وطنِ عزیز کے قومی پرچم کا ڈیزائن کس نے تیار کیا؟

ترنگے کی تیاری پر ہفت روزہ ’’دعوت‘‘ کی خصوصی رپورٹ

افروز عالم ساحل

قومی پرچم ترنگے کی تاریخ کے بارے میں ہمیشہ سے بحث رہی ہے کہ اس پرچم کو کس نے ڈیزائن کیا؟ کچھ لوگ پنگالی وینکیّئا کا نام لیتے ہیں تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ترنگا جھنڈے کے موجودہ ڈیزائن کو تیار کرنے کا کام بدرالدین طیب جی (آئی سی ایس) کی اہلیہ ثریا طیب جی نے کیا تھا۔ لیکن اصل میں تاریخ اس متعلق کیا کہتی ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی خاطر ہفت روزہ دعوت نے تاریخ کے صفحات کو پلٹا تو یہ معاملہ کافی پیچیدہ نظر آیا۔

حکومت ہند کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے

نیشنل آرکائیو آف انڈیا کے دستاویزوں کو کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے قومی پرچم کی تاریخ کے بارے میں آزادی کے ساتھ ہی سوال اٹھتے رہے ہیں، لیکن صحیح جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو سوال آج ہمارے ذہن میں ہے، بالکل ٹھیک وہی سوال ملک کو آزادی ملنے کے فوراً بعد بوائز اسکاؤٹ ایسوسی ایشن (انڈیا) کے سامنے بھی آیا تھا اور انہوں نے اس کے متعلق حکومت ہند سے سوال بھی کیا تھا۔

یکم ستمبر 1948 کو بوائز اسکاؤٹ ایسوسی ایشن (انڈیا) نے حکومت ہند کے ہوم سکریٹری کو ایک خط لکھ کر کہا کہ ’ہمارے لڑکوں کو ہمارے قومی پرچم کی تاریخ کو ابتدائی تاریخ سے ہی جاننے کی ضرورت ہے لیکن ایسی کوئی تصدیق شدہ تاریخ دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں اس کے متعلق تاریخ بتائیں جو ہمارے لڑکوں کو پڑھائی جاسکے۔‘

ایسوسی ایشن کی اس گزارش کے جواب میں حکومت ہند کی وزارت داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ میں قومی پرچم کی تصدیق شدہ کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے۔ پرائم منسٹر سکریٹریٹ شاید اس بارے میں کچھ بتا سکے۔ لیکن پرائم منسٹر سکریٹریٹ نے بتایا کہ اس کے متعلق ان کے پاس بھی کوئی معلومات نہیں ہے، اس بارے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، کونسٹیٹونٹ اسمبلی آف انڈیا سکریٹریٹ بھی اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں دے سکی۔ اس نے بھی بس اتنا ہی بتایا کہ 22 جولائی 1947 کی میٹنگ میں کمیٹی نے اس ڈیزائن کو طے کیا تھا۔اس جانکاری کے مطابق اس کمیٹی میں 13 لوگ شامل تھے جن میں ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، سی گوپالاچاری، سروجنی نائیڈو، کے ایم منشی، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، فرانک انتھونی، پنڈت ہیرالال شاستری، بی۔ پٹابھی سیتارامیہ، سردار بالدیب سنگھ، کے ایم پنیکر، ستیہ نارائن سنہا اور ایس این گپتا کے نام شامل ہیں۔

راقم الحروف نے کونسٹیٹونٹ اسمبلی آف انڈیا کے پوری بحث کو بھی پڑھاجس میں حصہ لینے والوں میں جواہرلال نہرو کے ساتھ ساتھ چودھری خلیق الزماں، محمد شریف، سید سعداللہ اور تجمل حسین بھی شامل تھے۔ لیکن اس پوری بحث میں اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ قومی پرچم کو ڈیزائن کس نے کیا۔

گجرات میں سورت کے سنٹر فار سوشل اسٹڈیز کے اسوسی ایٹ پروفیسر و مورخ سدن جھا نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ میرے پورے ریسرچ کے دوران کسی کا نام سامنے نہیں آیا۔ اس لیے میں بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ 1946 میں قومی پرچم کا ڈیزائن کس نے تیار کیا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی نہرو کے قریب ہو، نہرو نے انہیں بنانے کے لیے بول دیا ہو۔ سدن جھا نے جھنڈوں کی سیاست پر ریسرچ کیا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ان کی کتاب Reverence, Resistance and the Politics of Seeing the Indian National Flag کافی مشہور ہے۔

لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ حکومت ہند یا ہندوستانی مورخوں کے پاس خود کے قومی پرچم کی تاریخ بھلے ہی موجود نہ ہو، ایڈن برگ میں رہنے والے جنگ اور سلطنت کے مورخ کی حیثیت سے دنیا بھر میں مشہور ٹریور رائل (Trevor Royle) کے مطابق ہندوستان میں اس وقت جس جھنڈے کی پرچم کشائی کی جاتی ہے اس کا ڈیزائن بدرالدین طیب جی نے کیا تھا۔ ٹریور رائل نے یہ بات اپنی کتاب ’دی لاسٹ ڈیز آف راج‘ میں لکھا ہے۔ ان کی یہ کتاب 1989 میں شائع ہوئی تھی۔ ٹریور رائل کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔

واضح رہے کہ بدرالدین طیب جی کے دادا کا نام بھی بدرالدین طیب جی ہی تھا۔ دادا بدرالدین طیب جی بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کرنے والے پہلے ہندوستانی بیرسٹر اور پھر چیف جسٹس بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ انہوں نے 1867 میں بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کی بطور بیرسٹر شروعات کی اور 1902 میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی تاسیس میں اے او ہیوم، ڈبلیو سی بنرجی اور دادا بھائی نوروجی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ گاندھی جی انہیں کانگریس کی تاسیس کا محرک مانتے تھے۔

وہیں والد جسٹس فیض طیب جی مدراس اور بمبئی کی عدلیہ پر فائز رہے۔ ان کو اسلامی قانون میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ وہیں والدہ سلیمہ نے بھی سماجی کارکن، ماہر تعلیم اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے امتیاز حاصل کیا۔ 1937 میں بمبئی کی مجلس قانون ساز کے لیے چنی گئیں۔ ثریا طیب جی ان کی اہلیہ تھیں۔ وہ خود ایک انڈین سول سروس آفیسر تھے۔ بعد میں 1962 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ اس کے بعد جاپان میں ہندوستانی سفیر بنے۔ جواہرلال نہرو کے خاص دوستوں میں سے تھے اور ان سے کافی گہرے مراسم تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ بدرالدین طیب جی نے ہی قومی پرچم کے ڈیزائن کو بنایا تھا اور اس میں اشوک کے دھرم چکر کو بیچ میں رکھا تھا۔ بعد ازاں ان کی بیگم ثریہ طیب جی نے اس کی پہلی کاپی تیار کی جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخی رات کو اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کار پر لہرایا گیا۔

کیا کہتی ہیں ثریا طیب جی کی بیٹی؟

ثریا طیب جی کی 73 سالہ بیٹی پدم شری لیلا طیب جی نے سال 2018 میں ’دی وائر‘ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد بدرالدین طیب جی نے نہرو کے ہدایت پر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی سربراہی میں فلیگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بدرالدین طیب جی اس وقت بطور آئی سی ایس آفیسر وزیر اعظم کے دفتر میں کام کر رہے تھے۔

لیلا طیب جی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے ہی نہرو کو اشوک کے چکر کا نہ صرف خیال دیا بلکہ والدہ نے جھنڈے کا تصویری نقشہ بھی کھینچا۔ اس مضمون میں لیلا طیب جی کے الفاظ کے مطابق میرے والد نے پہلی بار قومی پرچم کو دیکھا۔ اسے میری ماں کی نگرانی میں دہلی کے کناٹ پیلیس میں واقع ایڈی ٹیلرز اینڈ ڈریپرس سے سلوایا گیا تھا۔

قومی پرچم اور گاندھی

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جن دنوں 1920 میں ملک میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تھی انہی دنوں مدراس پریذیڈنسی (موجودہ آندھرا پردیش) کے مسولی پٹم کے پی وینکیّئا نے عوام کے سامنے ایک کتابچہ پیش کیا تھا۔ اس میں دوسری قوموں کے جھنڈوں کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے قومی پرچم کیلیے بھی نمونے پیش کیے گئے تھے۔ اسی زمانے میں خلافت کمیٹی نے بھی تحریک خلافت کے لیے اپنا جھنڈا تیار کیا۔ یہیں سے مہاتما گاندھی کے ذہن میں آیا کہ اپنے ملک کے لیے بھی ایک الگ جھنڈا ہونا چاہئے جو قوم کی روح کو جگا سکے۔

مہاتما گاندھی 13 اپریل 1921 کے ’ینگ انڈیا‘ میں لکھتے ہیں ’تمام ممالک کے لیے جھنڈا ضروری ہے۔ کروڑوں لوگوں نے اس کے لیے جان دی ہے۔ ’یونین جیک‘ کا لہرایا جانا انگریزوں کے دلوں میں ایک ایسا احساس جگاتا ہے، جس کی گہرائی کو ناپنا مشکل ہوگا۔ چاند تارا والا جھنڈا اسلام کی بہادری کی یاد دلاتا ہے۔‘

گاندھی اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں، ’تاہم، میں نے ہمیشہ مسٹر پی وینکیّئا کے اس جوش کی تعریف کی ہے جن کے ساتھ وہ گزشتہ چار سالوں سے کانگریس کے ہر اجلاس میں مسلسل قومی پرچم کے سوال کو اٹھاتے رہے ہیں۔ باوجود اس کے میرے دل میں ان کے خیالوں کے تئیں کوئی جوش و جذبہ بیدار نہیں ہوسکا۔ اور انہوں نے جو نمونے پیش کیے ہیں، ان میں مجھے ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا جو قوم کے جذبات کو جگا سکے۔

واضح رہے کہ جالندھر کے لالہ ہنسراج نے گاندھی جی کو یہ مشورہ دیا کہ چرخے کو ہمارے سوراجیہ کے جھنڈے میں جگہ ملنی چاہئے۔ گاندھی جی نے اس پر لکھا ’میں ان کی اس تجویز کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ میں نے بیزواڑہ میں پی وینکیّئا سے ایک ایسا نمونہ دینے کو کہا، جس میں سفید، ہرا اور سرخ رنگ کے پس منظر میں چرخا ہو۔ تینوں رنگوں کو برابر رکھا جائے۔‘

چرخا ہٹائے جانے سے خوش نہیں تھے گاندھی

22 جولائی 1947 کو جب قومی پرچم کی نئی شکل قبول کرلی گئی تو گاندھی جی بہت افسردہ نظر آئے۔ انہیں جھنڈے سے چرخے کو ہٹایا جانا پسند نہیں آیا گاندھی جی نے اسی دن اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں بتایا ’آج چار بہنیں مجھ کو اس بات کے لیے مبارکباد دینے آئی تھیں کہ ترنگا جھنڈا جس میں چرخا موجود ہے، اب پورے ہندوستان کا قومی جھنڈا بن گیا ہے۔ تو میں اس میں اپنے لیے کوئی مبارکبادی نہیں دیکھتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں چرخے کے مقام پر ایک چکر ہے۔ اگر وہ چکر چرخے کا ہی ہے تو، تب تو خیر ہے اور اگر نہیں تو مجھے اس کی کیا پڑی ہے؟ اگر انہوں نے چرخے کو پھینک دیا تو پھینک دیں، میرے دل میں اور میرے ہاتھوں میں تو وہ رہے گا ہی۔‘

27 جولائی 1947 کو نئی دہلی میں گاندھی جی نے کہا ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نیا دور آیا ہے نئے طور طریقوں کی شروعات ہوئی ہے اور اسی دور کے مطابق یہ جھنڈا بنایا گیا ہے لیکن ابھی تک میں نے ایسا سپوت نہیں دیکھا جسے اپنی ماں بد صورت لگی ہو۔ سونے پر پالش کرنا ممکن ہے، لیکن ماں کو اس طرح سندر کون بنا سکتا ہے؟ اس لیے میرے خیال سے اصلی جھنڈے میں کسی طرح کی تبدیلی نہ ہوئی ہوتی تو بھی ہم نے کچھ نہ کھویا ہوتا…‘ گاندھی جی کی یہ باتیں گجراتی کے ہریجن بندھو کے ایک مضمون میں شائع ہوئی تھی۔

3 اگست 1947 کو شائع ہونے والے گجراتی اخبار ہریجن بندھو میں گاندھی جی لکھتے ہیں – ’چکر کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے مہاراج اشوک کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ایک وہ ہی ایسے تھے جنہوں نے راجا ہو کر بھی اقتدار سے مکمل طور پر دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ اشوک کا چکر عدم تشدد کے قانون کی علامت ہے۔ ‘ 

گاندھی جی 6 اگست 1947 کو لاہور میں کانگریس کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ لکتے ہیں کہ ’آپ تو جانتے ہیں کہ بھارت کے قومی پرچم کا سب سے پہلے تصور میں نے کیا تھا اور میں بغیر چرخے کے نشان کے ہندوستان کے قومی پرچم کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یوں تو پنڈت نہرو اور دیگر لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ نئے قومی پرچم میں بنا چکر کا نشان چرخے کی بھی علامت ہے۔ کچھ لوگ چکر کے نشان کو سدرشن چکر بتاتے ہیں، مگر سدرشن چکر کیا مطلب ظاہر کرتا ہے، یہ میں جانتا ہوں۔

واضح رہے کہ 3 اگست کو ہی حیدرآباد کے ایک صاحب نے گاندھی جی کو ایک خط لکھا۔ یہ خط ہریجن سیوک کے 17 اگست 1947 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس خط میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ کے ایم منشی نے جھنڈے میں چکر کو سدرشن چکر بتایا ہے۔ اس پر گاندھی جی نے کہا تھا – ’اشوک کا چکر کسی بھی حالت میں تشدد کی علامت نہیں ہوسکتا۔ اشوک عدم تشدد کے پجاری تھے۔ سدرشن چکر کا جھنڈے کے چکر کے ساتھ تعلق نہیں ہوسکتا۔

آر ایس ایس اس قومی پرچم کے خلاف تھی

دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے اور نکڑ ناٹک تحریک کے سربراہ شمس الاسلام اپنی کتاب ’آر ایس ایس کو پہچانیں‘ میں ایم ایس گولوالکر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کی حیثیت سے 14 جولائی 1946 کو ’گرو پورنیما‘ کے موقع پر ناگپور کے ایک جلسے میں صاف طور پر کہا کہ ’صرف بھگوا جھنڈا ہی مجموعی طور پر عظیم ہندوستانی تہذیب کی علامت ہے۔‘ گولوالکر نے یہ بھی اعلان کیا کہ ’ہماری عظیم تہذیب کا مکمل تعارف دینے والی علامت ہمارا بھگوا جھنڈا ہے جو ہمارے لیے بھگوان کی طرح ہے۔۔۔‘

آزادی کے بعد جب ترنگا قومی پرچم بن گیا تب بھی آر ایس ایس نے اس کو اپنانے سے صاف انکار کیا۔ گولوالکر نے قومی جھنڈے کے موضوع پر اپنے مضمون ’پتن ہی پتن‘ میں لکھا: ’ہمارے لیڈروں نے ہمارے ملک کےلیے ایک نیا جھنڈا تجویز کیا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تباہی کی طرف بہنے اور نقلچی پن کا واضح ثبوت ہے۔‘

یہی نہیں آر ایس ایس نے 14 اگست 1947 کو اپنے انگریزی ترجمان اخبار ’آرگنائزر‘ میں قومی پرچم پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’جو لوگ قسمت کی چال سے حکمراں بن بیٹھے ہیں وہ بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگے کو تھما دیں، لیکن ہندو اسے نہ کبھی اپنائیں گے اور نہ کبھی اس کی عزت کریں گے۔۔۔‘

گاندھی نے مندروں پر ترنگا لہرانے سے منع کیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کے وقت جو ہندتوا وادی قومی پرچم کی مخالفت کر رہے تھے انہوں نے آزادی کے پہلے ملک میں ہندو مسلمان فساد کرانے میں چرخا بنا ہوا قومی پرچم کا ہی استعمال کیا۔ یہ بالکل ٹھیک ویسے ہی تھا جیسے آج ترنگے کے نام پر ملک کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔

مہاتما گاندھی قومی پرچم کے مندروں میں یا مذہبی استعمال کے سخت خلاف تھے۔ گاندھی نے اپنی زندگی میں کئی ایسے مضامین اور خطوط لکھے جس میں ہندتوا وادی نیتاؤں کو قومی پرچم کے غلط استعمال کے لیے پھٹکار لگائی گئی۔

گاندھی جی نے 29 مئی 1941 کو ریاست میسور کے شموگا کے ہندو مہاسبھا کے وزیر کو ایک خط میں لکھا۔ ’میں جانتا ہوں کہ گنپتی اتسو کے جلوسوں میں قومی جھنڈے کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مندروں پر قومی پرچم لہرایا جارہا ہے، یہ غلط ہے۔ کانگریس ایک قومی ادارہ ہے اس کے دروازے ذات پات اور مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ کانگریس کو ہندو مذاہب کے تہواروں سے اتنا ہی کم یا زیادہ مطلب ہے، جتنا کہ کسی دوسرے مذاہب کے تہواروں سے۔

گاندھی جی نے اس سے پہلے 5 نومبر 1938 کو ہریجن میں اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا تھا – "قومی پرچم اور اس کی موجودہ تخلیق کی اصل تخیل کے باپ کی حیثیت سے مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور لوگ اپنے پُرتشدد رجحانات کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں قومی جھنڈا عدم تشدد کی علامت ہے، اس کے ساتھ شائستگی بھی جڑی ہونی چاہئے۔ ‘

ترنگا میں چار رنگ ہیں

سدن جھا سے ہفت روزہ دعوت کی طویل گفتگو میں دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ قومی پرچم ترنگے میں تین نہیں بلکہ چار رنگ ہیں۔ وہ سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ اپنے قومی پرچم کو ہم تین رنگوں کا جھنڈا کیوں کہتے ہیں؟ جب ہم ہندوستان کے قومی پرچم میں رنگ کی وضاحت کرتے ہیں تو ہمارے علمی فریم سے اشوک چکر کا نیلا رنگ کیوں مٹ جاتا ہے؟

پھر وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ قومی پرچم کا نیلا رنگ بغاوت اور دلت سیاست کا رنگ ہے۔ نوآبادیاتی دور کی مقبول یادوں میں نیلا رنگ مزاحمت کا رنگ ہے۔ یہ 60-1859 میں بنگال میں انڈگو پلانٹروں کے خلاف کسان بغاوت اور پھر اس کے بعد چمپارن میں چلے "انڈگو موومنٹ” کی سیاسی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ رنگ ان باغی کسانوں کے لیے ایک بہترین خراج تحسین ہے جو کہ جھنڈے کے مرکز میں ہے۔

یہ بات یقیناً سوچنے کے قابل ہے کہ ہم جب بھی قومی پرچم کی بات کرتے ہیں تو ہماری بات چیت میں تین رنگوں کی ہی وضاحت ہوتی ہے لیکن نیلے رنگ کو بھلا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا دلت، پچھڑے اور کمزوروں کی آوازوں کے خلاف گہری سازش ہے؟

***

قومی پرچم کا نیلا رنگ بغاوت اور دلت سیاست کا رنگ ہے۔ نوآبادیاتی دور کی مقبول یادوں میں نیلا رنگ مزاحمت کا رنگ ہے۔ یہ 60-1859 میں بنگال میں انڈگو پلانٹروں کے خلاف کسان بغاوت اور پھر اس کے بعد چمپارن میں چلے "انڈگو موومنٹ” کی سیاسی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ رنگ ان باغی کسانوں کے لیے ایک بہترین خراج تحسین ہے جو کہ جھنڈے کے مرکز میں ہے۔