سپریم کورٹ نے انتخابی بانڈز سے متعلق کیس 5 رکنی آئینی بنچ کے پاس بھیجا

نئی دہلی، اکتوبر 16: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ اس معاملے کی اہمیت کی وجہ سے انتخابی بانڈ اسکیم کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت پانچ ججوں کی آئینی بنچ کرے گی۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ عدالت کو اس کیس کو موجودہ تین ججوں کی بنچ سے کم از کم پانچ ججوں کی بڑی بنچ کو بھیجنے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔

انتخابی بانڈز ایسے مالیاتی آلات ہیں جنہیں شہری یا کارپوریٹ گروپ بینک سے خرید سکتے ہیں اور کسی سیاسی جماعت کو عطیہ کر سکتے ہیں، جو پھر پیسے کے عوض ان کو چھڑانے کے لیے آزاد ہے۔ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جنوری 2018 میں انتخابی بانڈ اسکیم متعارف کرائی تھی۔

انتخابی بانڈز کے خلاف مقدمہ ستمبر 2017 میں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے یہ کیس زیر التواء ہے۔ مارچ میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ غور کرے گی کہ آیا انتخابی بانڈز کے خلاف درخواستوں کو آئینی بنچ کو بھیجا جانا چاہیے یا نہیں۔

گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے عرضیوں کی آخری سماعت 31 اکتوبر کو درج کی تھی۔

10 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے دلیل دی تھی کہ عرضی میں اٹھائے گئے مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم کو منی بل کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت پہلے ہی ایک اور درخواست کی سماعت کر رہی ہے جس میں پارلیمنٹ میں منی بل کے طور پر قوانین کی منظوری سے متعلق قوانین کو چیلنج کیا گیا ہے۔

منی بل وہ بل ہوتے ہیں جو راجیہ سبھا کی منظوری کے بغیر پاس کیے جا سکتے ہیں۔ الیکٹورل بانڈ اسکیم کو بھی لوک سبھا میں منی بل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تاہم درخواست گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ وہ منی بل کے مسئلے کے بغیر اس معاملے پر بحث کریں گے۔

درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہے کہ انتخابی بانڈ اسکیم کی دفعات بدعنوانی کو فروغ دیتی ہیں۔

سابق مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے 2017 میں اپنی بجٹ تقریر میں انتخابی بانڈ اسکیم کا اعلان کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت سیاسی فنڈنگ کو صاف کرنا چاہتی ہے اور اسے ایک شفاف عمل بنانا چاہتی ہے۔

تاہم یہ پورا عمل غیرشفاف ہے کیوں کہ کسی کو بھی ان سود سے پاک بانڈز کی خریداری کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں کو ان سے حاصل رقم کا ذریعہ ظاہر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس رقم کے ’’کالے‘‘ ہونے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ اسے چیک کے ذریعے ادا کرنا ہوتا ہے۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں پایا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کل اعلان کردہ اثاثے 2021-22 میں کانگریس کے اثاثوں سے ساڑھے سات گنا تھے۔ بی جے پی کے اعلان کردہ اثاثوں کی رقم گذشتہ سال 6,046.81 کروڑ روپے تھی، جو کہ 2020-21 میں 4,990 کروڑ روپے سے 21.17 فیصد زیادہ ہے۔

کانگریس کے اعلان کردہ اثاثے پچھلے سال 805.68 کروڑ روپے تھے، جو 2020-21 میں 691.11 کروڑ روپے سے 16.58 فیصد زیادہ ہیں۔