بیرسٹر سید حسن امام : وکیل، صحافی، مجاہد آزادی اور سماجی جہد کار
افروز عالم ساحل
آج کے دور میں شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ شہرت یافتہ اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کا نام بہار میں پہلے’سرچ لائٹ‘ تھا اور اس ’سرچ لائٹ‘ کو نکالنے میں بیرسٹر سید حسن امام کا ایک اہم رول رہا ہے۔
سال 1917 میں بہار کے سب سے مشہور اخبار ‘بہاری’ کی اشاعت روک دی گئی تھی۔ بیرسٹر حسن امام اس اخبار کے بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین تھے۔ اس کے بعد ‘بہاری’ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک اخبار دوبارہ نکالنے پر اتفاق ہوا۔ اب اس اخبار کا نام ‘سرچ لائٹ’ رکھا گیا تھا اس انگریزی اخبار کا آغاز 1918 میں کیا گیا اور اس کو چلانے کے لئے سید حسن امام، جو اس وقت بہار کے سب سے بڑے قائدین میں سے ایک تھے، نے پانچ ہزار روپے کی مدد کی اور یہ اخبار نکلنا شروع ہوا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر سید حیدر حسین تھے، جو حسن امام کے خاص دوست تھے۔ اس کے اخبار کے بانی ٹرسٹیوں میں حسن امام کے علاوہ ان کے دوست سچیدانند سنہا اور ڈاکٹر راجندر پرساد شامل تھے۔ مشہور مؤرخ ڈاکٹر کے کے دت کے مطابق ‘سرچ لائٹ کی تاریخ آزادی کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔’
1986 میں برلا گروپ نے یہ اخبار خریدا اور اس کو سرچ لائٹ کے بجائے پٹنہ سے ہندوستان ٹائمز کے نام سے نکالنا شروع کردیا، چنانچہ یہ اخبار اب ’سرچ لائٹ‘ سے ’ہندوستان ٹائمز‘ بن گیا تھا۔
31 اگست 1871 کو پٹنہ ضلع کے نیورا گاؤں میں پیدا ہوئے سید حسن امام، سید امداد امام کے بیٹےاور سر علی امام کے چھوٹے بھائی تھے۔ پٹنہ اور آرا سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1889 میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلینڈ چلے گئے۔ 1892 میں ہندوستان واپس آئے اور کلکتہ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ 1912-16ء تک وہ کلکتہ ہائی کورٹ میں جج رہے۔ اس کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آنے کے بعد آپ نے کلکتہ سے پٹنہ مراجعت کی۔
وکالت کی دنیا میں سب سے بڑے نام
سرزمین ہند برطانوی دور کے سول لاء کی دنیا میں سید حسن امام جیسا کوئی نہیں پیدا کر سکی۔ ’ہندو لاء‘ کے سلسلے میں حسن امام کو اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے قانون کو سامنے رکھ کر جب وہ بحث کرتے تو شاستروں اور ویدوں کے حوالے سے ایسے نکتے پیش کرتے کہ بڑے بڑے سنسکرت جاننے والے پنڈتوں کے ہوش اڑ جاتے تھے۔
حسن امام ہندو لاء کے تو پنڈت قبول کر لئے گئے تھے، لیکن ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اس وقت سول لاء کے سب سے بڑے وکیل ہوتے ہوئے بھی بہت سے فوجداری مقدموں کی بھی پوری کامیابی کے ساتھ پیروی کی۔ جلیانوالہ باغ کیس کی پیروی بھی سید حسن امام ہی کررہے تھے۔
اگر آج بھی ایسے وکلا کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے جدید ہندوستان کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہو تو یقیناً سید حسن امام کا نام اس فہرست میں سب سے اوپر ہوگا۔
خلافت تحریک میں سب سے زیادہ سرگرم
1920 میں شروع ہوئے خلافت تحریک میں سید حسن امام نے سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا۔ 24 نومبر 1919 کو دلی میں اے کے فضل الحق کی صدارت میں آل انڈیا خلافت کانفرنس بلائی گئی، جس میں گاندھی جی، پنڈت موتی لال نہرو، پنڈت مدن موہن مالویہ اور دیگر کئی بڑے لیڈران شامل تھے۔ بہار سے سید حسن امام بہاری مسلمان رہنماؤں کی پوری ٹیم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ اسی کانفرنس میں گاندھی جی کی رائے سے یہ تجویز منظور ہوئی کہ اگر یوروپ اور مغربی ایشیا کی صلح کی شرائط ان کے موافق ہوں گی تو حکومت کے ساتھ عدم تعاون کیا جائے گا۔ حالانکہ یہاں واضح رہے کہ سید حسن امام اور ان کے دوست سچیدانند سنہا تحریک عدم تعاون کے آئیڈیا سے متفق نہیں تھے۔ بہار میں یہ دونوں لوگ اس تحریک کے مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ جب کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں عدم تعاون کا پروگرام منظور ہو گیا تو حسن امام نے کانگریس سے استفیٰ دے دیا۔ لیکن تحریک خلافت میں حسن امام ہمیشہ سرگرم رہے۔
دلی کی خلافت کانفرنس کے فوراً بعد ہی پٹنہ کے انجمن اسلامیہ ہال میں 30 نومبر 1919 کو ایک بہت بڑا عام جلسہ منعقد ہوا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سینکڑوں لوگوں کو جگہ کی قلت کی وجہ سے واپس لوٹنا پڑا۔ حسن امام نے مولانا شاہ رشیدالحق کا نام صدارت کے لئے تجویز کیا، جس کی تائید راجندر پرساد نے کی۔ اس جلسہ میں حسن امام کی تقریر نے پورے بہار میں جوش بھر دینے کا کام کیا تھا۔ اس کام میں ان کا پورا خاندان لگا ہوا تھا۔ پٹنہ میں صوبائی خلافت کمیٹی کے سکریٹری مسٹر سمیع تھے، جو سید حسن امام کے داماد تھے۔ واضح رہے کہ حسن امام اس کمیٹی کے صدر تھے۔
دسمبر 1919 میں مجلس خلافت نے اپنا سالانہ اجلاس امرتسر میں منعقد کیا۔ اس اجلاس میں مجلس خلافت نے برطانوی حکومت اور ممبران پارلیمنٹ کو ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے پوری طرح آگاہ کرنے کی غرض سے ایک پانچ نفری وفد انگلینڈ بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس وفد میں مولانا محمد علی، مولانا سلیمان ندوی، مسٹر ابوالقاسم، محمد حیات خان کے ساتھ ساتھ سید حسن امام کا نام بھی شامل تھا۔
24 فروری 1921 کلکتہ میں بنگال قانون ساز اسمبلی کے منتخب مسلم ممبروں کے وفد کے سامنے اس وقت کے وائسرائے تقریر کررہے تھے۔ اس تقریر میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ ملک میں چل رہے خلافت تحریک کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لئےآپ لوگوں کی ایک ٹیم یوروپ جائے اور اپناموقف پیش کرے۔ جانے والے لوگوں کی ٹیم میں وائسرائے نے چار افراد کا نام شامل رکھا۔ جس میں سب سے اہم نام حسن امام کا تھا۔ اس کے علاوہ آغا خان، مسٹر چھوٹانی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکوں کوجب انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم میں شکست دے کر ‘سیورے’ معاہدے کے لئے مجبور کیا تو ہندوستانیوں کا ایک وفد حسن امام کی سربراہی میں انگلینڈ گیا تھا۔ یہی نہیں کہ ترکوں کو پوری طرح سے انگریزوں کے خلاف ابھارا، بلکہ اس معاہدے کو توڑنے کی رائے دی اور جنگ کو جاری رکھنے کے لئے بھی للکارا۔
بہار کا قیام اور حسن امام
بہار کو بنگال سے الگ کر بہار نام کی ریاست بنانے میں سید حسن امام کا رول سب سے اہم ہے۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے بہار 1912 میں وجود میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1914 میں حسن امام نے لارڈ ہارڈنگ کی دعوت پٹنہ میں واقع اپنے مکان ’رضوان‘ میں کی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ میں حسن امام پہلے بیرسٹر تھے جن کے گھر پر انڈیا کا وائسرائے ملنے آیا تھا۔
کانگریس سے رشتہ اور ملک کی آزادی میں ان کا رول
ویسے تو 1906 میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی تو حسن امام نے اس کے قیام میں کارہائے نمایا انجام دیئے۔ وہیں 1909 میں بہار پردیش کانگریس کمیٹی سونپور میں قائم ہوئی اور اس کے پہلے بانی صدر حسن امام ہی بنے۔ اسی سال نومبر میں انہوں نے بہار طلباء کانفرنس کے چوتھے اجلاس اور کانگریس کی صوبائی کانفرنس کی صدارت کی۔ 1916 میں انہوں نے ہوم رول تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ 1917 میں بہار پرووینشیل کانفرنس کے صدارتی خطاب میں انہوں نے مسز اینی بسنٹ کی رہائی کی پرزور وکالت کی۔ یہی نہیں، انڈین نیشنل کانگریس کا ایک خصوصی اجلاس 29 اگست سے یکم ستمبر 1918 ء تک بمبئی میں ہوا، اس کی صدارت بھی سید حسن امام ہی کر رہے تھے۔ اسی سال وہ آل انڈیا کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 1921 میں بہار و اڑیسہ لیجسلیٹیو کونسل کے ممبر بنے۔ 1927 میں بہار میں سائمن کمیشن کی بائیکاٹ تحریک کی قیادت کی۔ وہیں 1930 میں سول نافرمانی کی تحریک میں فعال طور پر حصہ لیا۔
مہاتما گاندھی سے حسن امام کا تعلق
مہاتما گاندھی سے حسن امام کا بہت گہرا تعلق تھا۔ ان کی قابلیت کا لوہا مہاتما گاندھی بھی مانتے تھے۔ اس کا اندازہ گاندھی جی کے ذریعے لکھے ہوئے کئی خطوط سے ہوتا ہے۔ ایک خط گاندھی جی نے 24 اگست 1926 کو سابرمتی آشرم سے لکھا تھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں: ‘پیارے دوست! آپ کا خط موصول ہوا۔ میں آپ کو اور آپ کی میزبانی کو بالکل بھی نہیں بھولا ہوں۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ آپ کا اعلان تو مجھے ذرا بھی پسند نہیں آیا۔ آپ کی اپیل کی ریڑھ فرقہ واریت ہی ہے۔ آپ اپنے ہندو ووٹروں سے صرف اس بنیاد پر ووٹ پانے کی امید کرتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں، اس بات پر نہیں کہ آپ زیادہ قابل ہیں اور آپ میں کئی دوسری خوبیاں ہیں۔’
گاندھی اور حسن امام کے مابین دوستی میں ایک خاص بات یہ تھی کہ دونوں بہت سارے معاملوں میں اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ان کے ردمیان بات چیت مسلسل جاری رہتی تھی۔ اور دونوں کھل کر دونوں ایک دوسرے کو اپنے خیالات سے آگاہ کرتے تھے۔
ایک اور خط میں گاندھی جی حسن امام کے رائے پر اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ خط گاندھی جی نے 10 اگست 1924 کو سابرمتی آشرم سے لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ‘پیارے دوست! ہندو وہ ہے جو ’وید‘، ’اپنشد‘، ‘پورانوں‘ وغیرہ اور ورن آشرم دھرم میں یقین رکھتا ہے۔ میں آپ کے اس قول سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ ہمیں ان لوگوں کے دعویٰ کو قبول نہیں کرنا چاہئے جو اپنےآپ کو کسی خاص مذہب کے پیروکار بتاتے ہیں۔ میں اپنے عقیدے کا بہترین ماہر ہونے کا دعوی کرتا ہوں۔ کیا آپ ایسا نہیں کرتے؟ ‘
ایک سماجی مصلح کے کردار میں حسن امام
حسن امام سماج سدھار کے زبردست حمایتی تھے۔ انہوں نے خواتین اور دلت طبقوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش پوری زندگی کی۔ انہوں نے تعلیم کی اہمیت خصوصاً خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ آپ علی گڑھ اور بنارس دونوں کالجوں میں ٹرسٹی تھے۔ اس دور میں پٹنہ کے بی این کالج کو ہر سال مدد کے طور پر ایک ہزار روپے دیا کرتے تھے۔ تب اس رقم کی بڑی اہمیت تھی۔ حسن امام 19 اپریل، 1933 کو بہار کے ضلع شاہ آباد کے جپلہ نامی گاؤں میں اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔
مسلمانوں میں جو لوگ ابھی بھی یہ سوچتے ہیں کہ مسلمان اگر کوئی اخبار نکالیں تو وہ کامیاب نہیں ہوں گے، انہیں لازمی طور پر اخبار سرچ لائٹ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ سید حسن امام کی تاریخ بھی پڑھنی چاہئے۔