ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
امیت شاہ نے تمل عوام سے اپیل کی کہ این ڈی اے کے پچیس امیدواروں کو ایوانِ پارلیمان میں روانہ کریں کیونکہ مودی جی نے سینگول کو قبول کرکے ان پر احسان عظیم کیا ہے اس لیے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ ایک سوال ہے کہ آخر وزیر اعظم نے سینگول لے کر تمل ناڈو کے لوگوں پر کون سا احسان کیا ہے؟
بی جے پی سے لاکھ اختلاف کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ یہ بڑے خواب دیکھتی ہے اور ان کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے حکمت عملی بناتی اور جان توڑ محنت کرتی ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں اسے کہیں کامیابی اور کہیں ناکامی ہاتھ لگتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ دن رات انتخابی جوڑ توڑ میں لگی رہتی ہے۔ بی جے پی کی غیر متوقع کامیابیوں میں سے ایک، گزشتہ قومی انتخاب میں کرناٹک میں اکاون فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے اٹھائیس میں سے پچیس پر اپنے امیدواروں کو کامیاب کرلینا اور ایک پر حلیف جماعت کے امیدوار کی کامیابی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ کانگریس اور جنتا دل ایس کو ایک ایک نشست پر سمٹ جانا پڑا۔ اسی طرح کون سوچ سکتا تھا کہ مغربی بنگال میں یہ پارٹی دو سے بڑھ اٹھارہ پر پہنچ جائے گی ۔اس کو ترنمول کانگریس کی بارہ اور کانگریس و دائیں بازو کے محاذ سے چار نشستیں مل جائیں گی اور ان سے اتر پردیش جیسے گڑھ میں ہونے والے نقصان کی پابجائی ہو جائے گی۔
بی جے پی جانتی ہے کہ پرانے رائے دہندگان کو بہت دنوں تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا اس لیے نئے صوبوں میں قدم جمانا اس کی مجبوری بن گئی ہے۔ جنوبی بھارت بی جے پی کی دکھتی رگ ہے۔ وہاں کی پانچ میں سے صرف ایک ریاست کرناٹک میں وہ چور دروازے سے اقتدار میں آئی تھی اور اب اسے بھی گنوا چکی ہے۔ جنوبی ہند میں جملہ 129 حلقہ ہائے انتخاب ہیں، ان میں اسے کرناٹک کی پچیس کے علاوہ تلنگانہ سے چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ بی جے پی سے دس فیصد زیادہ ووٹ پانے والی کانگریس کو تلنگانہ میں اس سے ایک نشست کم ملی تھی اس لیے کہ بھگوا ووٹ چند مقامات پر مرتکز تھے جبکہ کانگریسی ووٹرس پوری ریاست میں بکھرے ہوئے تھے۔ کرناٹک میں کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ کا فرق تو صرف انیس فیصد تھا مگر نشستوں کا فرق چھیانوے فیصد ہوگیا تھا۔ کیرالا میں تیرہ فیصد ووٹ پانے کے باوجود بی جے پی اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام رہی تھی۔ آندھرا پردیش میں چونکہ بی جے پی کو صرف ایک فیصد ووٹ ملے اس لیے کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ تمل ناڈو میں بھی اپنی حلیف اے آئی ڈی ایم کے کے طفیل اس کو چار فیصد ووٹ تو مل گئے تھے مگر ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
ان اعدادو شمار کے تناظر میں امیت شاہ کے حالیہ تمل ناڈو دورے کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ کیرالا کے مخصوص حالات کے پیش نظر وہاں ہنوز بھگوائیوں کو کوئی بڑی امید نہیں ہے اس لیے تلنگانہ اور تمل ناڈو سے ہی کرناٹک کے نقصان کی پابجائی ہو سکتی ہے۔ مودی حکومت نے اپنے اقتدار کے نو سال مکمل کرلیے ہیں اور پورے ملک میں اس کی کامیابیوں کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک دن پر اکتفا کرنے کے بجائے ایک ماہ کا عرصہ طے کیا گیا ہے تاکہ عوام کو سرکار کے کارناموں سے روشناس کرایا جائے۔ اس اہتمام سے یہ ظاہر ہے کہ یہ کامیابیاں ایسی نہیں ہیں جن سے عوام کا براہِ راست فائدہ ہوا ہو ورنہ اس کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی۔ خیر اس مہم کے تحت وزیر داخلہ امیت شاہ نے تمل ناڈو کے شہر ویلور میں ایک جلسہ عام میں تمل وزیر اعظم کی راہ میں ڈی ایم کے کو رکاوٹ قرار دے کر ایک بہت بڑا سیلف گول کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کامراج اور موپنار وزیر اعظم بن سکتے تھے مگر ڈی ایم کے اس کی راہ میں حائل ہوگئی۔ اس کا مطلب کانگریس تو تمل رہنما کو اس عہدے پر فائز کرنے کے حق میں تھی لیکن تمل ناڈو کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی بڑا تمل رہنما موجود ہی نہیں ہے۔
امیت شاہ نے اس موقع پر عوام کی فلاح و بہبود کے کارنامے کے بجائے 2024 کے عام انتخابات کا راگ چھیڑ دیا اور حزب اختلاف پر اوچھے قسم کے الزامات لگائے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ کوئی قابلِ ذکر کامیابی موجود ہی نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ بھگوائیوں کو انتخابی مہم کے سوا کچھ اور نہیں سوجھتا۔ امیت شاہ نے یہ پیشن گوئی کی کہ مودی حکومت 2024 میں ایک بار پھر تین سو سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آنے والی ہے۔ اس کے بعد عوام سے اپیل کی کہ تمل ناڈو سے این ڈی اے کے پچیس امیدواروں کو ایوانِ پارلیمنٹ میں روانہ کریں کیونکہ مودی جی نے سینگول کو قبول کرکے ان پر احسان عظیم کیا ہے، اس لیے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ سوال ہے کہ آخر وزیر اعظم نے سینگول لے کر تمل ناڈو کے لوگوں پر کون سا احسان کیا ہے؟ الٹا ان کو احسان مندی کے طور پر تملوں کو خصوصی مراعات دینی چاہیے لیکن ایسا کرنے کے بجائے الٹا ارکان پارلیمنٹ کی کامیابی کا مطالبہ کرنا احسان فراموشی ہے۔ اس کا مطلب ہے مودی جی تمل ناڈو سے سینگول اور ارکان پارلیمان دونوں لیں گے یعنی یہ لوگ کچھ دینے کے تو نہیں مگر لینے کے ضرور ہیں۔
امیت شاہ نے اپنے دورے کے فوراً بعد دھونس دھمکی کا بازار گرم کرتے ہوئے تمل ناڈو میں بجلی کے وزیر وی سینتھل بالاجی کے یہاں ای ڈی کا چھاپہ ڈلوا دیا۔ ان کو منی لانڈرنگ معاملے میں گرفتار کیا گیا۔ بالاجی کی طبیعت بگڑ گئی اور چنئی کے اومندورار سرکاری ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ای ڈی نے ضلع ایروڈ میں بالاجی کے دفتر نیز آبائی ضلع کرور میں بھی چھاپہ مارا۔ پانچ سالوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب مرکزی تفتیشی ایجنسی سے منسلک اہلکاروں نے سیکرٹریٹ کے اندر تلاشی لی۔اس پر ریاست کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے مودی حکومت پر اپنے سیاسی حریفوں کو دھمکانے کا الزام لگایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بیک ڈور سے خوف زدہ کرنے کی اپنی سیاست میں کامیاب نہیں ہوگی۔ تمل ناڈو کے وزیر تعلیم پونموڈی نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔ لیکن یہ تو بی جے پی کا شعار ہے۔ بالاجی ایک زمانے میں بی جے پی کی حلیف اے آئی اے ڈی ایم کے میں وزیر ٹرانسپورٹ تھے اس وقت وہ دودھ کے دھلے تھے اس لیے ان کا بال بیکا نہیں ہوا لیکن چونکہ اب انہوں نے وفاداری بدل دی ہے اس لیے نشانے پر ہیں۔ تمل ناڈو کی عوام کے لیے بالاجی کی گرفتاری سینگول کے تماشے سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اسے مرکزی حکومت کی دادا گیری قرار دے کر بی جے پی کو سبق سکھائیں گے اس لیے کہ دراوڑ سماج میں علاقائی وقار اور و تہذیبی تشخص کا احساس دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔
بالاجی کی گرفتاری کے بعد تمل ناڈو حکومت نے مرکزی تفتیشی بیورو کو ماضی میں دی گئی عام رضامندی کو واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے مطابق یہ صوبائی حکومت کا حق ہے کہ وہ سی بی آئی کو اجازت لینے پر مجبور کرے مگر اپنے حلیف کو برسرِ محفل رسوا کرنے والے اناملائی بھلا حریف کی تنقید سے خود کو کیونکر روک سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے لگام زبان درازی سے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن کے تبصرے کو ایک ’عام پلیٹ فارم مقرر‘ سے تشبیہ دے دی۔ ماضی میں اناملائی آئی پی ایس افسر تھے اور ابھی بھی وہ اس زعم سے نکلے نہیں ہیں۔ انہوں نے تمل ناڈو حکومت کو سی بی آئی کے اجازت نامہ کی منسوخی پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یاد دلایا کہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اسٹالن نے کئی مسائل پر ایجنسی کی تحقیقات مطالبہ کیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت نے اس پر کوئی اقدام بھی کیا تھا؟ اس کی مثال وہ نہیں دے سکتے جبکہ اب بغیر کسی مطالبے کے کارروائی ہو رہی ہے۔ بالاجی پر چھاپے کے جواب میں ڈی ایم کے کے صدر ایم کے اسٹالن نے کہا تھا کہ پارٹی اور اس کے کارکنوں کو مشتعل کرنے کے اپنے (خطرناک) نتائج ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی کو اس خطرے سے آگاہ نہیں بلکہ خبردار کیا جا رہا ہے۔ اس بیان نے اناملائی کو آپے سے باہر کر دیا اور انہوں نے وزیر اعلیٰ کو سڑک چھاپ لیڈر قرار دے دیا جو بھیڑ کو مصروف (ہنگامہ) کرنے پر اکساتا ہے حالانکہ ملک بھر میں لوگوں کا بھڑکا کر آگ لگانے کا کام بی جے پی سے زیادہ کوئی نہیں کرتا۔ اسٹالن پر تنقید کرنے سے قبل اناملائی کو وزیر اعلیٰ یو پی یوگی ادیتیہ ناتھ کو اپنے عہدے کے وقار کا احساس دلانا چاہیے جو ایوان کے اندر مٹی میں ملانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ سوال بسوا سرما سے بھی ہونا چاہیے کہ ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے مناسبت رکھتے ہیں یا نہیں؟‘‘
امیت شاہ نے اپنے خطاب میں یہ تو نہیں کہا کہ سینگول قبول کرکے مودی جی نے جو احسان عظیم کیا ہے اس کے عوض لوگ بی جے پی کو پچیس نشستوں پر کامیاب کرائیں بلکہ این ڈی اے یعنی اپنے حلیف اے آئی اے ڈی ایم کے لیے حمایت طلب کی کیونکہ مینڈک کو اگر سینگول تھما دیا جائے تب بھی وہ ہاتھی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ ویسے شاہ جی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کرناٹک میں انہوں نے +150 کا نعرہ لگا یا تھا جبکہ سارا کھیل پچھتر پر سمٹ گیا لیکن ان کی زبان کو کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ ایسی جرأت کرنے والے کو قابو میں کرنے کے لیے ان کے پاس ای ڈی اور سی بی آئی موجود ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ بی جے پی کے صوبائی صدر اناملائی کی بدزبانی کے سبب اے آئی ڈی ایم کے سے بھی تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں۔ اس میں اناملائی کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو اپنے مرکزی رہنماوں کی پیروی میں بلا روک ٹوک ’من کی بات‘ بول دیتے ہیں اور کوئی انہیں روک بھی نہیں سکتا۔ سابق وزیر اعلیٰ جئے للتا کے خلاف اناملائی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر اے آئی اے ڈی ایم کے نے دھمکی دی کہ اگر ان پر کارروائی نہیں ہوئی تو وہ اتحادی بی جے پی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے گی۔ ایسا ہو جائے تو پچیس کا خواب ازخود چکنا چور ہوجائے گا اور سینگول کسی کام نہیں آئے گا۔
امیت شاہ کی واپسی کے بعد ریاستی بی جے پی کے سربراہ کے اناملائی نے جوش میں آ کر ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ اے آئی اے ڈی ایم کی آئیکن اور سابق وزیر اعلی جے جے للیتا کو غیر متناسب اثاثہ جات کے معاملے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ناروا تبصرے کو جے للیتا کے شیدائیوں نے بہت سنجیدگی سے لیا اور پارٹی میں ایک قرارداد منظور کرکے اناملائی کو ’نا تجربہ کار، غیر ذمہ دارا، اور اشتعال انگیزی کا مرتکب‘ قرار دیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ 1998 میں پہلی بار بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے میں موصوفہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ دعویٰ درست ہے مگر سچائی یہ بھی ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کی اس سرکار کو گرانے کا سہرا بھی جے للیتا کے ہی سر جاتا ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم نے یہ بات واضح کی کہ سابق وزیر اعلیٰ کے بارے میں اناملائی کے انٹرویو نے پارٹی کے کیڈر کی دل آزاری کی ہے۔ مذکورہ میٹنگ کا مقصد نئی رکنیت کے اندراج پر تبادلہ خیال کرنا تھا لیکن کے اناملائی کے تبصرہ نے اس کا رخ موڑ دیا ۔ ضلع سکریٹریوں کا اس پر ہنگامہ بالآخر ایک سخت مذمتی قرار داد پر منتج ہوا ۔
بی جے پی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی غلطی کا احساس کرکے اپنے حلیف کی دل جوئی کرتی لیکن جب اقتدار کی رعونت دماغ میں سما جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں رہتا۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کے سینئر لیڈر ڈی جے کمار کو اتحاد پر نظرثانی کی دھمکی کے جواب میں پلٹ وار کرتے ہوئے بی جے پی نے کہا کہ ’’اتحاد میں کوئی بڑا بھائی نہیں ہو سکتا‘‘۔ اپنے صدر کی بد زبانی کا جواز فراہم کرتے ہوئے بی جے پی کے ریاستی نائب صدر نارائنن تروپتی نے کہا ’’اناملائی کو وہ کہنے کا حق ہے‘‘۔ اتحاد کے مستقبل کے بارے پوچھے جانے پر ان کا جواب تھا ’’وقت بتائے گا، ہمارے پاس انتخابات کے لیے تقریباً ایک سال باقی ہے‘‘۔ اپنے حلیف کے تئیں اس جواب کے ہر لفظ سے گھمنڈ کی بو آتی ہے۔ اس ردعمل سے ڈی جے کمار کے الزام کو تقویت ملتی ہے کہ ’’اناملائی کسی پارٹی کے ریاستی صدر بننے کے اہل نہیں ہیں۔ انہیں ان کی باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جے کمار نے شبہ ظاہر کیا کہ اناملائی نہیں چاہتے کہ اتحاد جاری رہے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی دوبارہ کامیابی حاصل کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جے للیتا کی معاون وی کے ششی کلا اور چند دیگر افراد کو سپریم کورٹ نے غیر متناسب اثاثہ جات کیس میں مجرم قرار دیا تھا۔ اس مقدمہ میں سابق وزیر اعلیٰ مرکزی ملزم تھیں، لیکن حتمی فیصلے سے قبل وہ دارِ فانی سے کوچ کرگئیں لہٰذا انہیں تکنیکی طور پر مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ریاستی بی جے پی سربراہ کے اقدامات سے اکثر اے آئی اے ڈی ایم کے کیمپ میں شکوک پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ آیا سابق آئی پی ایس افسر کہیں مرکزی قیادت کی ترجمانی تو نہیں کر رہے ہیں۔
دلی میں وزیر اعظم مودی نے پنڈت نہرو کو دیے جانے والے طلائی سینگول کو نئے ایوانِ پارلیمان میں نصب کرکے تمل عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور اقتدار کی علامت کے آگے سجدہ ریز ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ ان کے لیے کرسی ہی سب کچھ ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے امیت شاہ نے مدورائی کی تقریب میں نیو جسٹس پارٹی کے بانی اے سی شانموگم کے ہاتھوں چاندی کا سینگول وصول کرکے اس ناٹک کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 2024 میں این ڈی اے کے پچیس سے زیادہ ساتھی نئی کابینہ میں نریندر مودی کے ساتھ حلف لیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ساورکر کی سالگرہ، سینگول اور تمل سادھو سنت سب ایوان پارلیمنٹ میں اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کا وسیلہ ہیں، ان کا ہندو راشٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ آخر سینگول کو الہ باد کے میوزیم سے کیوں دریافت کیا گیا؟ وارانسی کے پنڈتوں کے بجائے تمل ناڈو کے سادھووں کو کیوں زحمت دی گئی۔ ملک کے دانشور دراصل اسے ہندو راشٹر کی بنیاد قرار دے رہے تھے حالانکہ وہ تو سیدھا سیدھا انتخابی حربہ تھا۔ کرناٹک میں اگر گجرات جیسی کامیابی مل گئی ہوتی تو شاید اس کی ضرورت بھی نہیں پیش آتی۔اس طرح یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے دکھانے کا دانت ہندوتوا ہے اور کھانے کا دانت اقتدار ہے۔ عام طور سے لوگ ان دونوں کے درمیان کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ سینگول بھی دکھانے کا دانت ہے لیکن اس راز کو فاش کر کے امیت شاہ نے سیلف گول کردیا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023