ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
وزیر اعظم نریندر مودی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں۔ معروف عالمی جریدے ٹائم نے لگاتار دوسری مرتبہ ان کے اثرات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ویسے پچھلے دس سالوں میں پانچ مرتبہ ان کو ٹائم کے بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ یعنی کرکٹ کی زبان میں ان کا اسٹرائیک ریٹ پچاس فیصد ہے۔ وطن عزیز میں کرکٹ کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے۔ انڈین کرکٹ لیگ کا مخفف آئی سی ایل ہونا چاہیے تھا لیکن غلطی سے اسے آئی پی ایل یعنی انڈین پریمیر لیگ کے نام سے پکارا جاتا ہے حالانکہ آئی پی ایل کو تو انڈین پولیٹیکل لیگ کا مخفف ہونا چاہیے۔ ویسے آئی پی ایل کی چال بازیاں تو اصلی سیاست سے بھی بدتر ہیں۔ مثلاً وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہنے والے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو تو جی 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی گئی لیکن عالمی سطح پر پہلے نمبر کے بلے باز بابر اعظم اور ان کی ٹیم کو آئی پی ایل میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا۔ ویسے جس ادارے کا سربراہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ ہو اس سے اور کیا توقع کی جائے؟
انڈین پولیٹیکل لیگ کے زیر اہتمام سیاسی ٹورنامنٹ کا فائنل میچ تو خیر آئندہ سال ہوگا لیکن اس کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے۔ پچھلے دنوں شمال مشرق کے ننھے منے صوبوں میں کچھ وارم اپ میچ ہوئے جس میں کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ہاتھ پیر سیدھے کیے۔ اس سیریز کا پہلا ٹسٹ میچ سرزمین کرناٹک میں ہونے جا رہا ہے۔ ویسے تو یہ بی جے پی کا ہوم گروانڈ ہے اس لیے اسے بے ایمانی کے بے شمار مواقع حاصل ہیں لیکن سیاسی افق پر مایوسی و بدعنوانی کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کالے دھن کی کھاد سفید کمل کو کھلانے میں کامیاب ہوسکے گی یا کانگریس کا ہاتھ چل جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ کرکٹ کی مانند سیاست کے میدان میں بھی آخری گیند تک کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ کرکٹ فی زمانہ عوام کی تفریح کا بہت بڑا سامان بنا ہوا ہے اسی لیے آئی پی ایل کھیل کے دوران کروڑوں کی اشتہار بازی ہوتی ہے اور کھلاڑیوں کی قیمت بھی کروڑوں میں لگائی جاتی ہے لیکن ارکان اسمبلی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مہاراشٹر کے ہر باغی رکن اسمبلی کو چالیس کروڑ روپیہ ملنے کی خبر ہے۔ انتخاب کی تشہیر میں خرچ ہونے والی رقم کے سامنے آئی پی ایل کا میچ ہیچ ہے۔ خیر کرکٹ کے اس جملہ ٔمعترضہ سے ٹائم میگزین کی جانب لوٹتے ہیں۔
ٹائم میگزین کے بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل ہونے کا لازمی مطلب تعریف و توصیف نہیں ہے کیونکہ یہ جریدہ مثبت اثرات ڈالنے والوں کے ساتھ ساتھ منفی انداز میں متاثر کرنے والوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ مودی کو پانچ شمولیت میں سے صرف ایک بار سراہا گیا تھا۔2014 میں پہلی بار حلف برداری سے قبل انہیں بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے فرید زکریا نے لکھا تھا گو کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے روشن امکانات ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے قوت فیصلہ کی تعریف کر کے عوام کی بڑی توقعات کا ذکر کرنے کے بعد گجرات فساد کی یاد دلا کر کہا گیا تھا کہ ایک پھوٹ ڈالنے والا سیاستداں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں قیادت کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ تعریف و تنقید کے اس حسین امتزاج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ برابری پر چھوڑا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت وزیر اعظم کے اصلی چہرے پر ’اچھے دن‘ کی دبیز نقاب پڑی ہوئی تھی۔ فرید زکریا سمیت اچھے اچھے ان کے دامِ فریب میں گرفتار ہوگئے تھے۔ 2015 میں بھی’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کا غلغلہ جاری تھا اس لیے سرکار سازی کے فوراً بعد مودی جی پھر سے بااثر شخصیت کی فہرست میں نظر آئے۔ امریکی صدر بارک اوباما سے ان کا تعارف لکھوایا گیا۔ انہوں نے مودی جی کے غربت بھرے ماضی کا حوالہ دے کر لکھا کہ وہ مفلس عوام اور خواتین کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ توقع بھی ظاہر کی گئی کہ وہ ملک کو آگے لے جائیں گے۔ 2016 خالی گزر گیا مگر 2017 کے بعد جب مودی جی بے نقاب ہوگئے تو ٹائم نے انہیں دوبارہ شامل کیا اور لکھا کہ پچھلے تین سالوں میں معاشی، تہذیبی یا عالمی سفارت کاری کے میدان میں وہ کچھ نہیں کرپائے۔ ان کی حامی تنظیموں نے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر بہت حملے کیے۔ اتر پردیش کا انتخاب جیتنے کے لیے یہ حکمت عملی بی جے پی کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد دو سال مودی جی غائب رہے مگر 2020 میں پھر سے وہ اس فہرست کی زینت بنے۔ اس وقت کشمیر کی دفعہ 370 ختم کی جا چکی تھی اور ملک بھر میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف زبردست تحریک چل رہی تھی اس لیے ان پر ملک کو بانٹنے کا الزام لگا کر تنقید کی گئی۔
2021 میں مودی جی کو پھر سے بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کر کے کورونا کی بابت ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ لوگ تو یہ توقع کر رہے تھے مودی جی ملک کو سوشلزم سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب لے کر جائیں گے مگر وہ تو الٹا سیکولرزم سے فرقہ پرستی کی جانب لے گئے۔ اس طرح گویا لگاتار تین مرتبہ ان کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ کرکٹ کی زبان میں کہا جائے تو پانچ مقابلوں میں سے ایک میچ برابری پر چھوٹا ایک میں وہ جیتے مگر تین بار ان کو ٹائم شیلڈ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے بعید نہیں کہ مودی جی نے اپنے نام کی عدم موجودگی پر اطمینان کا سانس لیا ہو کیونکہ اپنے کرتوتوں کی سب سے زیادہ واقفیت خود اپنی ذات کو ہوتی ہے۔ جہاں تک بھکتوں کا سوال ہے اقتدار کے نشے میں بدمست مداحوں کو ساون میں صرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ وہ لوگ اس بات کو ہضم ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ ان کے مقبول ترین رہنما کو اس نامعقول جریدے نے کیسے نظر انداز کر دیا؟ یعنی شامل کیا جائے تو اسے بدنام کرنے کی سازش کہا جائے اور نہ کیا جائے تو افسوس کیا جائے گا۔
ٹائم میگزین کی اس تازہ فہرست سے بیچارے مودی کے بھکتوں کو دوسرا جھٹکا اداکار شاہ رخ خان کے سب سے زیادہ با اثر افراد میں جگہ پانے سے لگا حالانکہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ نہ تو وہ لوگ بے شرم رنگ کی مخالفت کرتے اور نہ پٹھان سپر ہٹ ہوتی۔ ٹائم 2023 کے پول میں شاہ رخ خان کو 1.2 ملین ووٹ ملے۔ یہ ریڈرس پول میں سب سے زیادہ ووٹوں کی تعداد ہے۔ قارئین کی اس غیر معمولی پذیرائی کے سبب وہ سرفہرست رہے۔ اس پر برہم ہو کر امیت شاہ نے نہ جانے کتنے مفت خوروں کو اپنی ٹرول آرمی سے نکال باہر کیا ہوگا۔ اس لیے کہ دنیا کی امیر ترین سیاسی پارٹی کی وسیع ترین میڈیا فوج اگر ایک اداکار سے زیادہ ووٹ اپنے وزیر اعظم کو دے کر کامیاب نہیں کراسکتی تو اس کا فائدہ ہی کیا ہے؟ شاہ جی کو سمجھنا چاہیے کہ روپیہ کے ساتھ جذبۂ عمل بھی کام کرتا ہے۔ فی الحال دھن دولت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی لیکن جوش اور ولولہ کم ہو گیا ہے۔ اس جذبے کا فقدان اگر خود وزیر اعظم میں ہوجائے تو بیچاری ٹرول آرمی میں یہ کیونکر بڑھ سکتا ہے؟
ملک بھر میں محض جی 20 کی ہورڈنگ پر ’بڑی ذمہ داری، بڑے عزائم‘ لکھ کر ساتھ میں ہنستا ہوا چہرہ بنا دینے سے بات نہیں بنتی۔ ٹائم میگزین والے ان سے متاثر نہیں ہوتے۔ کاش کہ گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی کی مانند ٹائم کو بھی خرید لیا ہوتا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ نومبر 2017 میں اس امریکی جریدے کے ناشر نے ایک امریکی اشاعتی ادارے میریڈتھ کارپوریشن کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر میں ٹائم میگزین بیچ دیا تھا۔ ویسے اس وقت گوتم اڈانی کے پاس اس قدر رقم نہیں تھی۔ لیکن اگر مودی جی کہیں سے اس کا انتظام کر دیتے تو اس کے رہنماوں کی فہرست میں ایک سے لے کر 9 تک مودی جی کا نام اور دسویں پر امیت شاہ، یوگی ادتیہ ناتھ یا اڈانی براجمان ہوتے بشرطیکہ ٹائم میگزین گودی میڈیا کی مانند اپنے ضمیر کا بھی سودا کرتا۔ 1923ء کے بعد یہ سانحہ پہلی بار رونما ہوگیا ہوتا اور اس کے سولہ لاکھ قارئین اپنا سر پیٹ لیتے۔
پچھلے سال مودی جی تو اس فہرست میں نہیں آئے مگر منظور نظر گوتم اڈانی کا نام اس میں پہنچ گیا۔ گوتم اڈانی کی بابت رائے چودھری نے لکھا کہ وہ عوام کی چکا چوند سے دور خاموشی سے اپنا سامراج تعمیر کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ کہا گیا کہ ملک میں معیشت اور سیاست غیر معمولی مرکوزیت سے دوچار ہے اور اڈانی اقتصادی ارتکاز کا چہرہ ہیں۔ وہ فی الحال دنیا میں پانچویں امیر ترین مقام کے لیے وارین بوفیت سے مسابقت کی دوڑ میں ہیں۔ مودی جی کے آشیرواد سے اڈانی دوسرے مقام پر تو جا پہنچے لیکن اس سے پہلے کہ اول نمبر پر آتے ہنڈنبرگ نے غبارہ پھوڑ دیا۔ 2022 کی فہرست میں جہاں گوتم اڈانی کا نام دیکھ کر وزیر اعظم مودی کو خوشی ہوئی ہوگی وہیں کشمیریوں کے حقوق کی خاطر کام کرنے والے خرم پرویز نے مودی بھکتوں کا موڈ خراب کردیا کیونکہ ان کی خوب تعریف کی گئی تھی اور اس بار شاہ رخ خان ان کے لیے مصیبت بن گئے۔ اب کی بار مقبولیت کی دوڑ میں شاہ رخ خان نے فٹ بال کھلاڑی لیونل میسی، برطانیہ کے شہزادہ ہیری، ان کی اہلیہ میگھن مرکل، میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ وغیرہ کو پچھاڑ دیا ہے۔ ان کے علاوہ معروف فلمساز ایس ایس راجا مولی کا نام بھی 2023 کے ’پایونیئرز ‘(سرکردہ لوگوں) کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا گیا۔ فلم آر آر آر کے ہدایت کار ایس ایس راجا مولی کی فلم نے آسکر سمیت دنیا کے بہترین ایوارڈ فیسٹیول میں ناموری حاصل کی ہے۔
امریکی جریدے ٹائم میگزین کی فہرست میں اس مرتبہ بھی جملہ چھ طرح کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک کے اندر صرف فنکار شامل کیے گئے ہیں۔ دوسری میں آئیکونز (مثالی ہستیاں) تیسری میں پایونیئرز (سرکردہ لوگ) چوتھی رہنماوں، پانچویں ٹائٹنز (دبنگ) اور چھٹی میں انوویٹرز یعنی (جدت پسند یا کچھ نیا کرنے والوں )کے نام ہیں۔ ٹائم والے مختلف کٹیگری میں پیشے کی بنیاد پر افراد کو تقسیم نہیں کرتے مثلاً فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے شاہ رخ خان کا شمار آئیکونز (مثالی ہستیوں) میں کیا گیا ہے تو ایس ایس راجا مولی کو ’پایونیئرز ‘(سرکردہ لوگوں) کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ راجہ مولی نے آسکر میں ڈنکا بجایا مگر ان کے علاوہ بہترین معاون اداکار کا آسکر جیتنے والے کے ہوئی کو آئیکونز کی فہرست میں ڈالا گیا۔ اسی طرح معروف پاپ سنگر بیوسے ٹائٹنز کیٹگری میں اس سال آسکرز میں نامزد ہونے والی اداکارہ اینجلا بیسٹ کے ساتھ شامل ہیں۔
ارجنٹینا کو 36 سال بعد ورلڈ چیمپئن بنانے والے لیونل میسی کا نام ٹائٹنز میں ہے جبکہ فٹ بال ورلڈ کپ کے فائنل میں ہیٹ ٹرک کرنے والے فرینچ فٹ بالر کلین ایمباپے کو انوویٹرز کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ڈزنی پکچرز کے چیف ایگزیکٹیو باب آئیگر کو بھی اسی کٹیگری میں رکھا گیا۔ قائدین کی فہرست میں امریکی صدر جو بائیڈن چھٹی بار جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں ایلون مسک پانچویں، لیونل میسی تیسری اور بیونسے بھی تیسری بار اس فہرست کا حصہ بنے ہیں۔ مجموعی طور پر سو افراد کی اس فہرست میں اس سال خواتین کی شرکت 50 فیصد ر ہی۔ 2022 کی فہرست میں بھارت کے کرنا نندی نامی معروف وکیل کا نام شامل کیا گیا تھا لیکن اس سال بھارتی خواتین کا مکمل طور پر ندارد ہونا ملک کے اندر صنف نازک کے حوالے سے بلند بانگ دعووں کی نفی کرتا ہے جبکہ ویمن آف دی ایئر 2023 کی فہرست میں پاکستانی ماحولیاتی کارکن عائشہ صدیقہ کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا۔ ویمن آف دی ایئر کی فہرست میں مختلف ممالک کی 12 ایسی خواتین شامل ہیں جو سیاست، فن، کھیل اور سماجی سرگرمیوں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ عائشہ صدیقہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے لکھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کی مذکورہ کارکن نے گزشتہ برس مصر میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی کانفرنس میں ایک شاندار تقریر کی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے عالمی رہنماؤں پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام نہ کرنے پر سوال اٹھائے تھے۔ ٹائم میگزین نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ’جب عائشہ صدیقہ شاعری پر بات کرتی ہیں تو ان کا چہرہ دمکنے لگتا ہے۔ ان کے نزدیک شاعری امید کی نمائندگی کرتی ہے۔‘ عائشہ صدیقہ نے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور سیلاب کی تباہی دیکھ کر جو کچھ محسوس کیا اسے شاعری میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ موصوفہ کا دعویٰ ہے کہ ’آرٹ (فنونِ لطیفہ) زندگی کو جینے کے قابل بناتا ہے۔ میری رائے میں یہ آدمی کو لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔‘ عائشہ صدیقہ کو 12 برس کی عمر میں غیر محفوظ ماحول کااحساس ہونا شروع ہوا۔ 16 برس کی کم سن عمر میں وہ موسمیاتی تبدیلی کے براہ راست انسانی حقوق سے تعلق کا ادراک کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ پاکستان کے قبائلی معاشرے کو عام طور پر پسماندہ کہا جاتا ہے مگر وہاں پرورش پانے والی عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ وہ زندگی کے دفاع کا کام کرتی ہیں اور یہ بذاتِ خود خواتین کے حقوق کی جنگ ہے۔
ٹائم میگزین کی اس مؤقر فہرست میں ’ویمن آف دی ایئر 2023‘ میں عائشہ صدیقہ کے ساتھ دیگر خواتین کے علاوہ صومالیہ کی پروفیشنل باکسر رملا علی اور ایرانی نژاد امریکی صحافی مسیح علی نژاد بھی موجود ہیں۔ قائدین کی فہرست میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن یا اقلیتی امور کی تیز و طرار وزیر سمرتی ایرانی تو جگہ نہیں بنا سکیں مگر پاکستانی سیاست دان اور وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے جگہ بنالی۔ ان سے متعلق امریکی جریدے کی ویب سائٹ پر یہ پیغام درج ہے کہ کوپ 27 اجلاس میں انتہائی پرجوش تقاریر اور انتھک مصروفیات و مذاکرات کے ذریعہ شیری رحمان نے مندوبین کو قائل کیا کہ یہ نا انصافی ختم کی جانی چاہیے۔ دنیا کی 100 با اثر ترین شخصیات میں رہنماؤں کی کیٹگری میں شیری رحمان کا چھٹا نمبر ہے۔ ٹائم میگزین کے مطابق گزشتہ سال کے اواخر میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد شیری رحمان کا سیلاب زدگان کی آواز بننا قابل تعریف ہے۔اس پیغام میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ شیری رحما ن کی کوششوں کے سبب عالمی برادری نے پہلی بار قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک کے لیے امدادی فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شیری رحمان کی ٹائم فہرست میں شمولیت پر مبارک باد دی۔
بھارت میں کسی سیاستداں کو یہ اعزا ز حاصل ہوتا تو مودی جی بھی ایسا پیغام لکھتے لیکن یہ نہیں ہوسکا۔ ٹائم کی فہرست نے ساری دنیا کو اس حقیقت سے آشکار کیا کہ دنیا میں نام کمانے کی خاطر بڑی باتیں کرنے اور تصویریں کھچوانے کے علاوہ بھی کچھ غیر معمولی کام کرنے پڑتے ہیں۔ وزیر اعظم کی ساری سرگرمیاں الیکشن کے پیش نظر ہوتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں پروجیکٹ ٹائیگر کے 50 سال مکمل ہونے پر انہوں نے کرناٹک کا آٹھواں دورہ کیا کیونکہ عنقریب وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے لیے مودی اپنے لاو لشکر سمیت ٹی شرٹ، ٹراؤزر، جیکٹ، ٹوپی، کالے چشمے اور کیمرے کے ساتھ بانڈی پور ٹائیگر ریزرو پہنچے۔ انہوں نے وہاں دو گھنٹے گزارے، آس پاس سخت حفاظتی انتظامات بھی کیے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو گھنٹوں تک کسی شیر یا چیتے نے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں سے بے نیل و مرام لوٹنے کے بعد وہ پڑوسی ریاست تمل ناڈو کے مڈومالائی ٹائیگر ریزرو (ایم ٹی آر ) میں تھیپاکاڈو ہاتھی کیمپ پہنچے اور آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’دی ایلیفینٹ وِسپرس‘ کے مرکزی ستارے بومن بیلی یوگل کے ساتھ بات چیت کی۔ پراجیکٹ ٹائیگر کے 50 سال مکمل ہونے پر عملہ سے بات چیت کرکے انہوں نے چیتوں سے متعلق نئے اعداد وشمار جاری کیے اور ان کے تحفظ کا عزم کیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے آئے دن جعلی انکاونٹر کا شکار ہو رہے ہوں وہاں کے وزیر اعظم کا نام چیتوں کے لیے فکرمندی کا اظہار کرنے پر ٹائم میگزین کی بااثر شخصیات کی فہرست میں بھلا کیسے آئے گا؟ یہ سوال قابلِ غور ہے۔
***
***
ٹائم کی فہرست نے ساری دنیا کو اس حقیقت سے آشکار کیا کہ دنیا میں نام کمانے کی خاطر بڑی باتیں کرنے اور تصویریں کھچوانے کے علاوہ بھی کچھ غیر معمولی کام کرنے پڑتے ہیں۔ وزیر اعظم کی ساری سرگرمیاں الیکشن کے پیش نظر ہوتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں پروجیکٹ ٹائیگر کے 50 سال مکمل ہونے پر انہوں نے کرناٹک کا آٹھواں دورہ کیا کیونکہ عنقریب وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے لیے مودی اپنے لاو لشکر سمیت ٹی شرٹ، ٹراؤزر، جیکٹ، ٹوپی، کالے چشمے اور کیمرے کے ساتھ بانڈی پور ٹائیگر ریزرو پہنچے۔ انہوں نے وہاں دو گھنٹے گزارے، آس پاس سخت حفاظتی انتظامات بھی کیے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو گھنٹوں تک کسی شیر یا چیتے نے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں سے بے نیل و مرام لوٹنے کے بعد وہ پڑوسی ریاست تمل ناڈو کے مڈومالائی ٹائیگر ریزرو (ایم ٹی آر ) میں تھیپاکاڈو ہاتھی کیمپ پہنچے اور آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’دی ایلیفینٹ وِسپرس‘ کے مرکزی ستارے بومن بیلی یوگل کے ساتھ بات چیت کی۔ پراجیکٹ ٹائیگر کے 50 سال مکمل ہونے پر عملہ سے بات چیت کرکے انہوں نے چیتوں سے متعلق نئے اعداد وشمار جاری کیے اور ان کے تحفظ کا عزم کیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے آئے دن جعلی انکاونٹر کا شکار ہو رہے ہوں وہاں کے وزیر اعظم کا نام چیتوں کے لیے فکرمندی کا اظہار کرنے پر ٹائم میگزین کی بااثر شخصیات کی فہرست میں بھلا کیسے آئے گا؟ اس پر غور کرنا از حد ضروری ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023