ایغور مسلمانوں کے معاملے پر اقوام متحدہ کی چین پر تنقید، رپورٹ جاری کی
نئی دہلی، ستمبر 1: اقوام متحدہ نے چین پر سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی رپورٹ پر "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں” کا الزام لگایا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی انتہائی اہم رپورٹ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف زیادتی اور بدسلوکی کیے جانے کے معاملے کو انتہائی حساس بتایا ہے جس کی چین نےتردیدکی ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ چین فوری طورپر "تمام افراد کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔” ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ چین کے کچھ اقدامات "بین الاقوامی جرائم کمیشن بشمول انسانیت کے خلاف جرائم” کے زمرے میں آسکتے ہیں۔
بی بی سی نے اس تعلق سے جاری اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے یہ یقینی طور پر نہیں بتایا ہے کہ حکومت نے کتنے لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا تخمینہ ہے کہ شمال مغربی چین کے سنکیانگ علاقے کے کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کوبے جا طریقے سے حراست میں رکھا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ چین نے اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں رپورٹ جاری نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ چین نے اسے مغربی ممالک کی طرف سے منظم "تماشہ” قرار دیا تھا۔
دوسری جانب، تفتیش کاروں نے کہا کہ انھوں نے تشدد کے "معتبر ثبوت” کا انکشاف کیا ہے، جو ممکنہ طور پر "انسانیت کے خلاف جرائم”کے زمرے میں آتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے چین پر اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے اور "من مانی حراستی نظام” قائم کرنے کے لیے مبہم قومی سلامتی کے قوانین کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ "بدسلوکی” کی گئی ہے، جس میں "جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات” شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں جبری طبی علاج، "خاندانی منصوبہ بندی اور پیدائش پر قابو پانے کی پالیسیوں کے امتیازی نفاذ” کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے سنکیانگ میں تقریباً 1.2 کروڑایغورہیں جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ رپورٹ میں شامل مسائل سے غیر مسلم ارکان بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل بہت سے ممالک سنکیانگ میں چین کی حرکتوں کونسل کشی قرار دے چکے ہیں، لیکن چین بدسلوکی کے الزامات کو مسترد کرتا رہاہے اور اس کی دلیل ہے کہ یہ کیمپ دہشت گردی سے لڑنے کے لئے ایک بنیادی آلہ ہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں چین کے وفد نے رپورٹ کے نتائج کو مسترد کر دیا۔
چین نے اسے اپنے ممالک کو بدنام کرنے کی سازش اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ چین نے کہا "یہ نام نہاد ‘تشخیص’ ایک سیاسی دستاویز ہے جو حقائق کو نظر انداز کرتی ہے اور سیاسی ہتھیار کے طورپر انسانی حقوق کا استعمال کرنے کے لئے امریکہ، مغربی ممالک اور چین مخالف قوتوں کے ارادے کو پوری طرح بے نقاب کرتی ہے۔”
قابل ذکر ہے کہ رپورٹ 2018 سے چار سال تک کام کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے آخری دن جاری کی تھی۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایغور مسلمانوں کے خلاف زیادتی اوربدسلوکی کے الزامات میں ان کی مدت کار حاوی رہی ہے ۔ محترمہ بیچلیٹ کے دفتر نے اشارہ کیا کہ سنکیانگ میں نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات ایک سال پہلے سے جاری تھیں۔