سپریم کورٹ تبدیلی مذہب مخالف قانون پر ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف مدھیہ پردیش حکومت کی عرضی پر سماعت کے لیے تیار
نئی دہلی، جنوری 3: سپریم کورٹ نے منگل کے روز مدھیہ پردیش حکومت کی اس درخواست پر سماعت کرنے پر اتفاق کیا جس میں ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جو ریاست کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے ضلع مجسٹریٹ کو بتائے بغیر اپنا مذہب تبدیل کیا ہے۔
17 نومبر کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2021 کے تحت کسی بھی شخص کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلع انتظامیہ کو مطلع کرنا لازمی بنانا، بنیادی طور پر غیر آئینی ہے۔
ایکٹ کے سیکشن 10 کے مطابق جو لوگ دوسرا مذہب قبول کرنا چاہتے ہیں، انھیں 60 دن پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک اعلامیہ جمع کروانا ہوگا، جس میں بتایا جائے کہ وہ کسی زبردستی، غیر ضروری اثر و رسوخ یا لالچ کے تحت ایسا نہیں کررہے ہیں۔
ریاستی قانون کے مطابق اس شق کی تعمیل نہ کرنے والوں کو تین سے پانچ سال قید اور کم از کم 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
منگل کو سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے ہائی کورٹ کے حکم کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے بار بار درخواست کی۔
اس پر سپریم کورٹ نے کہا: ’’تمام مذہبی تبدیلی غیر قانونی نہیں ہو سکتی۔‘‘
مہتا نے دلیل دی کہ شادی کو غیر قانونی مذہبی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ’’ہم اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔‘‘
تاہم جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے اس حکم کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا اور معاملے پر نوٹس جاری کیا۔ عدالت اب اس کیس کی سماعت 7 فروری کو کرے گی۔
مدھیہ پردیش میں تبدیلی مذہب مخالف قانون، جسے گذشتہ سال مطلع کیا گیا تھا، اس میں ایسے شخص کے لیے 10 سال تک قید کی سزا کی دفعات بھی موجود ہیں، جسے کسی شخص کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے شادی کا استعمال کرنے کا قصوروار پایا جائے۔
یہ قانون بین المذاہب شادیوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کی مہم کے عین مطابق ہے۔ پارٹی اس طرح کی شادیوں کو ’’لو جہاد‘‘ کے طور پر بیان کرتی ہے۔
2017 کے بعد سے بی جے پی کی حکومت والی پانچ ریاستوں نے یا تو نئے انسداد تبدیلی مذہب قوانین منظور کیے ہیں یا موجودہ قوانین کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔ قوانین کے نئے ورژن نے مذہبی تبدیلیوں کو محدود کرنے کے لیے سخت سزائیں اور نئی بنیادیں رکھی ہیں، جیسے کہ ’’شادی کے ذریعے‘‘ مذہبی تبدیلی۔