ابو حرم ابن ایاز عمری
ہسپانوی فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ ’لوئیس روبیالز‘ اور بھارت کے’ برج بھوشن شرن سنگھ‘
کھیلوں میں سیاسی دخل اندازی ہونی چاہیے یا نہیں اور اس کی کیا تحدیدات ہیں یہ جاننا ضروری ہے
کھیل اور سیاست دونوں اگرچہ الگ الگ میدان ہیں اور ان کے حدود اربعہ بھی مختلف ہیں لیکن دور جدید میں نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی پیمانے پر یہ دونوں میدان ایک دوسرے میں اس قدر گڈ مڈ ہو گئے ہیں کہ کھیلوں میں سیاست کی جا رہی ہے اور سیاست میں کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ سیاست میں کھیل کھیلنا تو پرانا سلسلہ ہے لیکن حقیقی کھیل کے میدان میں ناپاک اور سیاسی کھیل کھیلنے کا سلسلہ نیا ہے۔ کھیل نہ صرف ذہنی و جسمانی صحت کا ضامن ہیں بلکہ کئی ملکوں کی اقدار اور ساکھ بھی اسی پر منحصر ہے۔ لیکن ہمارے ملک کا معاملہ ہی نرالا ہے۔ یہاں خواتین کو اونچا اٹھانے کے نعرے تو خوب لگائے جاتے ہیں مگرساتھ ہی انہیں ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ جو خواتین ملک کا نام روشن کرنے کے لیے میدان میں آئیں انہیں اسی میدان میں روند دیا جاتا ہے۔ نہ ان کی عزت باقی رہتی ہے نہ عصمت محفوظ رہتی ہے۔ اور یہ کن کے ہاتھوں؟ یہ انہیں کے ہاتھوں ہوتا ہے جو ان کے نام نہاد سرپرست بنے پھرتےہیں۔ اور اگر وہ خواتین اس پر احتجاج کریں تو ان پر لاٹھیاں اور ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت فوری ایکشن لیتی اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچاتی لیکن شومئی قسمت کہ الٹا ان بے بس و مظلوم خواتین کو ہی مجرم بنا دیا گیا اور ملزموں کی پشت پناہی کرنے لگ گئی۔ اس کے بعد ملک کا کون سا شہری ہے جس کا سر شرم سے نہ جھک گیا ہو۔ اس کے بالمقابل اسی طرح کا معاملہ جب کسی دوسرے ملک میں پیش آتا ہے تو وہاں کا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
بات اس اسپین کی ہے جہاں ایک وقت صرف اسلام اور مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا۔ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی قربانیوں کے بعد وہاں کی کئی نسلیں صدیوں تک اسلام کی پیروی کرتی رہیں۔ لیکن قانونِ فطرت تو طے ہے کہ ہر عروج را زوال است۔اس سر زمین پر مسلمانوں کی حکومت کا تو زوال ہوگیا، لوگوں نے اپنا دین دھرم بھی تبدیل کرلیا اور نت نئی برائیاں اور بے حیائیاں اس معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں لیکن ہسپانویوں کے اندر عربوں کے اخلاقی اقدار کی کچھ جھلکیاں آج بھی پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں اسپین کی خواتین فٹ بال ٹیم نے سڈنی، آسٹریلیا میں منعقدہ فیفا ویمنز ورلڈ کپ کے فائنل مقابلے میں انگلستان کی ٹیم کو صفر ایک سے شکست دے کر تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ اپنے نام کرلیا جس پر سارے ہسپانوی خوشی سے جھوم اٹھے اور خوب جیت کا جشن منایا۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن جب تقسیم انعامات اور گولڈ میڈلز وغیرہ دے جانے کی تقریب منعقد کی گئی تو اسی دوران اسٹیج پر تمام ناظرین اور ٹیلی ویژن کیمروں کے روبرو ہسپانوی فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ لوئیس روبیالز نے جینی ہرموسو نامی ایک خاتون کھلاڑی کو سر عام ہونٹوں پر بوسہ دے دیا جو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا۔ اس وقت تو جینی کچھ نروس ہوئیں مگر خاموش رہیں لیکن اس فعل پر اسپین کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر غصے اور نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ وزرا اور کھلاڑیوں سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے روبیالز کی اس حرکت کو غیر اخلاقی بلکہ جنسی ہراسانی پر محمول کرتے ہوئے سخت نوٹس لیا اور ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ بعد ازاں خاتون کھلاڑی جینی ہرموسو کی جانب سے بیان آیا کہ وہ اس بات کی توقع ہی نہیں کر رہی تھیں کہ ان کے ساتھ سر عام ایسا بھی ہوسکتا ہے، اور اس لمحے جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو انہوں نے خود کو نہایت ہی بے بس محسوس کیا۔ انہوں نے ڈبلیو ٹی اے اور اپنی ایجنسی کے ذریعہ دیے گئے مشترکہ بیان میں کہا کہ میں اپنی فیڈریشن اور ایجنسی کے تعاون سے اپنا دفاع کر رہی ہوں۔ ان لوگوں نے اس معاملے میں میری نمائندگی کرنے والے مکالمے کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیوں کے مرتکب افراد سزا سے بچ نہ سکیں۔ خواتین فٹبالرز کو ایسے معاملات سے بچانے کے لیے روک تھام کے ایسے اقدامات کیے جائیں جو ہمارے خیال میں قابل قبول ہوں۔
جس کے سر پر اقتدار کا نشہ چھایا ہوا ہو وہ استعفیٰ جیسے مطالبے کو محض گیدڑ بھپتیاں شمار کرتا ہے، چنانچہ رائل اسپانیش فٹ بال فیڈریشن (RFEF) کے صدر لوئیس نے بھی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے عمل پر پچھتانے کے بجائے تاویلات پیش کرنے لگا کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں جنسی جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی میں کیا جانے والا تھا بے ساختہ عمل تھا۔ مگر آفرین ہے اسپین کے کھلاڑیوں اور عوام پر کہ انہوں نے اس واقعہ کو ہلکے میں نہیں لیا اور مسلسل استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہے، یہاں تک کہ تقریباً 81 اسپینی کھلاڑیوں نے اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے اعلان کیا کہ جب تک لوئیس اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے تب تک وہ اپنے ملک کے لیے نہیں کھیلیں گے۔ ان 81 کھلاڑیوں میں 23 کھلاڑی ایسے بھی تھے جو عالمی فاتحین (World Cup Winners) رہ چکے ہیں۔
اس قدر شدید احتجاج کے باوجود روبیالز لوئیس، جینی مرموسو پر ہی جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے رہے جبکہ ان کا کردار پہلے سے ہی مشکوک تھا۔ ان کی بعض نا زیبا حرکتوں کی وجہ سے فیفا نے انہیں پہلے ہی عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ اب اس موقع پر جب ہر طرف سے شدید احتجاج ہونے لگا تو ان کی والدہ کے علاوہ ان کے حامی، جنہوں نے جنوبی اسپین کے ایک چرچ میں مختصر مدت کے لیے بھوک ہڑتال بھی کی تھی، انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ ان میں اسپین کی خواتین اور مردوں کی ٹیموں کے کوچز بھی شامل تھے۔ ان کی اپنی فیڈریشن نے بھی انہیں عوامی طور پر استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیا۔
جب اسپین کے سرکاری استغاثہ نے ان کے لیے مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے کا اعلامیہ جاری کیا اور یہاں تک کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ممکنہ قید کی سزا بھی دیے جانے کا اعلان کیا تب کہیں جا کر اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا اور روبیالز نے استعفیٰ دے دیا۔ اب اسپین کی عدالت میں باقاعدہ سماعتیں شروع ہو چکی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جرم ثابت ہونے پر سزا بھی سنا دی جائے۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں ریسلر خواتین نے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے اور ایک نابالغ لڑکی کے جنسی استحصال کا بھی الزام لگایا اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تو حکومت نے ان کی شکایت پر کان نہیں دھرا۔ نتیجے میں ان خاتون پہلوانوں کو انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کا سہارا لینا پڑا۔ اور جب انہوں نے پُر امن مارچ نکالنے کی کوشش کی تو ان کی لاٹھیوں و ڈنڈوں سے تواضع کی گئی۔ یہاں تک کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگانے والے پی ایم مودی نے بھی اپنے ہونٹ سی لیے اور خاموشی سے خواتین ریسلروں کو مار کھاتا ہوا دیکھتے رہے۔ اگرچہ انوراگ ٹھاکر کی زیر قیادت کھیلوں کی وزارت نے الزامات کی جانچ کرنے کے لیے ایک داخلی نگرانی کمیٹی قائم کی، جس کی سربراہی میری کوم کے ذمہ دی گئی جو کہ بھارت کی سب سے مشہور کھلاڑی ہیں۔ لیکن یہاں بھی المیہ یہ رہا کہ کمیٹی کی جانب سے اپریل 2023 میں پیش کی گئی رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اور میری کوم نے خود خاموشی اختیار کر لی۔
اسپین میں جب اسی قسم کا معاملہ پیش آیا تو وہاں کی کئی کھلاڑیوں نے بھی زبردست احتجاج کیا اور عوام نے بھی احتجاج کیا۔ جینی ہرموسو کی قومی اور بارسلونا ٹیم کی کھلاڑی ایتانا بونماٹی نے یو ای ایف اے ’ویمنز پلیئر آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہسپانوی فٹ بال کے لیے صحیح نہیں ہوا۔ ایک معاشرے کے طور پر ہمیں کسی بھی شخص کو طاقت کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی بے عزتی کے مظاہرے کی اجازت دینا چاہیے۔ ان تمام خواتین کے لیے جو جینی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر صدمے میں ہیں، ہم ان سب کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
بونمتی جب یہ ایوارڈ وصول کر رہی تھیں تو وہ اس وقت اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی تھیں یا کریڈیٹ کسی اعلی اہلکار کو دیتے ہوئے ان کی رضامندی حاصل کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے بحیثیت کھلاڑی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے جینی کا ساتھ دینے کے لیے خود کو میسر سب سے بڑے پلیٹ فارم کا استعمال کیا اور اپنا احتجاج درج کروایا ۔
اس کے بالمقابل ہمارے ملک کی ایک بڑی ’اسپورٹس اسٹار‘ جو برج بھوشن شرن سنگھ کے معاملے پر لب کشائی کرنے کا اختیار رکھتی تھیں وہ پی ٹی اوشا تھیں، جو انڈین اولمپک ایسوسی ایشن (IOA) کی پہلی خاتون اور موجودہ سربراہ تھیں، انہوں نے الٹا احتجاج کرنے والی خاتون پہلوانوں پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ لوگ ملک کی شبیہ خراب کر رہے ہیں اور ان کے منظم احتجاج کو ’بے نظمی‘ قرار دیا۔
اس موقع پر یہ جان کر تعجب نہیں کیا جانا چاہیے کہ میری کوم اور پی ٹی اوشا دونوں ہی ممبران پارلیمنٹ ہیں، جنہیں بی جے پی نے نامزد کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کی وفاداری نے ان کے اندر سے احساس ذمہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ معروف پہلوان جیسے یوگیشور دت اور ببیتا پھگٹ نے بھی جو اب بی جے پی لیڈر ہیں، خواتین کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر تنقید کر دی، جبکہ ببیتا کی بہن سنگیتا اور کزن ونیش مظاہرین میں شامل تھے۔ آج پارٹی کی وفاداریاں اپنے کھیل، پیشے بلکہ خون سے بھی زیادہ اہم ہوگئی ہیں!
ایک طرف ایک یورپی ملک میں جب کسی ایک کھلاڑی پر آفت آتی ہے تو سب مل کر باہمی اتحاد کا ثبوت دیتے ہیں اور حکومتیں بھی ان کی باتوں کو اہمیت دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور مثبت نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ملک میں مظلومین کو ہی مجرم بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ کھیل میں سیاست کا عمل دخل کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کھیل میں سیاست ہونی چاہیے یا نہیں اور اگر ہونی چاہیے تو کس قدر؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کھیل میں سیاست کی دخل اندازی کبھی جزوی ہوتی ہے تو کبھی لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک مستقل بحث کا موضوع ہے جس میں طرفین کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ کھیل میں سیاست کی دخل اندازی کی حمایت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے بہتر نمائندگی اور سماجی مسائل حل ہو سکتے ہیں، ضرورت پڑے تو آسانی سے کسی کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے اور پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں اور بین الاقوامی تعلقات بھی بہترین طریقے سے استوار کیے جاسکتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کھیل کھلاڑیوں کو سماجی اور سیاسی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ کھیلوں میں سیاسی اظہار کی اجازت دینے سے نسلی ناانصافی، صنفی مساوات یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے اہم معاملات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ نیز سیاست کو کھیلوں میں غیر اخلاقی رویے میں ملوث ممالک یا تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کھیلوں میں بائیکاٹ اور پابندیاں امتیازی سلوک، ڈوپنگ کی خلاف ورزی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنسی ہراسانی جیسے معاملات کے خلاف احتجاج کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سیاست کی دخل اندازی کی وجہ سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں یہی سیاست ایک سے زائد ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کھیلوں کی تقریبات قوموں کے لیے پرامن مقابلے میں مشغول ہونے اور سفارت کاری کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
دوسری طرف کئی ایسے افراد اور دانشور حضرات بھی ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں کہ کھیلوں میں سیاست کی دخل اندازی ہونی ہی نہیں چاہئے ۔کیونکہ کھیلوں کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک، غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ خیال یہ ہے کہ کھیل لوگوں کو ان کے سیاسی نظریات سے قطع نظر ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں، جبکہ دونوں کو ملانا تقسیم اور تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔اورجب سیاست کھیلوں کے میدان میں داخل ہوتی ہے تو کھیل کی حقیقی روح ختم ہوجاتی ہے اور یہ چیز کھلاڑیوں کی کامیابیوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ یہ کھیلوں کو خود ان کے بنیادی مقصد سے ہٹا سکتی ہے، جو کہ تفریح اور مقابلے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔نیز اس بات کے خدشات بھی رہتے ہیں کہ کھیلوں میں سیاست کو منتخب طور پر لاگو بھی کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں سیاست کی کب اور کیسے اجازت دی جاتی ہے اس بارے میں فیصلوں میں عدم مطابقت اور تعصب پیدا ہوتا ہے۔ اس سے انصاف اور مساوات پر بھی ممکنہ سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
بالآخر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاست کو کھیلوں میں کس حد تک دخل اندازی کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے، یہ ایک نقطہ نظر کا معاملہ ہے اور مخصوص حالات اور واقعات پر بھی منحصر ہے۔ کچھ کھیلوں کی تنظیموں کے سیاسی اظہار کے خلاف واضح اصول ہیں، جبکہ دیگر انہیں مختلف ڈگریوں کی اجازت دیتے ہیں۔ جو بھی ہو بہرحال یہ ضروری ہے کہ کھیلوں میں سیاسی شمولیت کے ممکنہ نتائج اور مضمرات پر غور کیا جائے اور ایسا توازن قائم کیا جائے جو کھلاڑیوں کے اپنے خیالات کے اظہار کے حقوق اور خود کھیل کی سالمیت دونوں کا احترام کرے۔
اگر وطن عزیز بھارت کی بات کی جائے جہاں مختلف النوع کھیل کھیلے جاتے ہیں اور کھیل کا میدان نہایت ہی وسیع ترین ہے تو ایسے میں سیاست کی بےجا دخل اندازی اور ملزمین و مجرمین کی پشت پناہی اس مفید ترین سیکٹر کو نہایت ہی کمزور کرسکتی ہے ۔اسی طرح یہ چیز نئی نسل کے ابھرتے ہوئے فنکاروں اور کھلاڑیوں کی ہمتیں پست کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے لہذا ایک طرف کھیل اور اس کے مشتقات میں حکومت کا ساتھ اورتعاون ہونا بے حد ضروری ہے تو ساتھ ہی اس میں بدنام زمانہ’سیاست‘ کی عدم شمولیت بھی لازمی ہے کیونکہ اگر لوگ کھیلوں میں سیاست کرنے لگ جائیں اور اس کے ذریعہ کسی کا استحصال ہونے لگے تو پھریہی چیز ترقیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاسکتی ہے لہذا احتیاط بہتر ہے ۔
***
بھارت میں جہاں مختلف النوع کھیل کھیلے جاتے ہیں اور کھیل کا میدان نہایت ہی وسیع ترین ہے ایسے میں سیاست کی بےجا دخل اندازی اور ملزمین و مجرمین کی پشت پناہی اس سیکٹر کو کمزور کرسکتی ہے اور جو نئی نسل کے ابھرتے ہوئے فنکار اور کھلاڑی ہوں گے ان کی ہمتیں پست کرنے کا باعث بن سکتی ہے لہذا کھیل اور اس کے مشتقات میں حکومت کا ساتھ اورتعاون ہونا بے حد ضروری ہے لیکن اس میں اگر بدنام زمانہ لفظ’سیاست‘ کی شمولیت ہوجاتی ہے اور اس کے ذریعہ کسی کا استحصال ہونے لگ جائے تو پھریہی چیز ترقیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاسکتی ہے لہذا احتیاط بہتر ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023