غزوۂ بدر :ایمان کی معراج اور نصرت الٰہی
غلبہ اسلام کی جدوجہد ثابت قدمی سے جاری رکھنے کا درس
امجد عباسی
غزوۂ بدر وہ معرکہ ہے جسے یوم الفرقان، یعنی حق اور باطل کا فرق کردینے والا دن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آزمایش اتنی کڑی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے رب کو پکارا اور فریاد کی کہ: ’’خداوندا بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی‘‘۔ گویااس آزمائش کے موقع پر نبی اکرمؐ کے بس میں جو کچھ تھا وہ آپؐ نے پیش کر دیا اور پھر اللہ سے نصرت چاہی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کن حالات کا سامنا تھا اور آپؐ کس آزمائش سے دوچار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ آپؐ نے محسوس فرمایاکہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے، جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کرڈالا یا تو تحریکِ اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اُٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔
نئے دارالہجرت میں آئے ہوئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سروسامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسرِ مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود، گردوپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچاکر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اُکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جاے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اُٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۱۲۴)
اللّٰہ کی مدد
۱۷رمضان ۲ ہجری میں بدر کے میدان میں پیش آنے والا یہ معرکہ کوئی معمولی معرکہ نہ تھا۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرّار تھا اور دوسری طرف ۳۱۳ ؍ اہلِ ایمان تھے جن کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۷۰ اُونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین اور چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامانِ جنگ بھی ناکافی تھا۔ صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان تھا اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہ تھا۔ گویا یہ موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔
اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی مدد اور نصرت سے نوازا اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور وہ موقع، جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمھیں خوش خبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ زبردست اور توانا ہے۔
اور وہ وقت، جب کہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہاتھا ، اور آسمان سے تمہارے اُوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔
اور وہ وقت، جب کہ تمھارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑجوڑ پر چوٹ لگائو‘‘۔یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے….
پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمایش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینا اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔(الانفال ۸: ۹-۱۳، ۱۷)
قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ بدر میں اہلِ ایمان کی کس طرح مدد کی۔ ان کی ہیبت دشمن پر طاری کردی اور دشمنانِ اسلام کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اہلِ ایمان کو کم دکھائی۔بارش کے ذریعے مسلمانوں کے قدم جما دیے اور کفار کی طرف زمین میں کیچڑ سے پائوں دھنسنے لگے۔ خود فرشتوں نے اہلِ ایمان کی قتال میں مدد کی۔ جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھت الوُجُوہ (چہرے بدنما ہوجائیں)کہہ کر پھینکی اور مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوگئے اور بالآخر سرخرو ہوئے۔
اھلِ ایمان کی کڑی آزمایش
’’اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرینِ مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی، اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمایش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تُل گئے ہوں۔
انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقت ور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔
یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخرکار ان لوگوں کی صداقت ِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرورِ طاقت کے باوجود ان بے سروسامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گل ہاے سرسَبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابلِ لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیساکہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے، ’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعدوہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۱۲۶-۱۲۷)
آج بھی معرکۂ حق و باطل برپا ہے۔ اہلِ ایمان، اہلِ باطل اور اسلام مخالف قوتوں کے تمام تر جبر، ظلم و ستم، سفاکیت اور سازشوں کے اسلام کے غلبے کی جدوجہد کو منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس راہ میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی منتظر ہے! شہدا کی یہ ایسی فصل ہے جو ایک طرف شہادتِ حق کے علَم برداروں کی ہے جو حق کی گواہی دے رہے ہیں، اور دوسری طرف اپنی جان راہِ خدا میں لٹاکر شہادت کی منزل پانے والوں کی ہے۔ تمام تر سفاکیت کے باوجود یہ فصل کٹنے میں نہیں آرہی، بلکہ عزیمت و استقامت کی ایک ایسی داستان ہے جو اہلِ ایمان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کی سازشوں سے بچتے ہوئے اور پائے استقامت میں لغزش لائے بغیر اس جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص اور اللہ کے سوا ہرشے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنا ہی جنت کا راستہ اور نصرتِ الٰہی کے قانون اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ بقول اقبال:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
(ماہنامہ ترجمان القرآن،جولائی ۲۰۱۵)
***
اللہ کی راہ میں جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص اور اللہ کے سوا ہرشے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدوجہد جارaی رکھنا ہی جنت کا راستہ اور نصرتِ الٰہی کے قانوان اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022