طالبان نے اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو خط لکھا

نئی دہلی، ستمبر 22: طالبان نے اگلے ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ سے خطاب کرنا چاہا ہے اور دوحہ میں مقیم اپنے ترجمان سہیل شاہین کو افغانستان کا نمائندہ نامزد کیا ہے۔

فی الحال افغانستان کی نمائندگی کرنے والے اقوام متحدہ کے سفیر غلام اسحاق زئی 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے آخری دن سے خطاب کرنے والے ہیں۔ انھیں طالبان نے گزشتہ ماہ یہ کہہ کر بے دخل کر دیا تھا کہ ان کا ’’مشن ختم ہو چکا ہے‘‘ اور وہ اب مزید ’’افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘‘

تاہم 15 ستمبر کو اسحاق زئی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس کو افغانستان کے وفد کے بارے میں آگاہ کیا تھا جو 27 ستمبر کو اسمبلی کے 76 ویں سالانہ اجلاس میں شرکت کرے گا۔

پانچ دن بعد گٹیرس نے طالبان کے مقرر کردہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی طرف سے اقوام متحدہ کے اجتماع میں شرکت کے بارے میں ایک خط وصول کیا۔

رائٹرز کے مطابق گٹیرس نے کہا ہے کہ دوسرے ممالک کو طالبان کی اس بین الاقوامی پہچان کی خواہش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسی حکومت کا مطالبہ کرنا چاہیے جو خواتین کے مساوی حقوق کو یقینی بنائے۔

معلوم ہو کہ جب اقوام متحدہ میں نشستوں پر تنازعات پیدا ہوتے ہیں تو جنرل اسمبلی کی نو رکنی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ نشستوں پر کون قابض ہے۔ اس کمیٹی میں امریکہ، روس، چین، بہاماس، بھوٹان، چلی، نمیبیا، سیرالیون اور سویڈن کے نمائندے شامل ہیں۔

اس معاملے میں اسحاق زئی اور طالبان کے خطوط جنرل اسمبلی کے صدر عبداللہ شاہد کے دفتر سے مشاورت کے بعد پینل کو بھیجے گئے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ فی الحال افغانستان کی نمائندگی کے حوالے سے پینل کے فیصلے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ایک عہدیدار نے، جو کمیٹی کا حصہ ہے، کہا کہ اراکین کو اس پر ’’غور کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ایک متنازعہ نشست کے لیے ارکان کا انتخاب کرنے سے گریز کیا تھا اور اس کے بجائے جنرل اسمبلی کو ووٹنگ کے لیے کہا تھا۔

دریں اثنا قطر کے حکمراں امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے منگل کے روز اقوام متحدہ میں دنیا سے کہا کہ وہ طالبان رہنماؤں سے دور نہ ہوں۔

انھوں نے طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا کیوں کہ بائیکاٹ صرف ’’پولرائزیشن اور رد عمل‘‘ کا باعث بنے گا۔ الثانی نے مزید کہا کہ بات چیت شروع کرنے سے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

شیخ تمیم نے کہا ’’ارادوں، کوششوں اور سرمایہ کاری سے قطع نظر، افغانستان میں یہ تجربہ 20 سال بعد ختم ہو گیا ہے۔ افغانستان کو الگ تھلگ کرنا اور اسے اس کے مسائل کے دائرے میں چھوڑنا ناممکن ہے۔‘‘

معلوم ہو کہ قطر نے ہی اگست میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی سہولت فراہم کی تھی، جب امریکی فوجی دو دہائیوں تک ملک میں موجود رہنے کے بعد افغانستان سے انخلا کر رہے تھے۔

اس ترقی نے 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ کیا جو 11 ستمبر 2001 کو نیویارک شہر میں دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر، واشنگٹن میں پینٹاگون اور 2001 میں پنسلوانیا کے میدان میں ہونے والے حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے جارج ڈبلیو بش کی صدارت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع کی تھی۔

دریں اثنا افغانستان میں قطر انسانی امداد میں سہولت فراہم کر رہا ہے اور کابل ایئر پورٹ پر آپریشن میں بھی مدد کر رہا ہے۔

پیر کے روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں کہا کہ اگر طالبان خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں اور مالی مدد چاہتے ہیں تو انھیں ’’زیادہ حساس اور بین الاقوامی رائے اور اصولوں کو زیادہ قبول کرنا ہوگا۔‘‘

اے پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے 1996 سے 2001 کے دوران طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دوران ملک کی نشست صدر برہان الدین ربانی کو دی گئی، جو 2011 میں ایک خودکش حملہ آور کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔