عید الفطر کے موقع پر طلباء اور ان کے والدین کے لیے چند اہم مشورے

نئی دہلی، اپریل 20 (پریس ریلیز):  مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے ڈائریٹر سید تنویر احمد  نے کہا کہ ”ہم آپ سب لوگوں کو عیدالفطر کی پرخلوص مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کے دامن کو خوشیوں سے بھر دے اور آپ  کے گھر وں میں مسرت کی بہار لائے“۔

انھوں نے کہا کہ ” بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں اور جس گھر میں بچے ہوتے ہیں وہاں عید کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ آپ والدین کو اللہ نے  اولاد کی شکل میں یہ عظیم نعمت عطا کی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور یہ نعمت دنیا میں حسنات کے ساتھ ہی حصول جنت کا موجب بنے“۔

انھوں نے مزید کہا ”یہ عید کا موقع ہے۔ اس موقع پر والدین بچوں کے ساتھ عید مناتے ہوئے چند باتوں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ عید خوشیاں بانٹنے کے لیے ہے۔ آپ اپنے بچوں کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیں، وہاں نماز ادا کرتے ہیں، وہاں سے لوٹنے  کے بعد بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے جاکر ملیں، اگر بالمشافہ ملنے کے امکانات نہ ہوں تو فون کرکے عید کی مبارک باد دیں۔ اس سے بچوں میں صلہ رحمی اور تعلقات کو مضبوط کرنے کا  مزاج پیدا ہوگا۔‘‘

سید تنویر احمد نے کہا ’’ایسا اس لیے کرنا ضروری ہے کہ بعض بچے رشتہ داروں سے بات چیت کرنے، ان سے ملنے سے کتراتے ہیں۔ جب والدین ان کی رشتہ داروں سے بات کرائیں گے تو ان کی یہ ہچکچاہٹ دور ہوگی اور ذہنی و قلبی طور پر وہ ان سے قریب ہوں گے۔‘‘

انھوں نےمزید کہا ’’رشتہ داروں کے علاوہ پڑوسیوں سے ملنے کا بھی مزاج ہونا چاہیے۔ جس طرح آپ اپنے بچوں کو رشتہ داروں سے ملنے کے لیے بھیجتے ہیں، انھیں مبارک باد کہنے کے لیے کال کرواتے ہیں، اسی طرح پڑوسیوں سے بھی ملنے کے لیے بھیجیں۔ اگر کسی پڑوس کے گھر پر صاحبِ خانہ موجود نہیں ہیں تو فون کرکے انھیں مبارکباد کہلوائیں۔ حالاں کہ دور حاضر میں  مادیت پرستی نے انسانیت پرستی کو دبا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات خوشگوار نہیں رہتے۔ اس کے باوجود اپنے بچوں کو ان سے ملنے کے لیے بھیجیں اور ان سے بہتر تعلقات بنائے رکھنے کی حوصلہ افزائی کریں۔‘‘

سید تنویر نے آگے کہا ’’اس موقع پر رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے قربت بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ انھیں تحفے دیں، شیر و خورمہ اور سویوں سے ان کی ضیافت کریں۔ بالخصوص کوئی غیر مسلم آپ کا پڑوسی ہو، پھر تو عید کی خوشیوں میں انھیں شامل کرنے کے لیے سویاں اور مٹھائیاں ان کو ضرور دیں۔ اس سے ایک  موثر اور مثبت پیغام ان تک جائے گا اور اس کے اثرات بہت ہی خوشگوار پڑیں گے اور بچے بھی بہت کچھ سیکھیں گے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس موقع پر ایک اور چیز جس پر خاص دھیان دینا  ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ماضی قریب تک یعنی دو دہائی پہلے تک سماج میں جب تہوار کا موقع آتا تھا تو بچے اپنے اساتذہ کے گھر جاتے، ان سے ملتے، دعائیں لیتے۔ اس سے اساتذہ کو ایک قلبی سرور حاصل ہوتا تھا۔ لیکن یہ دستور اب ختم ہوچکا ہے۔ بچے خوشیوں کی دیگر سرگرمیوں میں مگن ہوجاتے ہیں مگر انھیں اپنے اساتذہ سے ملنے کا خیال تک نہیں آتا۔ اس سلسلے میں والدین کو خاص دھیان دینا چاہیے۔ اگر اساتذہ قابل رسائی فاصلے پر رہتے ہیں اور بچے خود جاسکتے ہیں تو جائیں، اگر وہ خود نہیں جاسکتے ہیں تو والدین میں سے کوئی بھی انھیں لے کر اساتذہ سے ملوانے کے لیے لے کر جائیں۔ اس سے بچوں  کے دلوں میں اساتذہ کے تئیں عزت و احترام کا جذبہ جاگزیں ہوگا“۔

سید تنویر نے مزید مشورے دیتے ہوئے کہا ’’اس موقع پر والدین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نفسیات کا خیال رکھیں۔ دیکھایہ گیا ہے کہ بہت سے بچوں میں قیمتی لباس پہننے کے بعد کبرو رعونت کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔ وہ دوسرے بچوں سے موازنہ کرنے لگتے ہیں کہ میرا لباس قیمتی ہے، تمہارا سستا ہے۔  حالاں کہ بچوں میں یہ مزاج بڑوں کو دیکھ کر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اکثر یہ عادت گھر کی خواتین میں ہوتی ہے، ان میں تقابلی مزاج زیادہ ہوتا ہے اور  دوسروں پر اپنے قیمتی کپڑا ہونے پر فخر کرتی ہیں۔ ان سے یہ عادت بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری شریعت نے کبر کو کسی بھی شکل میں قبول نہیں کیا ہے۔ اگر بچوں میں اس طرح کا تفاخر محسوس ہو تو انھیں سمجھائیں اور اس کے نقصانات سے انھیں واقف کرائیں۔ خاص طور پر عید کے موقع پر جب سب ایک دوسرے سے خوشیاں بانٹ رہے ہوتے ہیں، کبر و تفاخر کرکے دوسروں کو رنجیدہ نہ کریں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ والدین کی ہر نقل و حرکت کو بچے اپنی زندگی میں اپناتے ہیں۔ لہٰذا والدین کوئی بھی کردار ادا کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کوئی ہے جو ان کی نقل  و حرکت کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کررہا ہے اور آئند ہ زندگی میں اسی کو اپنانے والا ہے۔ لہٰذا عید کے دن والدین کو چاہیے کہ وہ گھر پر جو بھی ملنے کے لیے آئے، ان کے ساتھ مساوات کا معاملہ کریں۔ حالاں کہ یہ مساوات زندگی کے تمام ایام میں اختیار کرنی ہے، مگر عید کے دن خاص طور پر، کیوں کہ یہ خوشیوں کا اور اللہ کی جانب سے انعام و اکرام کا دن ہے۔ لہٰذا کوئی غریب ہو، نوکر یا ملازم ہو، سب کو برابر میں بیٹھائیں اور سب کے ساتھ برابر کا معاملہ کریں۔ یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز کا بہترین نمونہ پیش کیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی  سب کو عید کی خوب خوب خوشیان عطا کرے اور زندگی میں یہ دن بار بار آئے۔‘‘