طمانچوں کی گونج ابھی تھمی نہیں
حساب ابھی باقی ہے۔ تشار گاندھی نے سپریم کورٹ جا کر مظفر نگر واقعہ کو پھر سے زندہ کردیا
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
مظفر نگر کے قابلِ مذمت واقعہ کے بعد یوگی حکومت نے یہ سارے حربے یکے بعد دیگرے استعمال کیے مگر افسوس کہ اس کی ایک نہیں چلی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں حسبِ روایت نچلی عدالت میں جانے کی ہدایت کرنے کے بجائے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگا کر نوٹس جاری کر دیا اور ایف آئی آر کی تفصیل و اسٹیٹس رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور پنکج متل پر مشتمل بنچ نے نابالغ مسلم لڑکے کے ساتھ اس کی ٹیچر کی جانب سے کیے گئے شرمناک سلوک سے متعلق پولیس سپرنٹنڈنٹ کو بھی طلب کرلیا۔
سرکار دربار کے لوگ سمجھ رہے تھے کہ مظفر نگر کے نیہا اسکول میں استانی کے ذریعہ مسلم طالب علم کو ساتھی طلبا سے تھپڑ لگوانے کا معاملہ رفع دفع ہو چکا ہے مگر گاندھی جی کے پڑ پوتے تشار گاندھی نے اسے سپریم کورٹ میں لے جا کر پھر سے زندہ کر دیا۔ بی جے پی تو یہ چاہتی ہوگی کہ عدالتِ عظمیٰ اس قضیہ کو مسترد کردے کیونکہ اسکول کی پرنسپل ترپتا تیاگی کو بچانے کی خاطر یو پی کی ڈبل انجن حکومت سارے حربے استعمال کرچکی ہے۔ حکومت کی خوش فہمیوں کے برخلاف سپریم کورٹ نے اس کی فوری سماعت کرکے یوگی حکومت کو نوٹس دے دیا۔ مظفر نگر معاملے میں سنگھ پریوار نے اپنے روحانی پیشوا چانکیہ کی نیتی پر پوری طرح عمل درآمد تو کیا مگر خوش قسمتی سے ’سورن کال‘ (سنہرے دور) میں وہ چالیں ناکام ہوگئیں۔ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل چانکیہ نے اپنی مشہور کتاب ارتھ شاستر میں جو رہنمائی کی تھی اس پر سنگھ پریوار آج بھی عمل پیرا ہے۔ وہ سیاست میں کسی اخلاقی اصول وضوابط کی پابندی کا قائل نہیں ہے۔ موجودہ حکومت نے سیاست میں سب کچھ جائز کر رکھا ہے۔ وہ سفاکیت، جھوٹ، مکاری اور منافقت کو مباح ہی نہیں ضروری سمجھتا تھا۔
چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی کو ہندی کے ایک مشہور محاورہ ’سام دام دنڈ بھید‘ میں سمویا گیا ہے۔ بزورِ قوت حکومت کرنے کے اس طریقۂ کار کی ابتدا محبت بھرے انداز میں ’سام‘ سے ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں زبانی افہام و تفہیم سے کام نکالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ یہ حربہ اگر ناکام ہو جائے اور مخاطب پیار بھرے جھانسے میں آنے سے انکار کردے تو مال و دولت کی مدد سے اسے خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے ’دام‘ کہتے ہیں یعنی کام کی قیمت لگانا۔ بفرضِ محال اس میں بھی ناکامی ہاتھ آئے تو ’دنڈ‘ یعنی تعذیب و سزا کے ذریعہ مخالف کو رام کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں تفریق امتیاز کا پہلو غالب رہتا ہے جسے ’بھید‘ کہتے ہیں۔ اس کا مقصد حلیف کو بچانا اور حریف کو پھنسانا ہوتا ہے۔ مظفر نگر کے قابلِ مذمت واقعہ کے بعد یوگی سرکار نے یہ سارے حربے یکے بعد دیگرے استعمال کیے مگر افسوس کہ اس کی ایک نہیں چلی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں حسبِ روایت نچلی عدالت میں جانے کی ہدایت کرنے کے بجائے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگا کر نوٹس جاری کردیا اور ایف آئی آر کی تفصیل و اسٹیٹس رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور پنکج متل پر مشتمل بنچ نے نابالغ مسلم لڑکے کے ساتھ اس کی ٹیچر کی جانب سے کیے گئے شرمناک سلوک سے متعلق پولیس سپرنٹنڈنٹ کو بھی طلب کرلیا۔
آگے بڑھنے سے قبل مظفر نگر کے سانحہ کی تفصیل پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ اس معاملے کی ویڈیو اگر موجود نہیں ہوتی تو نہ صرف اس کا انکار کردیا جاتا بلکہ انتظامیہ ایک ایسی کہانی بنا کر سامنے لاتا کہ بچہ اور اس کے والدین آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ یوگی کی حکومت میں یہی توقع ہے کیونکہ دلیر صحافی صدیق کپن اور مسیحا نما ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔ بعید نہیں کہ میڈیا ڈائن صفت پرنسپل ترپتا تیاگی کو اس قدر خوشنما بناکر پیش کرتا کہ بی جے پی اس کو سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی مانند مظفر نگر سے اپنا امیدوار بنانے پر غور کرنے لگتی۔ ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے اس کے بنانے والے نے بڑی چالاکی ترپتا تیاگی کو اکسا کر اپنے جال میں پھنسایا اور وہ عورت یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ یہ اس کو بدنام کرکے اسکول پر قفل لگانے کی ایک سازش ہے۔ نفرت کے نشے میں اندھی پرنسپل از خود ایک جال میں پھنس کر اب ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویڈیو سازی محض سیرو تفریح کا سامان نہیں ہے بلکہ ظالموں کو بے نقاب کرکے انہیں سزا دلوانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
مذکورہ بالا ویڈیو میں ایک استانی کرسی پر بیٹھی نظر آتی ہے اور اس کے سامنے طلبا اسکول کے یونیفارم میں فرش پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ویڈیو میں اس ویڈیو کے بنانے والے مرد کی ہاں میں ہاں ملانے والی آواز بھی پیچھے سے سنائی دیتی ہے۔ ویڈیو ساز اور استانی کے درمیان ایک بچہ کھڑا نظر آتا ہے اور اس سے چھوٹے قد کا دوسرا بچہ پہلے کے گال پر تھپڑ رسید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ٹیچر سے توقع ہے کہ وہ مارپیٹ کرنے والے طالب علم کی سرزنش کرے گی مگر اس کے برعکس وہ کہتی ہے ’زور سے تھپڑ مارو۔‘ اس کے بعد مزید دو لڑکے اس بچے کے گال پر تھپڑ رسید کرتے ہیں۔ اس وقت تک یہ نہیں پتہ چلتا کہ یہ مارپیٹ کیوں ہو رہی ہے؟ ویڈیو بنانے والا شخص دخل اندازی کرنے یا استانی کو ایسا کرنے کے لیے کہنے کے بجائے ٹیچر کے ساتھ بات چیت جاری رکھتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران ٹیچر کہتی ہے کہ ’میں نے ڈکلیئر کر دیا ہے۰۰۰ کہ یہ محمڈن بچے ہیں، ان کی ماں چلی جاتی ہے یا محمڈن بچے ان کے یہاں چلے جاو۔‘ اس طرح یہ عقدہ کھل جاتا ہے کہ پرنسپل ہندو لڑکوں سے مسلم بچے کی پٹائی کرو ارہی ہے۔ ٹیچر کے نفرت انگیز بیان کی تائید کرتے ہوئے ویڈیو بنانے والا شخص ہنس کر کہتا ہے ’صحیح کہہ رہی ہیں، پڑھائی خراب ہو جاتی ہے۔‘
پرنسپل ترپتا تیاگی نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس ویڈیو کا بنانے والا طالب علم کا چچا تھا مگر بیوقوف عورت یہ نہیں سمجھ سکی کہ وہ کس آگ سے کھیل رہی ہے۔ ویڈیو میں آگے استانی دوسرے بچوں سے کہتی ہے ’اے کیا مار رہا ہے تو اسے، زور سے مار نا! چلو اب کس کا نمبر ہے۰۰۰ چل تو بھی کھڑا ہو جا۰۰۰‘ اس کے بعد وہ پوچھتی ہے ’چلو اب کس کا نمبر ہے‘ اس کے بعد دو لڑکے کھڑے ہوتے ہیں اور بچے کے پاس آکر اسے تھپڑ لگاتے ہیں۔ ایک بچہ گال پر زور سے تھپڑ مارتا ہے جس پر ٹیچر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے اب کی بار کمر پر مارو۰۰۰۰چلو۰۰۰منہ پہ نہ مارو اب منہ لال ہو رہا ہے۔ کمر پر مارو سارے۔ اس کے بعد دوسرا بچہ پیٹھ پر تھپڑ رسید کرتا ہے اور اس دوران معصوم بچہ زار و قطار رو تا نظر آتا ہے۔ ترپتا تیاگی جیسے سفاک لوگوں کو انگریزی میں ’’سائیکو پیتھ‘‘ کہتے ہیں اس کا متبادل لفظ ’’اینٹی سوشل‘‘ یعنی سماج دشمن ہے۔ عام فہم زبان میں دوسروں کو بے وجہ تکلیف پہنچانے والے کو ایذا رساں یا ٹاکسک کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگ زہریلے سانپ کی مانند تباہ کن ڈنک مارتے ہیں۔
یہ ایک خطرناک نفسیاتی مریض ہے جس میں جان بوجھ کر معاشرے کے دیگر افراد کو مارنے یا تہس نہس کرنے کی خواہش حد سے بڑھ جاتی ہے۔ اس مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگ اذیت رسانی سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک شکار پھانس کر سیریل کلر کی مانند انہیں تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ سرکاری یا معاشرتی دباو کے سبب اگر انہیں عارضی طور پر رکنا پڑ جائے تب بھی وہ دور بیٹھ کر کسی نہ کسی طور نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اپنے اس ناپاک مقصد کے لیے وہ ظلم کا شکار لوگوں کے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں سے دوستی کر کے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ ترپتا تیاگی نے معصوم بچے کے والد ارشاد کو بہلا پھسلا کر یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ’میڈم نے بچوں کو آپس میں لڑا دیا تھا، اب ہم نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میڈم نے ہماری فیس واپس کر دی ہے اور اب ہم اپنے بچے کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔‘ اپنے شکار کو بے بس کرنے یا اپنے ظلم کو جواز فراہم کرنے کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے۔ تکبر، گھمنڈ، خود پسندی اور حسد جیسے ناپاک خصائل کے حاملین دوسروں کو مستقل اور طویل اذیت دے کر خود لذت پاتے ہیں۔ ان کی اس نفسیاتی ضرورت سے معاشرے میں بے قصور لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، اس لیے انہیں پاگل خانہ بھیج دینا چاہیے۔
ترپتا تیاگی جیسے لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ویڈیو بنانا ضروری تو ہے مگر کافی نہیں ہے۔ اس کو وائرل کرنے کے لیے محمد زبیر جیسے بہادر صحافی کی ضرورت پڑتی ہے جس نے نوپور شرما کی بدزبانی کو بے نقاب کرکے بی جے پی کو اس سے دامن چھڑانے اور معافی مانگنے پر مجبور کردیا تھا۔ محمد زبیر کا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ ان کے سبب سپریم کورٹ نے بی جے پی کی معطل لیڈر نوپور شرما کو پوری قوم سے معافی مانگنے کی تلقین کی تھی اور اودے پور میں کنہیا لال قتل کے لیے بھی اسی شاتمِ رسول کو ذمہ دار ٹھیرایا تھا۔ پچھلے سال جب نوپور شرما نے اپنے خلاف درج تمام ایف آئی آر کو دہلی منتقل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اسے ملنے والی دھمکیوں کا حوالہ دیا تو اس کے جواب میں جسٹس سوریہ کانت نے کہا تھا، ’’اسے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یا وہ خود سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے؟ اس نے جس طرح سے پورے ملک میں جذبات بھڑکائے ہیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار یہ اکیلی خاتون ہے۔‘‘ عدالت نے نپور شرما کے تبصرے کو اس کی رعونت کا غماز بتاتے ہوئے کہا تھا ’’اگر وہ کسی پارٹی کی ترجمان ہے تو کیا ہوا؟ اسے لگتا ہے کہ اس کے پاس طاقت کی حمایت ہے۔ اس لیے وہ ملک کے قانون کا احترام کیے بغیر کوئی بھی بیان دے سکتی ہے؟‘‘
ترپتا تیاگی کی مانند نوپور شرما نے بھی معافی مانگی تھی مگر سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ اس سے مطمئن نہیں ہوئی بلکہ یہ کہا کہ اس نے ٹیلی ویژن پر آکر ایک خاص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کیا۔ اس پر شرائط کے ساتھ اس وقت معافی مانگی جب اس کے بیان پر لوگوں کا غصہ بھڑک اٹھا تھا۔ یعنی معافی مانگنے تک دیر ہو چکی تھی۔ عدالت نے نوپور شرما کو ٹی وی پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنے کا حکم دیا تھا۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے دہلی پولیس سے پوچھا تھا کہ اس نے کیا کیا؟ یہی سوال مظفر نگر انتظامیہ سے بھی کیا جاچکا ہے۔ آگے یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ ترپتا تیاگی کو ہنوز گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ نوپور شرما کے معاملے میں ٹی وی بحث کا حوالہ دینے پر عدالت نے کہا تھا ’ہمیں منہ کھولنے پر مجبور نہ کریں۔ ٹی وی پر بحث کیا تھی؟ اس سے صرف ایک ایجنڈا طے کیا جا تا ہے۔ اینکر نے ایسے معاملے کا انتخاب ہی کیوں کیا جو عدالت میں زیر سماعت ہے‘۔ محمد زبیر کو اس جرات مندی کی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ انہیں گرفتار کر کے بنگلورو سے لے کر یو پی کی کئی جیلوں میں لے جایا گیا لیکن بالآخر وہ سرخرو ہو کر نکلے اور نوبل انعام کے لیے نامزد کیے گئے۔ اس بار پھر انہوں نے بھگوائیوں کے ہوش اڑا دیے اور اب ان کے خلاف پوکسو کے تحت ایف آئی آر ہوگئی جبکہ اصل مجرم ترپتا تیاگی آزاد و محفوظ ہے۔
محمد زبیر کے ذریعہ مظفر نگر کی ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی ٹاپ ٹرینڈز میں ترپتا تیاگی کی گرفتاری کا مطالبہ ہونے لگا۔ اس کے علاوہ مظفر نگر، نیہا پبلک اسکول جیسے ہیش ٹیگ گردش کرنے لگے جن میں ترپتا تیاگی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ راہل گاندھی نے اس پر ٹویٹ کیا کہ ’معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب کا زہر بونا، اسکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا، ایک استاد ملک کے لیے اس سے برا کچھ نہیں کر سکتا۔ بی جے پی کے پھیلائے ہوئے اس مٹی کے تیل نے انڈیا کے کونے کونے میں آگ لگا دی ہے۔ بچے انڈیا کا مستقبل ہیں، ہم سب کو مل کر انہیں نفرت نہیں محبت سکھانی ہے۔ ‘بالی ووڈ کی اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر نے لکھا ’شیم آن یو ترپتا تیاگی، تم انسانیت پر کلنک ہو۔ یہ خاتون بہت بیمار اور ذہنی عدم توازن کا شکار ہے۔ ایسے لوگوں کو ٹیچر تو دور بچوں کے ارد گرد بھی نہیں ہونا چاہیے‘ روشن کمار رائے نامی صارف نے پوچھا کہ اسے ابھی تک معطل کیوں نہیں کیا گیا؟ انہوں نے اوجھا نامی استاد کے تعلیم یافتہ رہنماؤں کو ووٹ دینے کی ترغیب پر ملازمت گنوانے کا حوالہ دے کر ترپتا تیاگی سے ان کا موازنہ کیا۔ محمد آصف خان نامی صارف نے سوال کیا کہ ’چند ماہ قبل مدھیہ پردیش میں ایک سکول پر حجاب کے بہانے بلڈوزر چلایا گیا۔ کیا اتر پردیش کی حکومت نیہا پبلک اسکول اور ترپتا تیاگی کے گھر پر بلڈوزر چلائے گی؟‘‘
معروف صحافی رویش کمار نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ٹیچر کے کہنے پر اپنی ہی عمر کے مسلمان بچے کو مارنے والے چھوٹے بچے کے ہندو والدین کو سامنے آکر مقدمہ درج کرانا چاہیے کیونکہ ترپتا تیاگی ان کے معصوم بچوں کو ہندو کے نام پر فسادی بنا رہی ہے۔ تمام والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم دشمنی کے نام پر ان کے بچوں کو فسادی بنانے کی کوشش کس سطح پر کی جا رہی ہے۔ فرقہ واریت بچوں کو انسانی بم بنا دیتی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جس بچے کو پیٹا گیا وہ اس صدمے کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گزارے گا؟ ‘‘ششی تھرور نے اس سانحہ پر حیرت اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’ناقابل یقین! مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اور اس میں شامل لوگ جیل میں نہیں ہیں۔ ہم تمام ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے’ تعجب ہے کہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرنے والے تو شرمسار ہیں مگر ترپتا کے حامی اسے معذور دل کے مریضہ بتاکر ہمدردی بٹورنے کی مہم چھیڑے ہوئے تھے۔ شبنم ہاشمی نے بجا طور پر اسے مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کا حصہ بتایا مگر امت کے لوگوں نے دستِ تعاون دراز کرکے مظلوم بچے کو اعلیٰ تعلیم مہیا کرنے کا اعلان کر کے اس ناپاک سازشں کو ناکام کر دیا۔
تشار گاندھی نے اس معاملے میں مذہبی نفرت انگیزی کی مذمت کر کے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ بچوں کے بنیادی حقوق اور جووینائل جسٹس ایکٹ، 2015 کی دفعہ 82 کے علاوہ دیگر متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی کی جائے۔ اس کے مثبت جواب نے نظام عدالت پر اعتماد بحالی کا کام کیا۔ تشار گاندھی کے وکیل شادان فراست نے بتایا کہ اس معاملہ پر اگلی سماعت 25 ستمبر کو ہو گی۔ تشار گاندھی کے مطابق سرکاری کارروائی میں ترپتا تیاگی کو بچانے کا منشا صاف نظر آتا ہے۔ ضلعی محکمہ تعلیم نے اسکول کو بند کرنے کے احکامات میں اس واقعہ کا نہیں بلکہ رجسٹریشن کے 2022 میں ختم ہونے کا حوالہ دیا ہے۔ تشار گاندھی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس طرح کے معاملات میں جامع ہدایات جاری کرے تاکہ انتظامیہ اس پر عمل درآمد کے لیے جواب دہ ہو اور اگر کوتاہی کرے تو اس پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوسکے۔ اس طرح ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد اور اسے روکنے میں ناکام رہنے والی انتظامیہ پر دباو پڑے گا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں انتظامیہ کی غلامانہ سوچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کو اپنے سیاسی آقاوں کے احکامات کی بجا آوری کے بجائے آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔ تشار گاندھی کے اس مستحسن اقدام سے امید ہے کہ ایسے مذموم واقعات پر لگام کسی جائے گی اور کسی بھی بنیاد پر معصوم بچوں کو تعذیب کا شکار نہیں کیا جائے گا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
’’سرکاری کارروائی میں ترپتا تیاگی کو بچانے کا منشا صاف نظر آتا ہے۔ ضلعی محکمہ تعلیم نے اسکول کو بند کرنے کے احکامات میں اس واقعہ کا نہیں بلکہ رجسٹریشن کے 2022 میں ختم ہونے کا حوالہ دیا ہے۔ تشار گاندھی چاہتے ہیں سپریم کورٹ اس طرح کے معاملات میں جامع ہدایات جاری کرے تاکہ انتظامیہ اس پر عمل درآمد کے لیے جواب دہ ہو اور اگر کوتاہی کرے تو اس پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوسکے۔ اس طرح ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد اور اسے روکنے میں ناکام رہنے والے انتظامیہ پر دباو پڑے گا۔‘‘(تشار گاندھی)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023