پی یو سی ایل نے مسلم مخالف تشدد کو اجاگر کرنے والے وکلاء کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے پر تریپورہ پولیس پر تنقید کی

نئی دہلی، نومبر 6: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے جمعہ کو تریپورہ پولیس پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت ان وکلاء کے خلاف مقدمے درج کرنے پر تنقید کی جو ریاست میں حالیہ مسلم مخالف تشدد کے بارے میں حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔

پولیس نے یہ مقدمہ دہلی میں مقیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے وکیل مکیش کمار اور نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس کے انصار اندوری کے خلاف درج کیا ہے۔ ان کے خلاف UAPA کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جو بدامنی، جعلسازی، جان بوجھ کر توہین اور مجرمانہ سازش کو فروغ دینے سے متعلق ہے۔

سیکشن 13 غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لینے یا اکسانے سے متعلق ہے جیسا کہ ایکٹ کے تحت بیان کیا گیا ہے۔

پی یو سی ایل نے الزام لگایا کہ پولیس نے مقدمہ صرف اس لیے درج کیا کیوں کہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ میں ’’وی ایچ پی [وشوا ہندو پریشد] اور ایچ جے ایم [ہندو جاگرن منچ] جیسے ہندو اکثریتی گروپوں کی طرف سے اقلیتی مسلمانوں کے خلاف چھیڑ چھاڑ اور تریپورہ پولس کی ملی بھگت اور شعوری طور پر اپنے فرائض سے دستبرداری کو نمایاں کیا گیا تھا۔‘‘

پی یو سی ایل نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے 1917 میں فیکٹ فائنڈنگ کی مشق شروع کی تھی اور وکلاء ان کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ تنظیم نے کہا کہ ’’وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ایک دستاویز تیار کر رہے ہیں جو متاثرین کے نقطہ نظر کی کہانی بیان کرے گا۔‘‘

بدھ کو پولس نے کمار اور اندوری کو یو اے پی اے کے تحت نوٹس بھی جاری کیا اور انھیں 10 نومبر کو پوچھ گچھ کے لیے پولیس کے سامنے حاضر ہونے کو کہا۔

کمار نے دی وائر کو بتایا کہ نوٹس ’’بالکل چونکا دینے والے‘‘ تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہوا ہے، ہم نے اپنی رپورٹ میں نشان دہی کی ہے کہ ایک معاشرہ جو امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہا تھا اس قدر غیر مستحکم کیسے ہو گیا ہے۔ حقیقت میں ہم نے کچھ افسران اور انتظامیہ کو کچھ معاملات کو اچھی طرح سے سنبھالنے کا سہرا بھی دیا تھا۔‘‘

کمار نے مزید کہا کہ ان کے تمام تبصرے عوامی ڈومین میں تھے اور اس میں کوئی سازش شامل نہیں تھی۔

معلوم ہو کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ ہندوؤں پر حملوں کے بعد وشو ہندو پریشد نے 26 اکتوبر کو تریپورہ میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا تھا، جس کے نتیجے میں تشدد اور مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے ہوئے۔

سپریم کورٹ کے وکلاء احتشام ہاشمی اور امت سریواستو کی مشترکہ تصنیف کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد ’’انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی غیر ذمہ داری اور مہتواکانشی سیاستدانوں کے مفادات‘‘ کی وجہ سے شروع ہوا۔

رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ تشدد پھوٹنے سے چار دن پہلے جمعیت علما (ہند) کی ریاستی اکائی نے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب کو خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ’’اس کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کرنا اس تشدد کی سرپرستی کرنے کے مترادف ہے۔‘‘