تریپورہ مسلم مخالف تشدد: مسلم رہنماؤں نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا، پولیس پر بھی وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا
نئی دہلی، نومبر 6: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) نے تریپورہ میں ہوئے مسلم مخالف تشدد کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں ’’تریپورہ پولیس کے کردار کی بھی جانچ کی جائے۔‘‘
اے آئی ایم ایم ایم کو ملک میں مسلم تنظیموں کا ایک اعلیٰ ادارہ سمجھا جاتا ہے۔
اس نے تریپورہ حکومت سے کہا کہ وہ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے والی فیکٹ فائنڈنگ ٹیموں اور صحافیوں کو ہراساں کرنا بند کرے جو اپنی تنظیموں کے لیے تشدد کی کوریج کے لیے ریاست کا دورہ کرتے ہیں۔
یہ مطالبہ تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب کو 5 نومبر 2021 کو بھیجے گئے ایک خط میں کیا گیا ہے۔
اے آئی ایم ایم ایم کے صدر نوید حامد کے علاوہ اس خط پر جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر، جمعیت اہلحدیث (جے اے ایچ) کے سکریٹری محمد شیث تیمی اور آل انڈیا ملی کونسل (اے آئی ایم سی) کے نمائندہ شمس تبریز قاسمی کے دستخط ہیں۔
خط میں نشان دہی کی گئی ہے کہ پورے مسلم مخالف تشدد میں پولیس کے کردار کی تحقیقات بھی ضروری ہے جو ’’ان لوگوں کے مستقبل کے ایجنڈے کو ناکام بنا سکتی ہیں جو تریپورہ تشدد میں سب سے آگے تھے۔‘‘
اس نے ریاستی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ ’’حقائق تلاش کرنے والی ٹیموں کے ارکان اور صحافیوں کو ہراساں کرنا فوری طور پر بند کرے۔‘‘
ریاستی پولیس نے دہشت گردی کو روکنے کے لیے بنائے گئے مرکزی انسداد دہشت گردی قانون UAPA کی دفعہ 13 کے تحت دہلی کے دو وکلاء کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند کی کئی دفعات کے تحت الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ تریپورہ پولیس نے یو اے پی اے کے تحت 101 سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے ’’جعلی‘‘ خبریں پھیلانے کے الزام میں بھی مقدمات درج کیے ہیں۔
دونوں وکیل مکیش، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے رکن، اور انصار اندوری، سکریٹری نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے۔ ٹیم نے 30 اکتوبر اور 1 نومبر کو دو دن کے لیے تریپورہ کا دورہ کیا تھا اور تشدد کے بارے میں حقائق جمع کیے تھے۔ انھوں نے واپسی پر دہلی میں میڈیا والوں سے بھی خطاب کیا۔ دونوں وکیلوں کو 10 نومبر کو تریپورہ ویسٹ پولیس کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔
تریپورہ پولیس نے 3 نومبر کو نیوز پورٹل انڈیا ٹومورو (indiatomorrow.net) کے ساتھ کام کرنے والے مسیح الزماں انصاری کو بھی حراست میں لیا اور پوچھ گچھ کی۔ انصاری کو حراست میں لیے جانے کی خبر عام ہونے کے انھیں دو گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔
خط میں ریاستی پولیس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مجرموں کے ساتھ کھلی ملی بھگت میں ملوث ہے۔
خط کے مطابق پولیس کی مبینہ ملی بھگت کے نتیجے میں ’’پانیساگر، شمالی تریپورہ میں مسلمانوں کی آٹھ دکانوں کو آگ لگا دی گئی اور لوٹ مار کی گئی، جہاں پولیس نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کے جلوس کو آگے بڑھنے دیا جس کے لیے کوئی اجازت پولیس کی طرف سے نہیں دی گئی تھی۔‘‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’’ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ جلوس کے شرکاء نے اسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بھی اشتعال انگیز نعرے لگائے۔‘‘
خط پر دستخط کرنے والوں نے نشان دہی کی کہ ہر فساد زدہ علاقے میں ’’وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے غنڈوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے علاوہ مقامی پولیس کی دھمکیوں نے خوف اور دہشت کا ایک جیسا ماحول بنایا ہے۔‘‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’’تشدد پر قابو پانے کے لیے نہ صرف سیکورٹی اپریٹس کی طرف سے ردعمل کی کمی کی خبریں ہیں بلکہ ریاستی پولیس کی مجرموں کے ساتھ کھلی ملی بھگت کی بھی رپورٹس ہیں۔‘‘
خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تریپورہ کے مختلف حصوں میں کل 16 مساجد پر حملے کیے گئے جن میں ریاست کے دارالحکومت اگرتلہ میں دو مساجد شامل ہیں، جن میں سے چار کو مکمل طور پر جلا دیا گیا، اور قرآن پاک کے نسخوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انھیں بھی جلایا گیا اور تباہ شدہ مساجد میں شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔
اس کے علاوہ یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ پولس نے اشتعال انگیز جلوس کے منتظمین کو گرفتار نہیں کیا جو پانیساگر میں دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے علاوہ آتش زنی، لوٹ مار اور اشتعال انگیزی میں بھی ملوث تھے۔
یہ بتاتے ہوئے کہ تریپورہ تشدد نے عالمی سطح پر ملک کی شبیہ کو داغدار کیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ مسلم مخالف تشدد نے ’’یہ پیغام دیا ہے کہ ریاستی انتظامیہ تشدد کے مرتکب افراد کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔‘‘
پورا خط یہ ہے: