تعلیمی سفرنامے

(لندن، ہالینڈ، جرمنی اور فرانس کے سفرنامے نیز دیگر مضامین)

محمد عارف اقبال، نئی دلی

مصنفڈاکٹر سر ضیاءالدین احمد
مرتبڈاکٹر شمس بدایونی
صفحات392(مجلد)، قیمت500/-، اشاعت2022
ISBN 978-93-90579-24-2
ناشر اپلائڈ بکس، 1739/104، فرسٹ فلور، ایم پی اسٹریٹ، پٹودی ہاوس، دریاگنج، نئی دہلی 110002-
از: محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔۲ موبائل نمبر 9953630788)

معروف محقق شمس بدایونی (پ:یکم جون 1961) تحقیق و تنقید کے مردِ میداں ہیں۔ وہ اپنے تصنیفی و تالیفی سفر کی چہل سالہ مدت پوری کرچکے ہیں۔ اس دوران میں ان کی 24 کتب شائع ہوئی ہیں۔ ان کے موضوعات: بدایونیات، غالبیات، شبلیات، سرسیّدیات، نعت نگاری، مکتوب نگاری، آوارہ اشعار رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلوب، طریقہ پیش کش اور استناد کے ذریعے تحقیق کے روایتی بوجھ کو کم کرکے اس کے مطالعے کو دلنشیں اور گوارا بنادیا ہے۔ ان کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ شعری ضرب الامثال، اردو نعت کا شرعی محاسبہ، نظامی بدایونی اور نظامی پریس کی ادبی خدمات، مکتوباتی ادب، شبلی کی ادبی و فکری جہات، غالب اور بدایوں، مزار غالب، تفہیم غالب کے مدارج، جہات سرسیّد، خطوط شبلی بنام خواتین فیضی ان کی مقبول کتابیں ہیں۔ وہ پیشہ سے تاجر ہیں اور خود کو ’جزوقتی ادیب‘ کہتے اور لکھتے رہے ہیں لیکن ان کا قلم برابر رواں دواں ہے۔ تازہ ترین کتاب اس کا زندہ ثبوت ہے۔
پروفیسر سرضیاءالدین احمد (1873تا 1947) کی پہچان ایک عظیم ریاضی داں، سرسیّد ثانی اور ماہر تعلیم کی ہے۔ شمس بدایونی نے ان کی آخری حیثیت پر پڑے پردے کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ شمس بدایونی نے آج سے تقریباً 116سال پیشتر لکھے جانے والے ان کے تعلیمی سفرناموں کو اور تعلیم و تدریس سے متعلق مغربی نظریات و خیالات کی روشنی میں لکھے گئے ان کے درجن بھر سے زائد مضامین اور دوسری تحریروں کو بھی اس کتاب میں جمع کردیا ہے۔ ان کا جرمنی کا سفرنامہ، اردو میں جرمنی کے لکھے گئے سفرناموں میں تاریخی طور پر اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔
سرضیاءالدین کا میدان کار ایم اے او (MAO) کالج اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ رہا۔ انہوں نے یورپ بالخصوص جرمنی کے نظریۂ تعلیم اور طریقِ تعلیم و تدریس کا ہندوستانی تصور تعلیم اور طریقۂ تعلیم کے تناظر میں نہ صرف تجزیہ کیا ہے بلکہ اپنے گہرے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ان کے حسن و قبح کو طے کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی کتابیں تاریخ التعلیم، سسٹمز آف ایجوکیشن اور سسٹمز آف اگزامنیشن، تعلیم کے میدان میں ان کے وقیع خیالات کی ترجمان ہیں۔
ڈاکٹر شمس بدایونی نے مقدمے اور حواشی کے ذریعے ان کی بھرپور خدمات کا تعارف پیش کردیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں سر ضیاءالدین احمد کے امتیازات کو اِن سفر ناموں اور مضامین کے توسط سے سمجھنے اور سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان تحریروں کی ترتیب میں انہوں نے تدوین کے جملہ اصولوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے جس نے کتاب کی تحقیقی حیثیت کو مستحکم کردیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کی جامع مسجد کے احاطے میں سرسیّد احمد خاں کی قبر سے متصل سرضیاءالدین احمد کی بھی آخری آرام گاہ ہے۔ اس پر جو کتبہ لگا ہے اس میں لکھا ہے ’آنریبل لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر ضیاءالدین احمد‘۔ اس طرح سر ضیاءالدین ہال اور ضیاءالدین ڈینٹل کالج، اے ایم یو علی گڑھ سے کیمپس کے طلبا خوب واقف ہیں۔ لیکن اتنی بڑی شخصیت کے کارنامے سے طلبا کی اکثریت ناواقف ہوگی۔ محمد امین زبیری کی مرتب کردہ ’ضیائے حیات‘ (سوانح عمری) برسوں قبل کراچی سے چھپی تھی۔ ڈاکٹر شمس بدایونی کی زیرنظر تحقیقی کتاب پہلی بار بھرپور تعارف کے ساتھ سرضیاءالدین احمد کے تعلیمی سفرنامے اور تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالتی ہے۔
اپنے وقیع ’مقدمہ‘ میں ڈاکٹر شمس بدایونی، سرضیاءالدین احمد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’1910 سے 1920 تک شعبہ ریاضی کے صدر رہے۔ (شعبہ ریاضی میں آویزاں بورڈ کے مطابق) انہوں نے یونیورسٹی کا اولین کانسٹی ٹیوشن بھی مرتب کیا جس میں بعد کو ترامیم و اضافے کیے گئے۔ وہ پہلے ہندوستانی ہیں جو ایم اے او کالج کے پرنسپل بنے۔‘‘
’’ان کی سیاسی زندگی بھی ملک و قوم کی فلاح و بہبود سے عبارت تھی۔ 1919 سے 1922 تک وہ موجودہ یوپی کی مجلس قانون ساز اسمبلی کے نامی نیٹو ممبر (ایم ایل اے) رہے۔ 1930 سے 1947 تک لگاتار پارلیمنٹ کے رکن (ایم پی) رہے۔‘‘ (صفحہ 31)
ڈاکٹر شمس بدایونی مزید لکھتے ہیں:
’’ان کے زمانے میں کالج اور یونیورسٹی نے بہت ترقی کی۔ ایجوکیشن، جغرافیہ، پالی ٹیکنک کے شعبے، انجینئرنگ کالج، ایگری کلچر کالج، سوئمنگ پول، جمنازیم، فلائنگ کلب، امین ہوسٹل، وی ایم ہوسٹل وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔ فیکلٹی سسٹم کی شروعات ہوئی۔ میڈیکل کالج کے قیام کے لیے انہوں نے جو تیاریاں کی تھیں وہ ان کی وفات کے بعد روبہ عمل آئیں۔ ڈاکٹر نورالحسن نقوی نے اپنی کتاب محمڈن یونیورسٹی سے مسلم یونیورسٹی تک (علی گڑھ ، 2001) میں ان کی پرنسپل شپ، پرووائس چانسلری، وائس چانسلری کے ادوار اور کارگزاریوں کا علیحدہ علیحدہ تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (صفحہ 32-31)
کتاب میں شامل سر ضیاءالدین احمد کے جو تعلیمی مضامین ہیں ان میں ابتدائی تعلیم سے متعلق فاضل مصنف نے اکتوبر 1907 میں جو کچھ فرمایا ہے، ملاحظہ کریں:
’’… ہر ایک شخص کا جو والدین کہلائے جانے کا مستحق ہے یا جو بچوں کی تربیت کا ذمہ دار ہے، یہ فرض ہے کہ وہ تعلیم اور تربیت کے اصولوں سے کچھ واقفیت رکھتا ہو۔ والدین سے یہ ہم توقع نہیں رکھتے کہ وہ مختلف زبانوں، مختلف سائنس اور مختلف فنون سے مثل ڈاکٹری، انجینئرنگ وغیرہ سے واقفیت رکھتے ہوں مگر ان سے یہ امید ضرور ہے کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ایک خاص چیز کی تعلیم کے لیے کس قسم کی تربیت کی ضرورت ہے، جس سے ان کو یہ اندازہ ہوسکے کہ ان کے بچوں میں کس فن کے سیکھنے کی قابلیت موجود ہے تاکہ وہ انہیں ایسی تعلیم دلائیں جس سے ان کو کسی قسم کی مناسبت ہو، کالجوں کی تعلیم کو چھوڑیے، اسکول کی ہی تعلیم میں بہت سے مضامین اختیاری موجود ہیں اورمیرے پاس کافی دلیل اس بات کے رکھنے کی ہے کہ ایک یا دو ہی سال میں ان کی تعداد اور زیادہ بڑھ جائے گی اور والدین کو لڑکے کی گیارہ برس کی عمر میں اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ علوم اور زبانوں میں سے کون سی چیزیں لڑکے کی طبیعت کے مناسب اور اس کی آئندہ زندگی کے لیے مفید ہیں۔‘‘(صفحہ 254)
امید ہے کہ یہ کتاب اساتذہ ہی نہیں بلکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے لیے، اے ایم یو کے ایک عظیم معمار کی زندگی اور اس کے کارنامے کو جاننے اور سمجھنے میں معاون ہوگی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023