سوشل میڈیا کا بامقصد استعمال

مادری زبان کے تحفظ کے لیے کشمیری نوجوان توقیر اشرف کی قیمتی کاوشیں

ابو حرم ابن ایاز شاہ پوری

اگر کسی قوم کا اپنی مادری زبان سے رشتہ ختم ہوتا ہے تو قدرتی طور پر وہ روبہ زوال ہوجاتی ہے
انسان کو قدرت کی جانب سے بے شمار نعمتیں عطا کی گئیں ہیں انہیں میں سے ایک اہم نعمت وقت بھی ہے اس کا صحیح استعمال جہاں انسان کو کامیابیوں کی بلندیاں عطا کرتا ہے وہیں اس کی ناقدری کرنے والوں کو نہایت ہی دردناک خمیازہ بھی بھگتنا پڑسکتا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ آج کل زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا پر بے مقصد وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس دوران وہ یا تو اپنی تصاویر شئیر کرتے ہیں، اپنے ساتھیوں کی ارسال کردہ تصاویر اور دیگر پوسٹوں کو دیکھ کر ان پر تبصرے کرنے لگتے ہیں یا کسی ایسے موضوع پر علامہ دہر بنتے نظر آتے ہیں جن کا ان کی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ اس میدان میں ان کی معلومات صفر سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ یوں وہ اپنا قیمتی وقت اس قسم کی بےکار مشغولیات میں صرف کر دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ صرف اپنا ہی نقصان نہیں کرتے بلکہ اپنے گھر اور پوری قوم کے نقصان کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے درمیان چند ایسے سمجھدار نوجوان بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھتے ہیں ان کے پاس ایک منزل اور ایک ہدف متعین ہوتا ہے اور وہ اپنا وقت اسی کے حصول میں لگا کر قوم و ملت کی خدمات میں ایک اہم سنگ میل طے کرتے ہیں۔ انہی نوجوانوں میں سے ایک کشمیر کے توقیر اشرف بھی ہیں۔ جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے گسو گاؤں کے رہنے والے توقیر اشرف، فاصلے اور وقت کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور اپنی کشمیری زبان کی ترقی اور تحفظ میں نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق توقیر اشرف نے اکتوبر 2021میں اپنی مادری زبان کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور اب تک صرف ان کے انسٹاگرام پیج کے چھیانوے ہزار فالوورز ہیں اور وہ جو بھی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں اسے ہزاروں لوگ پابندی سے دیکھتے ہیں۔وہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر’’کاشر پرو‘‘(Keashur Praw) نام سے ایک صفحہ چلاتے ہیں۔ ’کاشر‘ کا معنی کشمیری اور ’پرو‘ کا مطلب پڑھیں یا سیکھیں ہوتا ہے۔ مکمل مطلب ہوا آو کشمیری سیکھیں۔ اس صفحہ پر وہ کشمیری زبان کو فروغ دینے کے مقصد سے مختلف صوفی شعرا اور دیگر مشہور کشمیری شعراء جیسے شیخ العالم، رسول میر، شمس فقیر اور وہاب کھر وغیرہ کے اشعار انگریزی ترجمہ کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔ شاعری کے علاوہ وہ ترجمے کے ساتھ کشمیری محاورے اور پہیلیاں بھی اپلوڈ کرتے ہیں جن سے نوجوان نسل واقف نہیں ہے۔یہ اس لیے کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکثر لوگ صرف انگریزی زبان سے واقف ہوتے ہیں لہذا اسی انگریزی کو ذریعہ بنا کر وہ اپنی مادری زبان سب کو سکھانے میں مصروف ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ توقیر اشرف بچپن سے ہی اپنی مادری زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے پرجوش تھے۔کشمیری شاعری کے شوقین قاری اور اپنی مادر زبان کے دلدادہ توقیر اشرف اس وقت کشمیر یونیورسٹی سے ارضیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگرچہ وقت گزرتا گیا اور میں اب بڑا ہو گیا ہوں لیکن اپنی زبان کی ترویج اور تحفظ کا جذبہ وہی ہے جو بچپن میں تھا اس میں کچھ کمی نہیں آئی ہے بلکہ مزید اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔‘‘
اپنے اس اقدام کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’دنیا کی تقریباً سات ہزار زبانوں میں سے چالیس فیصد سے زائد زبانیں معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں اور بہت سی زبانیں پہلے ہی مکمل یا جزوی طور پر غائب ہو چکی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ کشمیری زبان بھی غائب ہونے والی زبانوں کی فہرست میں شامل ہو۔ اس لیے میں اسے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
اپنے اس سفر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ’’ کالج کے زمانے سے میں اپنی مادری زبان کے فروغ کے لیے کچھ بڑا کرنے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے کرنا کیا ہے اور اسے کیسے انجام دینا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ایسا صفحہ بناؤں جس کے ذریعے میں اپنے لیے اور اپنی مادری زبان کے لیے کچھ کر سکوں۔ چنانچہ میں نے اکتوبر 2021 میں اس پر کام شروع کیا۔ شروع میں مجھے لوگوں کی طرف سے بہت کم رسپانس ملا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میں لوگوں کی طرف سے زبردست رد عمل دیکھ رہا ہوں‘‘
کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی زبان سے پیار ہے اور وہ اپنے شعراء کے اشعار سننا بھی پسند کرتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ان اشعار کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتی ہے لہذا ان کی آسانی کے لیے بھی توقیر اشرف نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اپنے کشمیری شاعروں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، لیکن ہم ان کی شاعری کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کشمیری ہماری پہچان ہے اگر ہم اپنی مادری زبان کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرتے رہیں گے تو پھر ہم کشمیری ہی باقی نہیں رہ پائیں گے‘‘
جب توقیر اشرف نے اس کام کا آغاز کیا تو ابتدا میں انہیں تھوڑی سی مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہیں ایسی کامیابیاں نصیب ہوئیں کہ اب دنیا بھر سے کئی سارے غیر کشمیری احباب ان سے رابطہ کرتے ہیں اور کشمیری زبان سیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
توقیر اشرف نے اپنے علاقے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیری زبان بولنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر کشمیر کے لوگ اپنی مادری زبان سے رشتہ ترک کر چکے ہیں اور اپنے بچوں کو کشمیری زبان سیکھنے اور بولنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو یہ زبان سکھانا ان کی سماجی حیثیت کو کم کرنے کے مترادف ہے جو کہ کسی صورت درست نہیں ہے۔مزید ستم یہ ہے کہ مادری زبان کے تئیں ہماری بے حسی صرف ہمارے گھروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بہت سے تعلیمی اداروں نے بھی کشمیری زبان کو بطور ذریعہ ترسیل استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے‘‘۔
توقیر اشرف نے اپنی قوم کے نام خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’آج کشمیری زبان کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اہنے بچوں میں اردو یا انگریزی کی بجائے کشمیری بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ میرے نزدیک مختلف زبانیں سیکھنا قابل تعریف ہے اور میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کے خلاف نہیں ہوں لیکن یہ اپنی مادری زبان کو ترک کرکے نہیں ہونا چاہیے۔ لہذا کشمیری زبان کو فروغ دینا ہر کشمیری کی ذمہ داری ہے تاکہ کشمیری ثقافت کی روح کو محفوظ رکھا جا سکے کیونکہ اپنی زبان کھونے کا مطلب اپنی ثقافت کھو دینا ہے۔ اگر کسی کمیونٹی کی زبان ختم ہو جاتی ہے تو قدرتی طور پر اس قوم کی ثقافت بھی ختم ہو جائے گی اور ایک وقت آئے گا جب اس کی کوئی شناخت ہی باقی نہیں رہے گی۔‘‘
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023