مسعود ابدالی
اسکارف پر پابندی ختم کرنے کے لیے بہت جلد آئینی ترمیم متوقع
ترکیہ اور شام میں آنے والے قیامت خیز زلزلے سے ساری انسانیت اشک بار ہے۔ مہندم عمارات اور دبے کچلے معصوم لاشوں کو دیکھ کر دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اسی دوران ترک خواتین کی پون صدی پر مشتمل جدوجہد رنگ لاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ اعصاب شکن و جاں گسل جدوجہد دو گز کپڑے کے لیے ہے جو حوا کی بیٹیاں اپنے سروں پر رکھنا چاہتی ہیں۔ معلوم نہیں اس چار گرہ کے ڈوپٹے اور آنچل میں کیا تباہ کاری چھپی ہے کہ مغرب کو اس سے اپنی پوری تہذیب منہدم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ بقول امام خمینی، یورپ ہمارے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا خوفزدہ نہیں جتنا ڈر اسے ہماری بچیوں کے آنچل سے ہے۔
’حقِ اظہارِ حیا‘ کے حصول کے لیے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ترک تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم عدنان منیدریس اپنے وزرائے خارجہ وخزانہ کے ہمراہ پھانسی کے تختے پر چڑھے۔ شہید عدنان میندریس مسلسل تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے،1954 کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے 541 کے ایوان میں 502 نشستیں جیتیں۔ جناب میندریس پر جو فرد جرم عائد ہوئی اس کے مطابق دینی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کو سر ڈھانکنے کی اجازت، ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکولرزم سے صریح انحراف قرار پائی۔ ‘استغاثہ’ نے ثبوت کے طور پر پارلیمان میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو اور وزیر اعظم کے درمیان مکالمہ پیش کیا۔ ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے جناب عدنان میندریس نے ایک معصوم سا سوال کیا تھا کہ اگر خواتین بلا کسی جبر، اپنی مرضی و رضا سے سر ڈھانک کر گھر سے باہر آئیں تو اس سے سیکولر اقدار کیسے متاثر ہوں گی؟ اس پر حزب اختلاف کے کسی رکن نے کہا کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے جس کی عوامی مقامات پر نمائش و اظہار قانون کے منافی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’پھر تو پارلیمان کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے‘ اس پر قائد حزب اختلاف نے پوچھا کہ کیا آپ پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا چاہتے ہیں؟ تو جناب میندریس نے کہا تھا ’’یہی جمہوریت ہے اور اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہو سکتی ہے‘‘ اس بات پر وزیر خارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے۔
یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اس کا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انہوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق صدر جمال گرسل نے جناب میندریس اور ان کے ساتھیوں کے پروانہ موت (ڈیتھ وارنٹ) پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
اس انجام سے بھی اسلام پسندوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور ’حق اظہارِ حیا‘ کی جدوجہد جاری رہی۔ جون 1996 میں پروفیسر نجم الدین اربکان المعروف ’خواجہ صاحب‘ سیکولر جماعت راہِ مستقیم پارٹی (DYP) سے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کرکے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ پروفیسر صاحب سابق امیرِ جماعت اسلامی پاکستان، قاضی حسین احمد کے گہرے دوست تھے۔ حجاب پر پابندی کے خاتمے کی راہ مستقیم کی سربراہ اور نائب وزیر اعظم محترمہ تانسو چلر بھی حامی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمان میں کوئی قراراداد آتی، ترک فوج نے خواجہ صاحب کے دینی رجحان پر تشویش کا اظہار شروع کر دیا اور صرف ایک سال بعد نہ صرف ان کی حکومت برطرف کردی گئی بلکہ ان کی جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
پھانسی برداشت کرنے والوں کے لیے اقتدار سے معزولی اور جماعت پر پابندی کیا چیز تھی۔ رفاح پارٹی پر پابندی لگتے ہی اسلام پسند پروفیسر صاحب کی قیادت میں فضیلت پارٹی (FP) کے نام سے منظم ہوگئے اور 1999 کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ مزید یہ کہ فضیلت کے ٹکٹ پر محترمہ مروہ صفا قاوفجی Merve Safa Kavakc رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ جب مروہ حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں چنانچہ انہیں دروازے پر روک لیا گیا۔ ڈاکٹر مردہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کر دیا جس پر پارلیمان سے ان کی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ وزارت انصاف نے فضیلت پارٹی کو بھی کالعدم کردیا۔
مروہ قرآن کی حافظہ ہونے کے ساتھ امریکہ کی موقر جامعہ ہارورڈ سے پی ایچ ڈی ہیں۔ رکنیت کی منسوخی پر وہ امریکہ چلی گئیں جہاں انہوں نے جامعہ Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں مروہ نے بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ ان کے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپڑے سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب اللہ کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعدطیب رجب ایردوان کی قیادت میں اسلام پسند پھر برسر اقتدار آگئے۔ فٹبال کا یہ کھلاڑی اس وقت اڑتالیس سال کا جوانِ رعنا تھا۔ جس زمانے میں ایردوان استنبول کے رئیس شہر (Mayor) تھے، انہیں ایک رزمیہ نظم پڑھنے کے ’الزام‘ میں سزا بھی ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات کہ جس روز نظم پڑھنے کے جرم میں ایردوان جیل بھیجے جارہے تھے اسی دن انہوں نے ’نغمات یوں نہیں مرتے‘ کے عنوان سے اپنی آواز میں چار معروف شعرا کے آٹھ انقلابی گیتوں پر مشتمل ایک پورا البم جاری کردیا۔ صرف ایک ہفتے میں اس البم کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ جناب ایردوان نے اس سے حاصل ہونے والی ساری کی ساری آمدنی ترک شہدا کی پسماندگان کے لیے وقف کردی۔
جناب ایردوان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزرا کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا لیکن وزیر اعظم کی اہلیہ محترمہ امینہ ایردوان نے صاف صاف کہہ دیاکہ میں حجاب کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔
جولائی 2016 میں مصر، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے ترک افواج کے سیکیولر عناصر نے ایردوان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بمباری اور فائرنگ کے باوجود ترک عوام نے مسلح باغی فوجیوں کی مشکیں کس دیں اور یہ نام نہاد انقلاب سختی سے کچل دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بغاوت کو عدلیہ اور سول افسران کے ایک حصے کی حمایت بھی حاصل تھی۔ غیر آئینی سرگرمیوں کے ذمہ داروں کو سزائیں دینے کے ساتھ ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور انتظامیہ سیکیولر انتہا پسندوں سے بڑی حد تک پاک ہوگئی۔ اسی دوران حکومت نے بیرون ملک تعینات سفارتی عملے کے لیے حجاب کی پابندی ختم کردی اور 2017 میں مروہ صفا قاوفجی پورے وقار کے ساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کردی گئیں۔
گزشتہ سال کے وسط سے حجاب پر پابندی کے خاتمے کے لیے ٹھوس و پائیدار اقدامات پر غور شروع ہوا۔ شروع میں خیال تھا کہ اس کے لیے ایک صدارتی حکمنامہ (آرڈیننس) کافی ہوگا لیکن آئینی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مستقبل میں انتہا پسند انتخاب جیت گئے تو پوری بساط لپیٹی جاسکتی ہے، چنانچہ طے پایا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حجاب کو تحفظ فراہم کر دیا جائے۔
ترکیہ میں آئینی ترمیم کے لیے مسودہ سب سے پہلے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دستور میں پیش کیا جاتا ہے۔ مجلس قائمہ میں پیشی کے لیے ترمیم کی حمایت میں پارلیمان کے نصف سے زیادہ ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ ترک پارلیمان چھ سو ارکان پر مشتمل ہے۔ مجلس قائمہ سے منظوری کے بعد پارلیمان میں رائے شماری کے دوران ترمیم کے حق میں کم ازکم 3/5 یا تین سو ساٹھ ووٹ نہ آنے پر مسودہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر تین سو ساٹھ سے زیادہ لیکن چار سو سے کم ارکان نے ترمیم کے حق میں ہاتھ اٹھائے تو معاملہ صدر کے سامنے پیش ہوگا۔ ایوانِ صدر ترمیم پر مزید مباحثے اور دوبارہ رائے شماری کے لیے اسے پارلیمان کو واپس بھیج سکتا ہے اور صدر کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ ترمیم پر عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے اسے ریفرنڈم کے لیے پیش کردے۔ اگر ریفرنڈم میں نصف سے زیادہ ووٹروں نے ترمیم کی توثیق کردی تو یہ آئین کا حصہ بن جائے گی۔ دوسری طرف اگر رائے شماری کے دوران چار سو سے زیادہ ارکانِ پارلیمان نے ترمیم کی حمایت کر دی تو پھر ریفرنڈم کی ضرورت نہیں رہتی۔
دو ہفتہ قبل پارلیمان کے اسپیکر مصطفےٰ سینتوپ Mustafa Şentop نے کہا تھا کہ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کے لیے مجوزہ آئینی ترمیم پرتمام جماعتیں متفق ہیں اور تین سو چھیاسٹھ ارکان نے ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ترک پارلیمان کی مجلسِ قائمہ برائے آئینی امور نے دستور میں ترمیم کی توثیق کردی جس کے تحت حجاب پر پابندی غیر قانونی ہو گی۔ اسپیکر کا کہنا ہے کہ تین سو چھیاسٹھ ارکان کے دستخطوں سے یہ ترمیمی بل پیش کیا گیا ہے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کسی خاتون کو کسی بھی صورت میں تعلیم، کام، ووٹ ڈالنے اور منتخب ہونے کے حق، سیاسی سرگرمیوں، سول سروس یا مذہبی وجوہات کی بناء پر حجاب پہننے یا لباس کے حصے کے طور پر سرکاری اور نجی اداروں کی جائیداد اور خدمات کو استعمال کرنے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ حجاب کی مذمت اور اس حوالے سے الزام، طنز، اسستہزا اور کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک غیر قانونی ہوگا۔ اداروں کے یونیفارم میں بھی ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی خاتون کو مذہبی وجوہات کی بنا پر حجاب اور اپنی پسند کا لباس پہننے سے نہ روکا جائے۔ اب یہ ترمیم بحث اور رائے شماری کے لیے پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔
اس وقت ترک پارلیمان میں برسر اقتدار اتحاد کے پاس تین سو پینتیس نشستیں ہیں۔ سیکیولر خیالات کی حامل ریپیلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے ارکان ایک سو پینتیس نشستوں پر براجمان ہیں۔ ماضی میں حجاب کی شدید مخالفت کرنے والی ریپبلکن پیپلز پارٹی نے بھی آئینی کمیٹی کے اجلاس میں ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔
ترک سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ریپبلکن پارٹی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر معاملے کو 14 مئی کے انتخابات سے پہلے حل کرلینا چاہتی ہے تاکہ ریفرنڈم کی نوبت نہ آئے۔ سیکیولر عناصر کو ڈر ہے کہ عام انتخابات کے دوران اسکارف پر ریفرنڈم ہونے کی صورت میں حجاب کی حمایت کرنے والوں کی اکثریت صدر ایردوان کے نام پر بھی ٹھپہ لگا دے گی۔
اگر ری پبلکن ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان انفرادی آزادی، صنفی مساوات، عمدہ طرز حکمرانی اور برداشت کے کلچر کے لیے اپنے عزم پر قائم رہے تو امید ہے کہ یہ ترمیم مارچ تک منظو ہو جائے گی ورنہ صدر ایردوان نے تو اس پر ریفرنڈم کرانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ترک خواتین کی تین چوتھائی اکثریت حجاب پر پابندی ختم کرنے کے حق میں ہے۔ دلچسپ بات کہ اسکارف نہ اوڑھنے والی خواتین بھی پابندی کی مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے لیے لباس کا انتخاب ہر فرد کا حق ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ترک ٹیلی ویژن پر مباحثے میں یورپی اسکرٹ پہنی ہوئی ایک خاتون نے کہا ’میرے لیے یہ بات قابل قبول نہیں کہ کوئی شخص مجھے برقعہ پہنے کو کہے تو پھر میں دوسرے کے برقعوں پر اعتراض کرنے والی کون؟ کاش یہ سادہ سی مبنی برانصاف اور منطقی دلیل ترک اور یورپی روشن خیالوں کی سمجھ میں آجائے
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ایردوان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزرا کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا لیکن وزیر اعظم کی اہلیہ محترمہ امینہ ایردوان نے صاف صاف کہہ دیاکہ میں حجاب کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023