شب قدر

اس رات کے خیر سے محرومی سب سے بڑی بد قسمتی

یہ وہ مبارک رات ہے، جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ یہ رات اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے، اس کام کے لحاظ سے ، جو اس رات میں انجام پایا، ان خزانوں کے لحاظ سے ، جو اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور حاصل کیے جاتے ہیں، ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات قیام کرے اس کو سارے گناہوں کی مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ ہر رات کی طرح اس رات میں بھی وہ گھڑی ہے، جس میں دعائیں قبول کرلی جاتی ہیں اور دین و دنیا کی جو بھلائی مانگی جائے وہ عطا کی جاتی ہے (مسلم:جابرؓ) اگر آپ اس رات کے خیر سے محروم رہے تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی ۔ (ابن ماجہ: انس بن مالکؓ)
یہ رات کون سی رات ہے؟ یہ ہم کو یقینی طور پر نہیں بتایا گیا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری عشرہ کی کوئی طاق رات ہے، یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں یا انتیسویں۔ بعض احادیث میں کہا گیا ہے کہ یہ آخری عشرہ کی کوئی ایک رات، یا رمضان المبارک کی کوئی بھی رات ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے اور اگر اس رات قیام اور عبادت کا اہتمام کرلیا جائے تو کافی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بعض صحابہؓ اور صلحا کی روایات سے ستائیسویں رات کی تائید ہوتی ہے لیکن میرے خیال میں اس رات کا واضح تعین نہ کیے جانے میں ایک گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں یہ رات معلوم ہے اور یہ ستائیسویں رات ہے تو یہ حکمت ضائع ہوجاتی ہے۔
اس کو پوشیدہ رکھنے کا راز یہ ہے کہ آپ اس کی جستجو اور تلاش میں سرگرداں رہیں، محنت کریں، اپنی آتش شوق کو جلتا رکھیں۔ آخری عشرہ کی ہر طاق رات میں اسے تلاش کریں، اس سے زیادہ ہمت ہوتو اس عشرہ کی ہر رات میں اور اس سے بھ زیادہ ہمت ہوتو رمضان کی ہر رات میں۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور پیاری ہے وہ یہ کہ بندہ اس کو خوش کرنے کے لیے اور اس کی رحمت اور انعامات کی طلب اور شوق میں، ہر وقت ہمہ تر جستجو بنارہے، مسلسل کوشش میں لگا رہے۔ اگر معلوم ہو کہ یہ رات کون سی ہے تو سعی و جہد کی جوکیفیت مطلوب ہے وہ ہاتھ نہ آئے گی۔
اس رات کے قیام میں وہ سارا خیر و برکت تو حاصل ہوگا ہی ، جو کسی بھی رات کے قیام سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ایک طرف تو اس عام خیر و برکت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے ، دوسری طرف مزید خیر و برکت کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔ پورا رمضان المبارک ہماری امت پر اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے ہمارے لیے کم وقت اور مختصر عمل میں وہ ثواب اور اجر رکھا ہے ، جو دوسری امتوں کو طویل مدت اور بہت عمل سے حاصل ہوتا تھا۔ ارشاد نبویؐ کے مطابق اس کی مثال ایسی ہے کہ امت مسلمہ کو عصر سے مغرب تک محنت کرکے اس سے کہیں زیادہ مزدوری ملتی ہے جتنی یہودیوں کو فجر سے ظہر تک اور عیسائیوں کو ظہر سے مغرب تک کام کرکے ملی۔ (بخاری: ابن عمرؓ) شب قدر ہمارے رب کی اس خصوصی رحمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
چناں چہ آپ کمر ہمت کس لیجیے! کوشش کیجیے کہ کم سے کم آخری عشرہ کی ہر طاق رات اللہ کےحضور قیام و صلوۃ، تلاوت و ذکر اور دعا و استغفار میں گزاریں۔ پوری رات ممکنہ نہ ہوتو نصف شب کے بعد سحری تک دو تین گھنٹے گزاریں۔ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں، سجدہ میں پشیانی زمین پر ٹیک دیں، روئیں اور گڑگڑائیں، اپنے گناہوں سے استغفار اور توبہ کریں۔
قبولیت دعا کی خصوصی گھڑی تو ہر شب آتی ہے، لیکن شب قدر میں اس گھڑی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے، اس کی شان اور تاثیر ہی جدا ہوتی ہے۔ وہ گھڑی نہ معلوم کونسی ہو ، اسی لیے نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ کو ایک مختصر مگر بہت جامع دعا سکھائی تھی، جو اس رات میں آپ بھی کثرت سے مانگیں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (احمد، ترمذی)
میرے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو محبوب رکھتا ہے، پس مجھے معاف کردے‘‘۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022