طفل برہنہ پا کا عروج (آپ بیتی)
مصنف: پروفیسر جلیس احمد خاں ترین
مترجم: محمود فیض آبادی
صفحات: 272 قیمت300/- اوّل اردو ایڈیشن2022
ناشر: فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ، D-84 ابوالفضل انکلیو I، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025-
فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ (پ) لمیٹڈ، نئی دہلی کے روح و رواں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نہ صرف بک پبلشنگ میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ کتاب کی ایڈیٹنگ اور نظرثانی پر ان کو ملکہ حاصل ہے۔ انگریزی ٹیبلائڈ ’ملّی گزٹ‘ کی ادارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بےباک صحافی اور دانشور ہیں۔ انہوں نے ’ملّی گزٹ‘ کے ساتھ ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا۔ لیکن ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے سے بھرتی کی کتابیں شائع نہیں کیں بلکہ قارئین کو وہ اچھوتے اور سلگتے موضوعات (Burning Issues) پر انگریزی، اردو اور ہندی میں کتابیں مہیا کرتے ہیں۔ فاروس میڈیااینڈ پبلشنگ کا اشاعتی سفر جاری ہے اور اس کی فہرست کتب میں مزید اضافے ہورہے ہیں۔
’طفل برہنہ پا کا عروج‘ ایک ایسے اسکالر کی آپ بیتی ہے جو سب سے پہلے انگریزی میں ‘Rise of a Barefoot Boy An Autobiography’ کے نام سے شائع ہوئی۔ پروفیسر جلیس احمد خاں ترین (پیدائش 26 اپریل 1947) کا شمار ملک کے مشہور سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی حیثیت ماہر تعلیم اور تعلیمی منتظم کی بھی ہے۔ ٹیپو سلطان کے شہر میسور میں پیدا ہونے والے پروفیسر جلیس احمد خاں تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے جن میں کشمیر یونیورسٹی (2001 تا 2004)، پانڈیچیری یونیورسٹی (2007 تا 2013) اور عبدالرحمٰن یونیورسٹی چنئی (2013 تا 2015) شامل ہیں۔ انہوں نے 1967 سے 2007 تک کا عرصہ میسور یونیورسٹی میں تدریس و تحقیق میں گزارا۔ وہ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی میسور کے بانی سکریٹری رہے اور اس وقت اس کے صدر ہیں۔
پروفیسر جلیس احمد خاں کی یہ آپ بیتی ’طفل برہنہ پا کا عروج‘ دراصل ایک لوور مڈل کلاس میں پیدا ہونے والے بچے کی جدوجہد سے پُرداستان ہے، جس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عروج کا ہر قدم کتنا دشوار گزار اور راہیں کتنی پُرخار ہوتی ہیں۔ یہ آپ بیتی ان کی زندگی کے طویل مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب میں ان کا یہ پیغام موجود ہے کہ ’’رجعت پسند کٹر پنتھی گروہوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اکثریت کے نمائندے ہیں ایک مغالطہ ہے۔‘‘ ان کا پیغام یہ بھی ہے کہ ’’اکثریت نہ متعصب ہے نہ غیر روادار، نہ کٹرپنتھی، نہ منافرت پسند۔ امن آشتی کا راستہ ہے کہ اکثریت سے ربط و ضبط اور میل ملاپ بڑھایا جائے اور ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔‘‘
کتاب کا پیش لفظ معروف بیوروکریٹ، صحافی اور دانشور سدھدیندر کلکرنی کے قلم سے ہے جن کی مصنف سے صرف ایک ملاقات اس وقت ہوئی تھی جبکہ وہ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ 2003 میں کشمیر یونیورسٹی کے کنووکیشن میں شریک ہوئے تھے۔ وہ اس وقت اٹل جی کے دفتر میں خصوصی معاون کی حیثیت سے برسرکار تھے۔ انہوں نے اپنے ’پیش لفظ‘ میں لکھا ہے کہ جب ڈاکٹر ترین نے کشمیر یونیورسٹی کو الوداع کہا تو ان کے اعزاز میں وہاں کے دو سو اساتذہ نے ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ایک ’سپاس نامہ‘ بھی پیش کیا گیا۔ مسٹر کلکرنی سپاس نامہ کے آخری جملوں کو اس طرح نقل کرتے ہیں:
’’کشمیر یونیورسٹی کی ترقی کے لیے آپ کے کام کو اس کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ہم آپ کی قیادت کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اگرچہ دستور ہند کی دفعہ 370 کے تحت غیر کشمیریوں کو کشمیر میں مکان بنانے کا حق نہیں ہے لیکن اس سے آپ کے اوپر کوئی قید نہیں لگی کہ آپ ہمارے دلوں میں آنے والی نسلوں تک کے لیے عزت و احترام اور محبت کا مکان تعمیر کریں۔‘‘ (صفحہ 18)
مسٹر کلکرنی نے اپنے ’پیش لفظ‘ میں کشمیر یونیورسٹی کیمپس کے سیاسی اکھاڑے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’جموں و کشمیر میں طویل سیاسی خلفشار اور تشدد کے نتیجے میں کشمیر یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ ان سے پیشتر ایک وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈاکٹر مشیرالحق، جگموہن کی گورنرشپ کے زمانے میں سرکش عناصر کے ہاتھوں اغوا ہوکر قتل ہوچکے تھے۔ خود ڈاکٹر ترین کو ’ہندوستانی ایجنٹ‘ قرار دے کر دھمکی بھرے خطوط بھیجے گئے تھے۔‘‘ تاہم مسٹر کلکرنی اس بات کی نفی کرتے ہیں:
’’اُس دور میں ایک خیال، جو اصلاً بے بنیاد تھا، عام طور سے پھیل چکا تھا کہ کشمیر یونیورسٹی علیحدگی پسند عناصر کا اڈہ بن چکی ہے۔‘‘
مسٹر کلکرنی کی یہ بات حقیقت کے قریب تر لگتی ہے کہ:
’’ایک نفسیاتی رکاوٹ نے کیمپس کو ریاستی حکومت اور عوام الناس سے دور کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ریاستی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے، جو یونیورسٹی کے پرو چانسلر بھی تھے، بیس سال کے عرصے میں یونیورسٹی میں قدم نہیں رکھا۔ گورنر مسٹر گریش چندرا نے جو یونیورسٹی کے چانسلر تھے، یونیورسٹی کو کبھی دیکھا نہیں۔‘‘ (صفحہ 16)
ڈاکٹر ترین کی یہ آپ بیتی یونیورسٹی سیاست پر بھی بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ انہوں نے ترین خاندان کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دراصل ترین خاندان کے سلسلۂ نسب کو لوگ ترین کوٹ کے قبائل سے جوڑتے ہیں جو افغانستان کے صوبہ قندھار کا ایک علاقہ ہے۔ یہاں کے باشندے بڑی اہمیت والے تھے جو تجارت کی غرض سے یا سپاہی، فوجی افسر یا منتظمین کی حیثیت سے نوکری کی تلاش میں برصغیر ہند کے سبھی علاقوں کو ہجرت کرتے رہتے تھے۔ (صفحہ 29)
اُترپردیش کے سنبھل میں واقع ’سرائے ترین‘ کے لوگ بھی شاید قندھار ہی سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہاں کی ایک نمایاں شخصیت ڈاکٹر حنیف ترین (مرحوم) کی تھی جو ایک کشمیری لڑکی سے شادی کرکے سری نگر میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے بہترین شعرا میں ہوتا تھا۔
پروفیسر جلیس احمد خان ترین کو یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران جن مصائب کو جھیلنا پڑا اور سائنس و ٹکنالوجی کی تحقیق کے دوران میں وہ جن حالات سے گزرے وہ کربناک ہے۔ ان کو جنوبی ہندوستان کی ایک اہم یونیورسٹی کے انتظامیہ، اساتدہ اور ریسرچ اسکالرز کے جو سیاسی عزائم محسوس ہوئے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ ایسا ماحول صرف شمالی ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ پروفیسر ترین کا تعلیمی سفر فرانس اور جاپان وغیرہ کا بھی ہوا۔ یونیورسٹی اساتذہ میں ان کے محسن بھی پائے جاتے تھے لیکن اپنے محسن سے رابطہ رکھنے پر اساتذہ کی جانب سے ان کو ذہنی اذیت بھی دی گئی۔ انہوں نے امریکی ایکٹیوسٹ مارٹن کنگ لوتھر (جونیئر) کا ایک قول نقل کیا ہے کہ ’’کسی شخص کو جانچنے کا اصل مقام وہ نہیں ہے جہاں وہ خوش حالی کے وقت کھڑا ہوتا ہے بلکہ وہ مقام ہے جہاں وہ چیلنج اور تنازعات کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ 75)
پروفیسر ترین کے پی ایچ ڈی کے لیے لکھے گئے تحقیقی مقالہ کے ساتھ بھی سیاست کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے اپنا تحقیقی تھیسس 1976 میں میسور یونیورسٹی کے ڈاکٹر کٹّی کی نگرانی میں لکھا تھا لیکن ان کو بڑی مشکل سے 1978 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ (صفحہ 81)
پروفیسر ترین لکھتے ہیں:
’’میری جائے کار پر میری حالتِ زار بدستور برقرار رہی کیونکہ میرے پاس کوئی مخصوص پروجیکٹ نہیں تھا۔ نہ میرے پاس کوئی ایسا کام تھا جس پر میں اپنی توجہ مرکوز رکھ سکوں۔ ہر دن میرے لیے عذاب کا دن ہوتا تھا۔ جب مجھ سے کہا جاتاکہ تم لائبریری جاو، کسی ریسرچ پروجیکٹ کو تلاش کرو اور کام کرنا شروع کردو۔ مجھے طعنے دیے جاتے اور روز مجھ سے کہا جاتا کہ اپنی تنخواہ کو حلال کرنے کے لیے ریسرچ پیپر شائع کرو، جس طرح دوسرے اسکالر اپنے پروجیکٹوں پر کام کر رہے اور پیپر شائع کر رہے تھے۔‘‘ (صفحہ 75)
پروفیسر نائیڈو کا ذکر پروفیسر ترین نے بڑی محبت سے کیا ہے جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان سے گھریلو روابط بھی تھے لیکن آخری دور میں پروفیسر نائیڈو بھی مصنف کے ساتھ نا انصافی کے مرتکب ہوئے۔ اس کے باوجود پروفیسر ترین نے ان سے رابطہ منقطع نہیں کیا بلکہ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا تعاون کیا جو بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ (صفحہ 74)
پروفیسر ترین نے یونیورسٹی کے ماحول کا چند الفاظ میں یوں تجزیہ کیا ہے:
’’… ڈپارٹمنٹ میں ایک عجیب طرح کا ورک کلچر تھا۔ ہر اسکالر کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ دوسروں سے زیادہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کو متاثر کرے۔ دوسرے سینئر استاد ڈاکٹر گووند راجلو اور پروفیسر وشواناتھیا میں رقابت چلتی تھی۔ ان کی باہمی چشمک کے طفیل ڈپارٹمنٹ کے اسکالر دو گروہوں میں منقسم ہوچکے تھے۔ ڈپارٹمنٹ کی اس سَستی سیاست سے الگ میرا راستہ احتیاط اور تدبر کا تھا۔‘‘ (صفحہ 76)
پروفیسر ترین 1990 میں شعبہ جیولوجی کے صدر اور منرالوجی انسٹیٹیوٹ کے آنریری ڈائرکٹر بھی ہوئے۔ یہاں بھی ان کو تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اس شعبہ میں اصلاحات کے عزائم کو پورا کیا۔
یہ کتاب یقینی طور پر ایک سائنس داں، ماہر تعلیم اور دانشور کے عروج کی کہانی ہے جس نے ہزار مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا بلکہ ہر جگہ اصولی زندگی گزاری۔
اپنی کتاب کے ایک موضوع ’زندگی کے اسباق‘ میں پروفیسر ترین لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے کھوکھلے نعروں سے وہ چند لمحوں کے لیے متاثر ضرور ہوئے تھے لیکن جلد ہی قلعی کھل گئی اور وہ ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال کو محسوس کرنے لگے۔ وہ اسی باب میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’… ایک نئے ترقی پسند ہندوستان کے بارے میں میرا خواب چکناچور ہوگیا اور دوسری اقلیتوں کی طرح میں بھی بی جے پی گورنمنٹ کے تحت خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا۔ اس دائیں بازو کی حکومت آنے کے بعد حاشیے پر بیٹھے ہوئے ہندتو گروہوں کی ہمت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اقلیتی افراد، دلت اور کچلے ہوئے طبقات خوف کا شکار ہیں۔‘‘ (صفحہ 249)
مصنف کا کہنا ہے:’’میرا یہ محکم اور غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ تعلیم اور خصوصاً عورتوں کی تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعہ مہذب، روادار اور ہم آہنگ سوسائٹی کی تخلیق کی جاسکتی ہے۔‘‘ (صفحہ 251)
اپنی آپ بیتی کے خاتمے پر پروفیسر ترین ہندوستانی مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ مسلم قیادت ان کے مفادات کی حفاظت کرے گی اور ان کے مقاصد کی وکالت کرے گی تو میری نظر میں یہ توقعات بےبنیاد ہیں۔ کیونکہ مسلم سیاست داں جہاں بھی اور جس پارٹی سے بھی منسلک ہیں وہ مجبور ہیں کہ اپنی پوزیشن اور منصب کو سلامت رکھنے کے لیے اپنے سیاسی آقائوں کے سامنے اپنی سیکولر شبیہ کو بار بار ثابت کرتے رہیں۔ اس عمل میں وہ اپنا سیکولر چہرہ اس صورت میں برقرار رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی کمیونٹی سے دوری برقرار رکھیں اور ان کے لیے کچھ نہ کریں، نہ ان کے مسائل اٹھائیں، نہ ان کی بہبود کا کام کریں۔‘‘ (صفحہ 255)
لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے:’’واقعہ یہ ہے کہ اگر مسلم کسی سے کچھ ہمدردی پانے کی توقع کرسکتے ہیں تو وہ ہیں آزاد خیال، اعتدال پسند اور مہذب غیر مسلم سیاست داں اور سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیمیں جو ان کے مسائل کو اٹھاسکتی ہیں۔ لہٰذا پوری برادری کی پہلی اوّلیت تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم ہونا چاہیے۔‘‘ (صفحہ 255)
مصنف مزید لکھتے ہیں:
’’آپ اکثریت کے ساتھ تعلقات استوار کرکے خوش گوار تعلقات نہیں قائم کریں گے تو امن و سکون سے محروم رہیں گے۔ لہٰذا اسلام اور مسلموں کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کا واحد طریقہ ہے خوشگوار تعلقات اور ربط و ارتباط۔‘‘ (صفحہ 260)
پروفیسر جلیس احمد خاں ترین کی یہ آپ بیتی یقینی طور پر جدید ہندوستان کے مسائل بالخصوص تعلیمی مسائل اور سماجی سروکار کو سمجھنے میں بےحد معاون ہوسکتی ہے۔ اس کے ناشر نے اس اہم آپ بیتی کو اردو میں منتقل کرکے اردو سرمائے میں ایک اہم اضافہ کیا ہے۔
***
***
یہ کتاب یقینی طور پر ایک سائنس داں، ماہر تعلیم اور دانشور کے عروج کی کہانی ہے جس نے ہزار مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا بلکہ ہر جگہ اصولی زندگی گزاری۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023