افروز عالم ساحل
حجاب کے بہانے آج کل مسلم خواتین کے طرز زندگی پر بحث ہو رہی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ حال اور مستقبل کو بہتر طور پر سمجھنا ہے تو پہلے ماضی کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ تو آئیے پہلے ماضی میں جا کر کرناٹک میں خواتین کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالابار کے ساتھ ساتھ کرناٹک کے علاقے میں بھی عورتوں کو کمر سے اوپر کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ اس دور میں خواتین ہمیشہ اپنا سینہ کھلا رکھتی تھیں۔ لیکن جب ریاست میسور میں ٹیپو سلطان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے خواتین پر ہونے والے اس ظلم کی مخالفت کی اور خواتین کے سینے کھلے رکھ کر چلنے کے رواج پر پابندی عائد کی۔
میر حسین علی خان کرمانی اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں، ’مالابار کے بعض علاقوں کے ساتھ ساتھ بالا گھائی کے تمام علاقوں میں زیادہ تر ہندو خواتین جانوروں کی طرح اپنی چھاتیوں اور سروں کو ننگا کرکے گھومتی تھیں۔ یعنی عورتیں کمر سے اوپر کے بالائی حصے کو ڈھکتی نہیں تھیں۔ لیکن ٹیپو سلطان نے حکم دیا کہ یہ غیر مہذب رواج ہے۔ ان عورتوں میں سے کوئی بھی اب اپنے گھر سے بغیر چادر اور پردے کے یعنی برہنہ باہر نہ نکلے۔‘ یہ کتاب 1864ء میں شائع ہوئی تھی۔ دراصل کرمانی صاحب نے یہ کتاب فارسی زبان میں ’نشان حیدری‘ نام سے لکھی تھی۔ اس کتاب کا انگریزی میں W Miles نے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے عورتوں کو سر اور سینہ ڈھانپنا سکھایا اور خواتین کو کپڑے تحفے میں دیے۔
1951 میں شائع ہونے والی محب الحسن خان کی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ ٹیپو سلطان کا کردار ایک سماجی مصلح کا بھی تھا۔ سلطان نے اپنے دور حکومت میں شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی، البتہ میسور کی فوج میں فرانسیسی سپاہیوں کے لیے کیمپ میں صرف ایک شراب کی دکان کھولنے کی اجازت دی تھی۔ ٹیپو سلطان نے عصمت فروشی اور گھریلو کاموں کے لیے لونڈیوں کو ملازمت پر رکھنے سے روکا۔ گورگ کے علاقے میں ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کے رواج کو بھی روکنے کی کوشش کی۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں یہ کلچر بہت عام تھا کہ گھر کا ایک آدمی شادی کرتا لیکن اس کی بیوی سبھی کی بیوی ہوتی تھی، ٹیپو سلطان نے اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس سے متعلق ایک حکم نامہ بھی جاری کیا۔
ٹیپو سلطان نے انسانی قربانی کی اس رسم کو ختم کر دیا جو میسور کے قریب کالی دیوی کے مندر میں رائج تھی۔ شہر میسور کے قریب چامنڈی پہاڑی پر کالی دیوی کے مندر میں ایک عرصہ سے دیوی کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی قربانی کی جاتی تھی۔ خاص طور پر خواتین نذرانے کے طور پر پیش کی جاتی تھیں۔ ٹیپو سلطان نے اپنے دور میں اس پر سختی سے پابندی لگا دی تھی۔ اس کا ذکر محمود خاں محمود بنگلوری نے 1939 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’تاریخ سلطنت خداداد (میسور) میں میسور گورنمنٹ کی جانب سے شائع کتاب ’رہنمائے میسور‘ کے حوالے سے کیا ہے۔
اس وقت کے بڑے شہروں میں ہندو عورتوں کی فروخت کے لیے منڈیاں لگائی جاتی تھیں، غلاموں کی خرید وفروخت کی جاتی تھی۔ شاہی فرمان جاری کر کے ٹیپو سلطان نے اسے بھی روک دیا۔ فارسی میں جاری کردہ اس حکم نامے کو ایم عبداللہ کی 1940 میں شائع ہونے والی کتاب ’ٹیپو سلطان‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عام طور پر اس زمانے میں جو بھی جنگ میں فتح حاصل کرتا وہ شکست خوردہ قوم کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتا تھا۔ ٹیپو سلطان نے اس رواج کو بھی پوری طرح سے ختم کر دیا۔ اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ کبھی ان عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی نہ کریں، بلکہ ان کے ساتھ پوری شفقت سے پیش آئیں۔
سیموئیل سٹرینڈ برگ اپنی کتاب ’ٹیپو سلطان (دی ٹائگر آف میسور)‘ میں لکھتے ہیں کہ 1780 میں مرہٹوں کے ساتھ ایک جنگ کے دوران ٹیپو سلطان کی سپاہ نے ایک معرکہ آرائی میں مرہٹوں کے سامان حرب کے ساتھ ان کی 80 خواتین کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ ان خواتین کا تعلق مرہٹہ جرنیلوں کے حرموں سے تھا۔۔۔ ان خواتین سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ اپنے خاوندوں کو اس امر پر آمادہ کریں گی کہ وہ ٹیپو سلطان کے ساتھ معرکہ آرائی کی بجائے امن قائم کرنے کو ترجیح دیں۔ یہ وعدہ لینے کے بعد ان خواتین کو آزاد کر دیا گیا۔ جس کے بعد مرہٹوں نے یہ مشہور کر دیا کہ مسلمانوں نے ان کی خواتین کی بے حرمتی کی تھی لہٰذا ان خواتین کو علیٰحدہ جگہ پر رکھا گیا اور ان کے خاوندوں نے ان کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر لیے۔ ان خواتین نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک کو گوارا نہ کیا اور اپنے مردوں کی پست ذہنیت کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ان خواتین نے ٹیپو سلطان کے بہترین اور شریفانہ رویے کی از حد تعریف وتوصیف کی اور اپنے خاوندوں پر زور دیا کہ وہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی بیہودہ باتوں کو اہمیت نہ دیں اور ٹیپو سلطان کے ساتھ امن کے لیے گفت وشنید کا آغاز کریں۔ بالآخر وہ اپنے خاوندوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور چند ماہ کے اندر امن وامان قائم ہوگیا۔‘
خواتین کا اپنے جسموں کے بالائی حصہ کو برہنہ رکھنے کا سلسلہ ٹیپو سلطان کے بعد بھی جاری رہا۔ سیموئیل سٹرینڈ برگ اپنی کتاب ’ٹیپو سلطان (دی ٹائگر آف میسور)‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس سلسلے میں ٹیپو سلطان نے ضلعی اہلکاروں کو خطوط بھی لکھے کہ ’میں نے مالابار میں کچھ خواتین کو ایسی حالت میں دیکھا کہ ان کے سینے کپڑوں سے بے نیاز تھے۔ انہوں نے اپنے سینے کپڑوں میں چھپا نہیں رکھے تھے۔ مجھے ان کے اس طرز عمل کی بدولت ازحد دکھ پہنچا ہے۔ میں حیران ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا واقعی یہ ایک رواج ہے یا قبیلے کی غربت کا سوال ہے؟ اگر اس قبیلے کی خواتین غربت کی وجہ سے اس طرز عمل کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں تو میں ان کی غربت دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کے لیے تیار ہوں تاکہ اس قبیلے کی خواتین وہ لباس زیب تن کر سکیں جو ان کی مناسب ستر پوشی کرتا ہو اور اگر یہ اس قبیلے کا رواج ہے تب میں یہ چاہوں گا کہ آپ لوگ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس قبیلے کو اس رواج سے روکنے کی کوشش کریں اور قبیلے کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر کے انہیں اس سے باز آنے پر آمادہ کریں۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ دوستانہ ماحول میں ان کے مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کریں اور ان کے مذہب کو برا بھلا کہنے سے گریز کریں۔۔۔‘‘
سیموئیل سٹرینڈ برگ آگے لکھتے ہیں، ’غالباً ٹیپو سلطان یہ نہیں جانتا تھا کہ اس قبیلے میں خواتین کا اپنا سینہ ڈھانپنا ایک ناشائستہ اور نامعقول فعل تصور کیا جاتا تھا، جبکہ دیگر لوگ خواتین کے سینہ نہ ڈھانپنے کے عمل کو ایک ناشائستہ اور نامعقول عمل تصور کرتے ہیں۔ ٹیپو سلطان اس رواج کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہا۔۔۔‘ یعنی کمر سے اوپر برہنہ رہنے کا رواج ٹیپو سلطان پوری طرح ختم نہیں کر سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو سلطان نے ہندو خواتین کو اس ملک میں عزت ووقار کے ساتھ جینا سکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ٹیپو سلطان کی فوج جنگ کے لیے نکلتی تو ہندو خواتین جنگ پر جانے والے ہاتھیوں کی پوجا کرتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے جس جگہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی تھی اسی جگہ سلطان کے سیکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔ جب سلطان کا جنازہ اٹھایا جانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں۔
لیکن ہندوتوا کے ٹھیکیداروں نے ٹیپو سلطان کو کبھی پسند نہیں کیا اور ہمیشہ ان کی مخالفت کی۔ اور کرناٹک میں یہ ’ٹھیکیدار‘ اب بھی چاہتے ہیں کہ ترقی کے نام پر خواتین اپنا سینہ کھول کر چلیں۔ ایسی توقع رکھنا بھی فضول نہیں کہ اس ملک میں دوبارہ’بریسٹ ٹیکس‘لگا دیا جائے۔
بریسٹ ٹیکس کی تاریخ یہ ہے کہ مالابار کے علاقے میں یہ ایک قسم کا ٹیکس تھا، جسے مقامی ملیالم زبان میں مُلکرم یا مولہ کرم کہا جاتا تھا، اور جو نچلی ذات کی ہندو عورتوں پر ریاست تراونکور (کیرالا) کی جانب سے عائد تھا۔ اس کے تحت ان عورتوں کو برہمنوں کے سامنے اور مندروں میں بھی اپنے سینوں کو ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کسی نے اپنا سینہ ڈھانکا تو اس کو اس کو بریسٹ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیکس کی رقم عورتوں کے سینوں کی جسامت پر منحصر ہوتی تھی۔ اس ٹیکس کا رواج 1924ء تک جاری رہا تھا۔
2016ء کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کیرالا کے چیرتھلا کی ایک خاتون ’ننگیلی‘ اور اس کے شوہر نے اس ’بریسٹ ٹیکس‘ کی مخالفت کی تھی۔ اس عورت پر جب ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو اس نے اپنی چھاتیوں کو ہی کاٹ کر افسروں کے سامنے رکھ دیا۔ بہت زیادہ خون کے اخراج کی وجہ سے وہ اسی وقت فوت ہو گئی جس کے بعد اس کے شوہر نے اسے نذر آتش کرنے کے بعد اسی آگ میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دی۔ اس طرح سے ننگیلی اور اس کے شوہر نے اپنے معاشرے کو بیدار کرنے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔۔۔۔
ہمارے مورخین نے ننگیلی کی اس جرات مندانہ جدوجہد کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان کے سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے ننگیلی کے اس واقعہ کو نویں جماعت کی سوشل سائنس کے نصاب میں ’ذات، تنازعہ اور لباس کی تبدیلی‘ کے عنوان کے تحت شامل کیا تھا، لیکن بعد میں مدراس ہائی کورٹ کے ایک حکم کی وجہ سے اسے ہٹا دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ’’موضوع پر مبنی افسانوی کام سے پیدا ہونے والی تاریخی صداقت کی غلط تشریح کی گئی ہے‘‘ اس کے علاوہ یہ کچھ ریاستوں اور مخصوص کمیونٹیز کے افراد کے خلاف ’’قابل اعتراض مواد‘‘ اور ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ کے تحت آتا ہے۔
لیکن آج جب یہ معاملہ دوبارہ تازہ ہوا ہے تو اس پر زیادہ سے زیادہ بحث کی ضرورت ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں برہمن واد کے تحت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے دلتوں پر خوب ظلم کیا، خاص طور پر عورتوں پر اتنا ظلم کیا کہ وہ بغیر کپڑوں کے ہی رہنے لگیں اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ انہیں صرف اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مردوں کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کریں۔ آن لائن پر موجود رپورٹس کے مطابق، ہماچل پردیش کی منیکرن گھاٹی کے پینی گاؤں کی عورتوں کو آج بھی سال میں پانچ دن کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ گاؤں کی رسم کے نام پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے اس گاؤں میں ایک ’راکشش‘ آیا کرتا تھا جو یہاں کی خوبصورت کپڑے پہننے والی خواتین کو اٹھا کر لے جاتا تھا۔ تب اس راکشش کو ان کے لہوا دیو نے مارا۔ مانا جاتا ہے کہ یہ دیوتا آج بھی اس گاؤں میں آتے ہیں اور برائیوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ خواتین اس رسم کی ادائیگی ساون کے مہینے میں کرتی ہیں۔ وہ اس مہینے کے پانچ دن برہنہ رہتی ہیں۔ اس دوران انہیں ہنسنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اگرچہ کچھ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس روایت میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پہلے عورتیں بالکل برہنہ رہتی تھیں لیکن اب اون سے بنا ہوا پتلا پہاڑی کپڑا پہنتی ہیں۔
یہ ہمارے لیے انتہائی شرم کی بات ہے کہ آج بھی ہمارے ملک کے کچھ حصوں میں دلتوں کو شادی کے موقعوں پر گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ انہوں نے اب اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ آج بھی اگر آپ ہندوستان میں دلت آبادی والے کسی گاؤں میں جائیں تو دیکھیں گے کہ خواتین کے پاس اپنا سینہ چھپانے کے لیے کپڑے نہیں ہیں۔ شاید حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ وہ اسی حالت میں رہیں۔ ایسے میں جب کوئی عورت اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپ کر چلتی ہے تو یہ ان کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔
آخر میں یہ بھی واضح کردوں کہ کرناٹک کے ایک دلت لیڈر بلیکائی سرینواس نے گزشتہ دنوں کرناٹک میں منعقدہ ایک پروگرام میں ٹیپو سلطان کے حق میں نعرہ لگایا تھا، جس کے بعد انہیں 17 جنوری کو چتردرگا سے گرفتار کر لیا گیا تب سے وہ جیل میں ہیں۔ اس بارے میں گزشتہ 20 جنوری کو صنوبر خان نے ایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے، جسے مسلم مرر نامی ایک ویب سائٹ نے شائع کیا ہے۔
***
سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں برہمنوں یا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے دلتوں پر خوب ظلم کیا، خاص طور پر عورتوں پر اتنا ظلم کیا کہ وہ بغیر کپڑوں کے ہی رہنے لگیں اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ انہیں صرف اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مردوں کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کریں۔ آن لائن پر موجود رپورٹس کے مطابق، ہماچل پردیش کی منیکرن گھاٹی کے پینی گاؤں کی عورتوں کو آج بھی سال میں پانچ دن کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ گاؤں کی رسم کے نام پر ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022