بنگال میں ٹی ایم سی کی شاندار فتح، ڈی ایم کے نے تمل ناڈو میں جیت حاصل کی، بائیں بازو نے کیرالہ میں اقتدار برقرار رکھا اور بی جے پی نے آسام میں فتح حاصل کی

نئی دہلی، مئی 3: مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بنگال اسمبلی انتخابات میں اتوار کے روز ترنمول کانگریس کو، مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دے کر ایک شاندار فتح کی راہ دکھائی۔

معلوم ہو کہ بنگال اسمبلی انتخابات نازک کورونا وائرس وبائی امراض کی صورت حال کے باوجود ریکارڈ آٹھ مرحلوں میں منعقد ہوئے تھے۔ آج دوپہر 01:15 بجے تک ترنمول کانگریس بنگال کی 294 نشستوں میں سے 212 پر جیت حاصل کرچکی ہے اور ایک پر برتری میں ہے۔ وہیں زعفرانی پارٹی 100 سے بھی کم نشستیں حاصل کرسکی ہے۔

تمل ناڈو، کیرالہ، آسام اور پڈوچیری میں بھی ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج صبح آٹھ بجے سے سامنے آرہے ہیں۔

تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کے زیرقیادت اتحاد 150 سے زیادہ نشستوں پر برتری حاصل کررہا ہے اور پارٹی کے سربراہ ایم کے اسٹالن پہلی بار وزیر اعلی بننے کے لیے تیار ہیں۔ پڈوچیری میں آل انڈیا این آر کانگریس کے زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد نے کانگریس اور ڈی ایم کے کو شکست دی ہے۔

کیرالہ میں بائیں جمہوری محاذ نے اقتدار کو برقرار رکھا اور لگاتار دو بار اقتدار کو برقرار رکھ کر تاریخ رقم کی۔

آسام میں بی جے پی دوبارہ حکومت بنائے گی اور آل انڈیا این آر کانگریس کے زیر قیادت اتحاد پڈوچیری میں اقتدار سنبھالے گا۔

مغربی بنگال

بنرجی مغربی بنگال میں لگاتار تیسری بار وزیر اعلی کے طور پر واپس آئیں گی۔ کولکاتا میں 66 سالہ ممتا بنرجی نے کہا ’’یہ بنگال کے عوام کی فتح ہے، جمہوریت کی فتح ہے۔ بنگال نے آج ہندوستان کو بچایا ہے۔ یہ تاریخی فتح کئی مشکلات، جیسے مرکزی، اس کی مشینری اور اس کی ایجنسیوں کے خلاف لڑنے کے بعد ملی ہے۔ اس فتح نے انسانیت کو بچایا ہے۔‘‘

تاہم، ممتا بنرجی نندیگرام سے اپنے سابقہ ​​قریبی ساتھی اور اب بی جے پی لیڈر سووندو ادھیکاری کے خلاف 1،956 ووٹوں کے فرق سے ہار گئیں۔ ترنمول کانگریس نے نتائج پر شک کا اظہار کیا ہے اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ بنرجی نے گنتی کے عمل میں ’’لوٹ مار اور دھوکہ دہی‘‘ کا الزام لگایا، لیکن الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی اپیل مسترد کردی۔

رائے شماری کے پینل کے اعداد و شمار کے مطابق ووٹ شیئر کے معاملے میں ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے 38.1 فیصد کے مقابلے میں 48.3 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

تمل ناڈو

تمل ناڈو میں ڈیم ایم کے پارٹی کے سربراہ ایم کے اسٹالن کے زیرقیادت پارٹی 10 سال کے وقفے کے بعد اقتدار میں واپس آئی ہے۔ ڈیم ایم کے کے زیرقیادت سیکولر پروگریسو الائنس نے 234 رکنی ایوان میں 156 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جہاں اکثریت کا نشان 118 ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب ریاست میں دو بڑے لیڈران ایم کروناندھی اور جے جے للیتا کی موجودگی کے بغیر انتخابات ہوئے۔

وہیں وزیر اعلی ایڈپاڈی کے پلانیسوامی کی سربراہی میں اے ڈیم ایم کے نے بھی اچھا مقابلہ کیا۔ کل شام تک اسے 58 نشستوں پر برتری حاصل تھی اور 11 میں کامیابی حاصل ہو چکی تھی۔ جب کہ بی جے پی دن کے اختتام تک صرف چار حلقوں میں آگے تھی۔

پڈوچیری

آل انڈیا این آر کانگریس کے زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد پڈوچیری میں اقتدار سنبھالے گا۔ پڈوچیری اسمبلی میں اکثریت کا نشان 16 ہے۔ مرکزی خطے میں 6 اپریل کو ایک ہی مرحلے میں ووٹنگ ہوئی تھی۔

آل انڈیا این آر کانگریس نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پارٹی کی حلیف بی جے پی نے چھ نشستیں حاصل کیں، جب کہ اتحاد کی دوسری جماعت اے ڈی ایم کے کوئی سیٹ نہیں جیت سکی۔

ڈی ایم کے نے چھ نشستیں جیتیں، جب کہ کانگریس نے دو سیٹیں جیتیں۔ اس دوران چھ آزاد امیدوار بھی جیت گئے ہیں۔

کیرالہ

کیرالہ میں وزیر اعلی پنارائی وجین گذشتہ 44 برسوں سے ریاست میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے زیرقیادت بائیں جمہوری محاذ اور کانگریس کی زیرقیادت یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے مابین بدلتی رہنے والی طاقت کے سلسلے کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔

وجین نے اسمبلی انتخابات میں بائیں بازو کے ڈیموکریٹک محاذ کی فتح کا ذمہ دار ریاست کے باشندوں کو بتایا۔ ان کی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں میں اپنے دور میں وبائی بیماری، سیلاب اور دیگر وائرل بیماریوں سے مؤثر طریقے سے نپٹا ہے۔

آسام

بی جے پی کی زیرقیادت اتحاد اسمبلی میں واضح اکثریت کے ساتھ دوسری مدت کے لیے آسام میں حکومت بنائے گی۔ اگرچہ آسام میں اب بھی گنتی جاری ہے، لیکن اب تمام 126 نشستوں کے رجحانات آچکے ہیں۔ آسام اسمبلی میں اکثریت کا نشان 64 ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں میں کانگریس نے پانچ نشستیں حاصل کی تھیں اور وہ 25 میں آگے تھیں۔ بدر الدین اجمل کی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ 14 میں سبقت لے رہی تھی، جب کہ بوڈولینڈ پیپلز فرنٹ دو سیٹوں پر آگے تھا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) ایک نشست پرآگے تھی۔

اکثریت کے باوجود 2019 کے اسمبلی انتخابات میں زعفران پارٹی کے ووٹوں کا حصہ 36 فیصد سے کم ہوکر 32 فیصد رہ گیا ہے۔