ترکہ کی تقسیم ترک نہ کریں

وارثوں کو شرعی حق سے محروم کرنا اخروی خسارہ کا سبب

سہیل احمد (مظفرپور،بہار)

اس وقت مسلم معاشرے میں اسلامی احکامات کے سلسلے میں بے اعتدالیاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں اور جن مسائل میں غفلت برتی جارہی ہے ان میں سے ایک مسؑلہ وراثت بھی ہے۔ میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اس کی تفصیلات کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ اگر آپ قران مجید میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے نماز، روزہ، زکوٰۃ کی اہمیت اور فرضیت کو بیان کیا لیکن ان کی جزیات بیان نہیں کی مگر میراث کی پوری تفصیل قران حکیم میں موجود ہے۔
تقسیم میراث وہ اہم فریضہ ہے جس میں کوتاہی عام ہے۔ آج یہ معاشرے کا اہم ترین مسؑلہ ہے۔ اگر میراث منصفانہ اور عادلانہ طریقے سے تقسیم کی جائے تو اس میں معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ اس کے ذریعہ سے معاشرے کے اجتماعی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ خاندان مستحکم ہوتا ہے۔ آج حالت یہ ہو چکی ہےکہ لوگ رواج پر تو عمل کرتے ہیں مگر قران مجید کے اس حصے پر عمل بڑی حد تک متروک ہو چکا ہے جس میں آیات میراث بیان کی گئیں ہیں۔
میراث کی اہمیت کے پیش نظر حضور اکرم ﷺ نے علم میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتاےؑ اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وعیدیں سنائیں۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تم علم فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب یہ علم اٹھایا جائے گا اوربہت سے فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی حصہ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان فیصلہ کرے‘‘ تم فرائض (میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاو کہ وہ نصف علم ہے بلا شبہ وہ بھلا دیا جائے گا‘‘ (ابن ماجہ) لہٰذا معاشرے کے اہل علم حضرات کی ذمہ داری ہے کہ علم میراث سیکھیں اور سکھائیں اور اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ معاشرے کی بداعمالیوں کے وبال سے بچ سکیں-
میّت کے مال میں چارحقوق ہیں۔ پہلا حق کفن و دفن کا انتظام ، دوسرا حق اداء قرض ، تیسرا حق وصیت اور چوتھا حق وراثت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میّت پڑی ہو اورکفن دفن سے پہلے ہی ترکہ کی تقسیم کرنے لگو۔ یاد رکھیں کہ جس شخص نے یہ جائیداد کمائی ہے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ اس کے بعد کا مرحلہ ہے قرض کی ادائیگی کا جو کہ دو طرح کا ہے ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔ حقوق اللہ انسان کے مرنے کے بعد ساقط ہو جاتا ہے ۔
حقوق العباد کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ عہد نبوی میں اگر کسی صحابی کا انتقال ہوتا اور ان کے ذمہ قرض رہ گیا ہو اسلامی بیت المال سے یہ قرض ادا کیا جاتا، لیکن اس سے پہلے کیا طریقہ کار تھا ذرا غور کیجیے۔ ایک صحابی فوت ہوگئے ان کا جنازہ ابھی ایک قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ آیا ان کے ذمے کوئی قرض ہے۔ ایک نے کہا دو دینار ہے۔ ابوقتادہؓ آگے بڑھے اور عرض کیا میں دے دوں گا۔ آپ نے قرض دار سے پوچھا گیا کہ آیا اسے منظور ہے اور جب اس نے منظوری دی تو آپؐ نے جنازہ پڑھا۔ اگلے دن ابو قتادۃ ملے تو ان سے قرض کی ادائی کی بابت پوچھا توآپ نے کہا نہیں میں اسے کل دے دوں گا۔ اگلے دن پھر آپؐ نے پوچھا تو پھر انہوں نے جاکر اسے دو دینار دیے اور آپ کو اطلاع دی تب آپﷺ نے فرمایا اب جا کر اس کی روح کو سکون پہنچا ہے۔ قرض کا معاملہ بہت اہم ہے اس کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے۔
اسکے بعد وصیت کا مرحلہ ہے۔ ضروری ہدایت یہ ہے کہ وصیت ایک تہائی سے زائد نہ ہو، وارث کے حق میں نہ ہو اور ضرر رساں نہ ہو۔ کسی کی زندگی میں بیٹا کا انتقال ہو جاتا ہے تو پوتا محجوب ہو جاتا ہے یتیم زندہ ہے بہو کو کچھ نہیں ملتا۔ شاید ہی کوئی ہے جووصیت کرتا ہو، آج اس کا سلسلہ بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی ساٹھ ستر برس کی عمر تک برابر نیکی کرتا رہتا ہے جب اسکی موت کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے اختیار سے غلط وصیت کر کے کسی وارث کو نقصان پہنچا دیتا ہے اس پر اس جرم کی پاداش میں جہنم واجب ہو جاتی ہے (ابوداوؑد) –
کفن دفن ، قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاز کے بعد جو مال بچ جاتا ہے وہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ میراث کے معاملہ میں اوّلین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دو گنا ہے ۔ اللہ نے مردوں کو عورت پر قوّام بنایا ہے- مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کریں جس کو آدھا مل رہا ہے اس کے ذمے اخراجات کوئی نہیں۔ اس کی اور بچوں کی سب کی ذمہ داری شوہر پر ہے پہر بھی اس کو آدھا دیا جا رہا ہے۔ انسان اگر توجہ کرے گا تو ہر سلیم الفطرت انسان گواہی دے گا کہ اسلام کا یہ نظام نہایت عادلانہ ہے – تم حلال کماوؑ اور جائز طریقہ سے خرچ کرو جو بچ جائے گا وہ تمہاری بیوی اور اولاد کے کام آئے گا انہیں کسی کے
سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوگ۔ مرنے کے بعد بیوی بچوں کی کفالت کا نظم کیا ہے۔ یہ ہے دراصل حکمت۔ تقسیم میراث اللہ کی مرضی کے مطابق ہی ہو گی ایسا نہیں ہے کہ کوئی امیر ہے تو کم کر دیا جائے، کوئی غریب ہے تواسے زیادہ دیا جائے۔ حق اللہ کی طرف سے متعین ہے۔ ذرا غور کریں کہ کیا ہمارے معاشرے میں رضارغبت کے ساتھ بہنوں کو حصہ دیا جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی وارث کے حصہ میراث کو روکا تو اللہ تعالٰی قیامت کے روز جنت سے اس کے حصہ کو روکیں گے (مشکوۃ) عموماً مورث کے انتقال کے ایک عرصہ بعد میراث کی تقسیم کی جاتی ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ مورث کے ترکہ میں سے اس کا سامان روپیہ پیسہ وغیرہ کچھ ورثاء استعمال کر لیتے ہیں حالانکہ دیگر ورثاء کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا یا وہ اس سے راضی نہیں ہوتے۔ مشترکہ مال کو بلا اجازت استعمال کرنا ناجائز ہے۔
جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے (قرآن) بہت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ نظام میراث میں ورثاء کے حصہ کی تعین کا تعلق براہ راست اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ہے جس نے فیصلہ کن انداز میں بیان کیا ہے کہ اس میں کسی تاویل اور کسی نفاق کے لیے کوئی گنجاش نہیں ہے۔ ہر مسلمان یہ غور کرے کہ وہ اسلامی نظام حیات سے کس قدر دور ہو چکا ہے۔
Email: [email protected]
***

 

***

 تقسیم میراث اللہ کی مرضی کے مطابق ہی ہو گی ایسا نہیں ہے کہ کوئی امیر ہے تو کم کر دیا جائے، کوئی غریب ہے تواسے زیادہ دیا جائے۔ حق اللہ کی طرف سے متعین ہے۔ ذرا غور کریں کہ کیا ہمارے معاشرے میں رضارغبت کے ساتھ بہنوں کو حصہ دیا جاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022