طلبہ میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش ناک
تعلیمی اداروں کی توجہ صرف کمائی کی طرف۔ کمزور طلبہ کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی میکانزم نہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
پوری دنیا میں خودکشی کے 37 فیصد معاملات صرف بھارت میں ہو رہے ہیں۔ زندگی سے مایوسی ختم کرنے کے لیے مسئلہ کی جڑ تک پہنچا جائے
کوٹہ میں کم عمر بچوں کی خودکشی نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ وہ کوٹہ جہاں طلبا بڑے خواب سجائے بڑی تعداد میں انجینئرنگ اور میڈیکل کے مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لیے جاتے ہیں۔ چندریان-3 کی کامیابی اور جی-20 سمٹ کے انعقاد کے دوران کوٹہ سے طلبا کے خودکشیوں کی خبر آئی۔ ویسے کوٹہ خودکشی کے معاملے میں پہلے سے مشہور ہے۔ محض ایک دہائی میں 100 سے زائد طلبا نے اپنے آپ کو ہلاک کیا اور اسی سال 23 بچوں نے خودکشی کی ہے۔ کوٹہ راجستھان کا چھوٹا سا شہر ہے جہاں ایک لاکھ بچے کوچنگ انسٹیٹیوٹس میں مسابقتی امتحان کی تیاری کے لیے آتے ہیں مگر خودکشی کی شرح بہت ہی گمبھیر اور دل دہلا دینے والی ہے۔ 15 سے 30 سال کے افراد کے اندر خودکشی کی شرح دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ اس عمر کے نوجوانوں کے درمیان موت کی چوتھی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (NCRB) کے مطابق 2020ء میں یومیہ 34 طلبا نے اپنی جان لی ہے۔ اسی سال 11 ہزار 396 بچوں نے جو 18 سال سے کم عمر کے تھے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا ہے۔ 2021ء میں ملک بھر میں ایک لاکھ 64 ہزار لوگوں نے خودکشی کی۔ کوٹہ کی کوچنگ صنعت 12000 کروڑ روپے مالیت کی ہے جو طلبا کے فلاح کی فکر نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد محض یہی ہوتا ہے کہ اچھے ریزلٹ کا قومی اخباروں میں بڑا اشتہار دے کر ہزاروں طلبا اور ان کے سرپرستوں کو اپنی طرف راغب کریں۔ کچھ بچے تو بہت اچھے ہوتے ہیں وہ ریگولر کلاس میں حاضر ہوتے رہیں۔ محنت اور لگن سے پڑھتے ہیں اور اچھا ریزلٹ لاتے ہیں۔ ان کا ہفتہ واری نتیجہ ان کے گھر والوں کو برابر جاتا ہے۔ مگر اس دوڑ میں جو بچے پیچھے رہ جاتے ہیں انہیں آگے لانے کا ان کے پاس کوئی مناسب میکانزم نہیں ہے۔ ان بچوں کو پریشانیوں میں سہارا دینے والا کوئی نہیں ہوتا اور وہ ذہنی تناو کا شکار ہوکر اندر ہی اندر اپنی جان گھلاتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر ناکامی کے ساتھ احساس کمتری بڑھنے لگتی ہے اور واپسی کے تمام راستے مسدود سمجھ کر ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ کورونا وبا نے بڑے پیمانے پر دماغی خلل کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ہمارے کووڈ-19 کے بجٹ میں قومی ذہنی ہیلتھ پروگرام (National Mental Health Programme) کے لیے 40 کروڑ روپے مختص کیے جاتے تھے جسے 2023-24 میں بڑھا کر 134 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ سب سے بہتر پہل راجستھان حکومت نے کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ خودکشی کے بارے میں تفتیش کرکے اس کا بہتر حل نکالے گی، وہ یہ کہ بچوں، ان کے اساتذہ و والدین کے ساتھ اداروں کے پالیسی سازوں اور اکسپرٹس کو مل کر طبا کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کے ساتھ ان کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرتی رہے گی۔ ایک با شعور انسان کی حیثیت سے ہم بھی اس مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں۔ ہمیں بچوں کا ہمراز اور ہمسفر بن کر رہنا ہوگا اور ان کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھنا پڑے گا۔
جب جب بڑے لوگ اور Celebrity خودکشی کرتے ہیں تو وہ خبر قومی اخباروں میں شاہ سرخیوں میں چھپتی ہے اور جب کسان خود کشی کرتے ہیں تو اس سے سیاسی گھمسان برپا ہو جاتا ہے مگر طلبا اور نوجوانوں کی خودکشی سے قومی ضمیر میں اس طرح کا بھونچال پیدا نہیں ہوتا۔ کوٹہ سے خصوصاً اور ملک کے دیگر حصوں سے عموماً وقفہ وقفہ سے طلبا کی خودکشی کی خبریں آتی ہیں مگر امسال یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ 2022ء میں 15 طلبا نے خودکشی کی تھی۔ اب لوگ اس پر تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے کچھ اقدام بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ کثیر منزلہ ہاسٹلوں میں پنکھے، اسپرنگ سے لٹکائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہاسٹلس کی لابی یا بالکونی جیسی خالی جگہوں کے اوپر جالی لگانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کوچنگ میں دو ماہ تک ٹیسٹس لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے تاکہ طلبا پر سے تناو کا خاتمہ ہو۔ اسی درمیان نائب صدر جمہوریہ نے کوٹہ کا دورہ کیا اور طلبا کو مفید مشورہ سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ ناکامی سے نہ گھبرانا چاہیے اور نہ ہی ڈرنا چاہیے۔ ناکامی تو کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ انہوں نے طلبا کو چندریان-2 کی مثال دی جو خلا میں 2019ء میں بھیجا گیا تھا اور ناکام رہا مگر سائنس دانوں نے اپنا حوصلہ نہیں چھوڑا۔ مسلسل اس مشن پر کام کرتے ہوئے چندریان-3 کو چاند پر بھیجا جس کے بعد دنیا میں بھارت کا ڈنکا بجنے لگا۔ کوئی کوشش اپنے ہدف تک نہیں پہنچی تو لوگ سمجھ لیتے ہیں وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ مسٹر دھنکر نے اپنے کرئیر کے انتخاب میں بھی اپنی دلچسپی اور اپنی صلاحیت کو بہت سوچ سمجھ کر صرف کرنے کی نصیحت کی ہے۔ اگرچہ یہ باتیں نئی نہیں ہیں پھر بھی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔کرئیر کی دوڑ دھوپ میں طلبا کی ذہنی قوت مضبوط سے مضبوط تر رہے اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ طلبا کو یاد رکھنا ہوگا:
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
خودکشی کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے 10 ستمبر کو عالمی خودکشی روک تھام دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے اور یہی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر چند لوگ اپنی زندگی سے اس طرح تنگ آجاتے ہیں کہ خود کو ہی ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ اسلام میں اسے بدترین موت کہا گیا ہے۔ ایسے معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی غصہ میں خودکشی کر بیٹھتا ہے، کوئی زندگی سے اکتا کر اور سوچ سمجھ کر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ذہنی توازن کو قبل از وقت سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہے۔ ایسی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں مریض کو ماہر نفسیات اور تھراپسٹ کی مدد سے اس حالت سے باہر لایا جاسکتا ہے اور موت سے بچایا جاسکتا ہے۔ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے قبل از وقت ان کی شناخت کی جاسکتی ہے مثلا (1) ایسے بچے گھر سے باہر نکلنا بند کر دیتے ہیں اور کنبوں کے افراد اور معاشرہ سے کٹے کٹے رہتے ہیں (2) خورد و نوش کی عادتوں میں تبدیلیاں واقع ہونے لگتی ہیں۔ (3) ایسے بچوں میں نا امیدی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ہر شئے سے دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔ (4) ان کے اندر بار بار خودکشی کرنے کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق آپ کا جسم اس طرح ردعمل کا اظہار کرتا ہے جیسی آپ کی سوچ ہوتی ہے۔ اس سے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے کہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔ زندگی خوشی و غم کا مرکب ہے۔ مخالف حالات میں بھی خود اعتمادی کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑیں۔ ’’بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ (قرآن) دھوکہ، ناکامی، مالی پریشانی اور رشتوں میں دراڑ ایسی چیز نہیں کہ آدمی زندگی سے ہی منہ موڑلے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ یہی دراصل انسانیت کی شناخت ہے۔ اپنا دھیان مشکلات کی بجائے حل کی طرف مرکوز رکھیں۔ اس لیے ایسی کتابیں پڑھیں یا ایسے پروگرام دیکھیں جو حوصلہ بڑھاتے ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ڈسپلن پیدا کریں۔
واضح رہے کہ دور جدید میں سائنس و ٹکنالوجی میں بے تحاشا ترقی سے سہولیات، آسانیاں اور معاشی خوشحالی خوب خوب آئی ہے مگر خدا بے زار سماج میں لوگوں کی اپنی زندگی میں کشش کم سے کم ہو رہی ہے۔ کسی فرد کے اقدام خودکشی کے پس پشت کچھ نہ کچھ وجہ ضرور ہوتی ہے۔ یہ ایک سماجی اور نفسیاتی مسئلہ ہے ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں خودکشی کے 37 فیصد معاملات بھارت میں ہو رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں مثبت سوچ اور عمل کے ساتھ مثبت کوششیں بھی کرنی ہوں گی تاکہ خودکشی کے بڑھتے معاملوں پر قدغن لگا سکیں ۔
***
دھوکہ، ناکامی، مالی پریشانی اور رشتوں میں دراڑ ایسی چیز نہیں کہ آدمی زندگی سے ہی منہ موڑلے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ یہی دراصل انسانیت کی شناخت ہے۔ اپنا دھیان مشکلات کی بجائے حل کی طرف مرکوز رکھیں۔ اس لیے ایسی کتابیں پڑھیں یا ایسے پروگرام دیکھیں جو حوصلہ بڑھاتے ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ڈسپلن پیدا کریں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023