions do not define you or your success. ” لہذا لوگوں کو اپنے سامان یا چیزوں سے متاثر کرنے کی کوشش بند کریں اور انہیں اپنی زندگی اور شخصیت سے متاثر کرنا شروع کریں۔لوگوں کو متاثر کرنے استعداد اور ضرورت سے زیادہ قیمتی، بہتر اور زیادہ تعداد میں خریداری کرنے کا رویہ(جسے نارویجین امریکی ماہر معاشیات تورستایئن ویبلن نے conspicuous consumptionکا نام دیا ہے) دراصل احساس کمتری کی علامت ہوتا ہے۔یہ بھی اتنا یہ ضروری ہے کہ قناعت اور کنجوسی میں فرق کریں۔ اگر آپ کی موجودہ معاشی حیثیت بڑھ گئی ہے تو اس کی مناسبت سے ضرور کچھ نیاپن لے آئیے لیکن یہاں بھی اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق ایک حد مقرر کریں اور سختی سے اس کے اندر ہی رہیں ورنہ آپ کو پھر سے پہلی والی حالت پر جانے میں دیر نہیں لگے گی اور لوگ کہہ اٹھیں گے کہ ’’ پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔شوقیہ یا سماجی حیثیت کے دکھاوے کے لیے بیجا خریداری کرتے رہنا ایک ایسا گڑھا ہے جسے ہم خود اپنے لیے کھودتے ہیں، ایسا خوبصورت اور چمکیلا جال ہوتا ہے جو ہم خود بنتے ہیں اور خود ہی اس میں پھنس جاتے ہیں۔سماجی شعور کے فقدان کے باعث آج غریب اور صاحب ثروت دونوں اس جال میں الجھتے جا رہے ہیں۔ موجودہ نا گفتہ بہ حالات کے گرداب سے نکلنے کے لیے اس سے بچنا اوراسے سمجھنا ناگزیر ہے۔ ورنہ کچھ عرصے بعد یہی سننا پڑے گا کہ
الجھا ہے پاوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آج اپنے دام میں صیاد آگیا
***

 

***

 قناعت اور کنجوسی میں فرق کریں۔ اگر آپ کی موجودہ معاشی حیثیت بڑھ گئی ہے تو اس کی مناسبت سے ضرور کچھ نیاپن لے آئیے لیکن یہاں بھی اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق ایک حد مقرر کریں اور سختی سے اس کے اندر ہی رہیں ورنہ آپ کو پھر سے پہلی والی حالت پر جانے میں دیر نہیں لگے گی اور لوگ کہہ اٹھیں گے کہ ’’ پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022