
تعلیم محض مہارت نہیں، اقدار کا سفر بھی ہے : پروفیسر این ناگا راجو
’’اساتذہ کی اصل کامیابی شمولیتی تدریس اور طلبہ کی رہنمائی میں ہے‘‘
حیدرآباد (دعوت نیوز ڈیسک):
مہارتیں بغیر اقدار کے کھوکھلی اور اقدار بغیر مہارت کے بے اثر ہو جاتی ہیں۔ اصل کامیابی اس وقت ممکن ہے جب ہم دونوں کو یکجا کر کے آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کریں ۔یہ بات پروفیسر این ناگا راجو، وائس چانسلر انگلش اینڈ فارن لینگویجز یونیورسٹی (ایفلو) نے اس وقت کہی جب وہ یوم اساتذہ کے موقع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سی ڈی او ای آڈیٹوریم میں منعقدہ یومِ اساتذہ تقریب میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے یوم اساتذہ کو خود احتسابی کا لمحہ قرار دیا اور کہا کہ قدیم ہندوستانی تعلیم خود شناسی اور آزادی کی جستجو کا سفر تھی لیکن نوآبادیاتی دور میں مغربی ماڈل نے اسے ادارہ جاتی شکل دی۔ آج کی ضرورت ہے کہ ہم اقدار اور مہارتوں کو یکجا کریں تاکہ مستقبل کی بہتر تیاری ممکن ہو۔ پروفیسر این ناگا راجو ’’نیا سماجی معاہدہ اور اساتذہ‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ اس پروگرام کی میزبانی اسکول برائے تعلیم و تربیت نے کی جبکہ صدارت پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر ‘مانو’ نے انجام دی۔انہوں نےمزید کہا کہ تعلیم دینا ایک نہایت پیچیدہ، باریک اور چیلنج بھرا عمل ہے۔ آج کے استاد کو مہربان، ماہر، اخلاقی عزم سے لیس اور مثبت فکر رکھنے والا ہونا چاہیے تاکہ وہ متنوع کلاس روموں میں شامل نسلی، لسانی، ثقافتی، مہاجر اور پسماندہ طبقات کے طلبہ کی رہنمائی کر سکے۔ ہمیں شمولیتی تدریس کو فروغ دینا ہوگا اور تعلیم کو ایک عوامی بھلائی کے طور پر تاحیات سیکھنے کے ساتھ وسعت دینی ہوگی۔
ایفلو کے وائس چانسلر نے ہندوستان کی تعلیمی پالیسیوں کے ارتقائی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "رادھا کرشنن کمیشن (1948) نے تعلیم میں اقدار کو بنیادی قرار دیا، کوٹھاری کمیشن (1966) نے سماجی و اقتصادی ترقی، ماحولیات اور عملی تربیت پر زور دیا جبکہ قومی تعلیمی پالیسی (2020) مہارتوں، عالمی نقطۂ نظر اور بین الاقوامی روابط پر مرکوز ہے۔” ان کے مطابق ہندوستان میں 35 سال سے کم عمر 800 ملین نوجوان ہیں مگر ان میں سے صرف 5.4 فیصد نے ہی رسمی مہارت کی تربیت حاصل کی ہے جب کہ جنوبی کوریا میں یہ شرح 94 فیصد ہے۔ اسی لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی 2020) ہندوستان کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مکالمے کا آغاز ہماری اپنی سرحدوں سے ہونا چاہیے۔ استاد کی ذمہ داریاں پیچیدہ اور چیلنجوں سے بھرپور ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے فلسفیانہ پہلو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رنگوں کی پہچان، حالات کا فہم، کمزوریوں کی شناخت، صلاحیت کی ترقی اور معیار کی تمیز سیکھنے کے بنیادی مراحل ہیں۔ ان کے مطابق تدریس سب سے اعلیٰ پیشہ ہے جو بے پناہ ذمہ داریوں کے ساتھ آتا ہے۔ عاجزی اور انکساری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے عمر خیام کا حوالہ دیا: "یہ دعویٰ مت کرو کہ تم نے تمام علم حاصل کر لیا ہے کیونکہ تھوڑا سا علم بھی دوسروں کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔” اسی طرح انہوں نے علامہ اقبال کی اپنے بیٹے کو دی گئی نصیحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اندرونی قوت پیدا کرو تاکہ زندگی کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔
تقریب کے مہمانِ اعزازی پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار ‘مانو’ تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اساتذہ کو تربیت اور سہولت بخش نظام کے ذریعے بااختیار بنانے کی ادارہ جاتی ذمہ داری پر زور دیا۔
یومِ اساتذہ کے موقع پر منعقدہ تقریب میں چار علمی خدمات کی اجرائی بھی عمل میں آئی۔ ان میں تین کتابیں اور ایک ریسرچ اسکیل شامل تھا۔ ان علمی خدمات میں جہانگیر عالم (شعبہ تعلیم و تربیت) کی تصنیف، ڈاکٹر جرار احمد، ڈاکٹر عبدالجبار اور غفران برکاتی کی مرتبہ کتاب، ڈاکٹر محمد تابش کی مرتبہ کتاب، ڈاکٹر گوندیا گوداورتھی (شعبہ انگریزی) کی تصنیف اور ڈاکٹر مومن سمیہ (شعبہ تعلیم و تربیت) کی کتاب شامل ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں پروفیسر ایم ونجا، ڈین اسکول آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ و کنوینر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پروفیسر شاہین الطاف شیخ، صدر شعبہ تعلیم و تربیت نے مہمانِ خصوصی کا تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محسنہ انجم انصاری اور ڈاکٹر افشاں عبدالکریم نے انجام دیے جبکہ ڈاکٹر محمد اطہر حسین نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
فیکلٹی ممبروں، ریسرچ اسکالروں اور طلبہ کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی، جن میں ڈینز، پروفیسرز، صدورِ شعبہ جات اور ڈائرکٹرس بھی شامل تھے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025