نعیم جاوید،سعودی عرب
ڈائریکٹر ادارہ ’ہدف‘ شخصیت سازی
جب خانہ کعبہ کی تعمیر کا وقت آیا تب سیدنا ابرھیمؑ اور ان کے صاحبزادے اسمعیلؑ نے ربِ کائنات سے ایک دعامانگی تھی کہ انسانوں کے’تزکیہ‘ کی مہم کے لیےایک نبی بھیج جو حکمت ماٰب زندگی جینے کا سلیقہ سکھادے۔ ربّ ِ کعبہ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان الفاظ کو پوری کائنات کی گونج بنادیا۔ اس کی رحمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ انسانی سماجی کو ایک حسین ترین مرقع بنادے۔ فرد کا نکھرا ہوا کردار کائنات کے حسن سے جڑجائے۔
تزکیہ کے معنی ہی نمو، ترقی اور اس میں برکتوں کے نزول ہیں۔ اپنی ذات کے کھوٹ کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کرنا پھر فطری رنگ و نور میں رچ بس جانا ہےہی تزکیہ نفس ہے۔ تربیت کے کساو کے سبب ذہن و دل کا حقیقی مہک پاجانا ہی فوز و فلاح کا مقام ہے۔
خیر کا دائمی حسن جب کسی شےکے اندر سے ابھرتا ہے توشرکی شورشیں رسوا کن انجام کو پہنچتی ہیں۔ تربیت کے نتیجہ میں انسانی نفس و کردار کی خوش بو پورے سماج میں محسوس کی جاتی ہے۔ایک سادہ سی بات ہے کہ کھرے سکوں میں اگر کھوٹے سکے ملادیے جائیں تو کھرے سکوں کا اعتبار نہیں رہتا۔اس لیے فطرت کھوٹ چھانٹتی رہتی ہے۔ صرف انسان کو یہ اختیار کی نعمت حاصل ہے کہ وہ تزکیہ و تربیت کا کوئی نظام اپنے لیے منتخب کرے۔
اسلام نے نصاب زندگی کو جو روشن باب دیے ہیں ان میں ’’نفس کے تین پڑاو ‘‘ ہیں۔ میری نظر میں نفس کا مطالعہ اسٹاک مارکیٹ اور عالمی منڈیوں کے مطالعہ سے اہم ہے۔ جس پر اگرہماری گہری گرفت ہوجائے تو نفسیاتی ہنگام کو آسودگیوں کی بشارتیں ملیںبلکہ دنیا کا ہر فرد نفس کے تہلکوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچنے کے فن سے محروم نہ ہو۔ کسی کا بلا عنوان غم نہ ہو، بلا سبب ذہنی خلجان نہ ہو اور بے معنی زندگی نہ ٹہرے۔ جدھر سے دیکھو زندگی ایک اجلا سچ نظر آئے۔ رخ ِ حیات روشن دلیلوں سے دمک اٹھے۔ اس سلسلے میں پہلا مرحلہ’’ نفس امارہ ‘‘کا ہے۔ قرآن کی زبان میں
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ۔۔(بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے۔)
نفس امارہ جو طیش میں لاتا ہے۔ گناہوں پر اتاولا ہوتا ہے، پل پل کر شرمناکیاں اپناتا ہے۔ جلد بازی کی روش کے سبب ٹھوکریں کھاتا ہے۔ جذبات کی پیشوائی میں پورے حواس کو لگا دیتا ہے۔ عقل سلیم کو ٹھکراتارہتا ہے۔ اس پر قابو پانا قدرے مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔سقراط کابھی ایک دانش اساس قول ہے کہ ’’جذبات کا تزکیہ کمال کی منزل ہے‘‘اور ۔ بقول شیخ ابرھیم ذوق ؔعلیہ رحمہ کے؎
بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
انسانی ذات میں دوسرا پڑاو ’ نفسِ لوامہ‘ ہے جو ہر بھول چوک پر ملامت کرتا ہے۔ ہر لغزش پر دل کا دروازہ کھٹکتاتا ہے۔ تنبیہ و تاکید کرتا ہے۔ جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔یہ ذات کے چھپی دنیا کا ایسا لوہار ہے جس کے گھن کی ضربیں بار بار ایسے ہتھوڑے مارتی ہیں کہ گناہوں کی تمنائیں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتی رہتی ہیں۔ رب ِ رحیم نے ذات کے نہاں خانے میں ایک ایسی توانائی رکھ دی ہے جو گناہ کے بعد گناہ گار کا باطن انگاروں پر لوٹنے لگتا ہے۔ ہر انسان کا ضمیر بہت سخت جان ہوتا ہے۔ اس کو گناہوں کی عادتیں، لت بھی بن جائے تب بھی کچوکے لگانا نہیں بھولتا ہے۔ یہ احساس اتنا قیمتی ہے کہ سرسے پیر تک گناہ آلودہ وجود بھی رب کی اس رحمت کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ ہاں! کروڑوں کی بھیڑ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ضمیر کو مارڈالتے ہیں۔ کبھی ان کا معاشرہ اس کو روز اول سے تیزاب میں ڈال کر خیر کی بنیادی اقدار کو بدشکل بنا دیتا ہے۔ کبھی تعبیرات کی دھاندلی سے ۔ کبھی ہوسناکیوں سے اٹی زندگی کے سبب چند اہم قدریں پامال ہوجاتی ہیں ۔ لیکن اس زمین کی وسعت اور انسانوں کی جل تھل میں آج بھی ایسی کوئی آبادی نہیں جس میں ’حسن ، خیر اور صداقت‘ کے بنیادی قدروں کو مکمل طور پر پامال کردیا گیا ہو۔ ایک نیکی مار دے تو کوئی اور سماجی خیر اس کی جگہ لے لیتی ہے۔صرف ترجیحات گتھم گتھا ہوجاتی ہیں۔
جو لوگ اپنی زندگی میں نفسِ لوامہ کی آبیاری نہیں کرتے وہ ضبط نفس کے کچے منصوبے پامال کرتے ہیں ۔ انہیں کہیں رشوت کالالچ ایمان فراموشی پر آمادہ کرتا ہے۔ کہیں ہوس کی رنگیناں اپنی کشش سے خیر کے منصوبے بھلا دیتی ہیں۔ ان کی شخصیتوں کا بودا پن امارہ کے حملوں سے بکھر جاتا ہے۔ ان کے جرائم کا نگارخانہ اور زیادہ رنگین ہوجاتا ہے جب انسان کی اختیارات کی دنیا وسیع ہوجاتی ہے۔ جیسے حکومتوں کا ظلم، سرمایہ داروں کا جبراور عالمی اداروں کا قہر ۔ ہر شرکی شورش تزکیہ نہ ہونے کے سبب پھلتی پھولتی ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل ایک ایسانصاب تربیت لاتا ہے جس میں فکرانگیز شب بیداریاں جہاں فہم قرآن کی سبب بنتی ہیں، مشقت کی راہوں سے گزار کر ہر فرد کے انفرادی بگاڑ کو بہت کچھ اشارے دیے جاتے ہیں۔ منہ زوریوں کی روک ہوتی ہے۔ جذبات پر لگام اور اسراف پر قد غن ۔یعنی ذہن سے لے کر بدن تک اور پھر پورے معاشرے کا تزکیہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ہر فرد کا ایک مرکزی بگاڑ ہوتا ہے۔ کہیں خدا سے دوری، کہیں مال سے لالچ کے سبب سے لگاو، کہیں خوش خوری و پر خوری، کہیں غیر روحانی زندگی بلکہ بے خدا زندگی ۔ اس لیے ماہِ رمضان تزکیہ کے ہر امکان کو روشن رکھتا ہے۔ رمضان میں بظاہر سب ایک طرح کی سرگرمی میں کوشاں رہتے ہیں لیکن ہر فرد کی کسی نہ کسی کمزوری کو توانائی میں بدلنے کا یہ نظام لاتاہے۔
نظام تربیت کی گزر کا نفس کا وہ آخری پڑاو ملتا ہے جس کو ’’نفس مطمئنہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنی ذات میں چھپے نفس ِ امارہ کو نفسِ لوامہ کی مدد سے روند کر ایسا قرار آفریں و پر سکون بنا دیتا ہے۔ جس پر رب العالمین اپنی رضا اور خوشی کا اظہار کرکے جنتوں کی بشارت دیتا ہے۔ اس ترتیب کو اگر سمجھ لیا جائے اور برتنے کے گر آجائیں تو اضطرب کی گھڑیو ں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ امارہ کی قید میں یا لوامہ کی معاونت میں یا نفس مطمئنہ کی پناہوں میں۔ اس سے ہٹ کر نفس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان مراحل کا ادراک انسانی الجھنوں کی ہر گتھی کا یقینی حل ہے۔
[email protected]
Contact: 00966503629674
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022