سیاسی پارٹیوں کا منشور
زعیم الدین احمد
انتخابات کا موسم ہے ہر طرف جلسے جلوس، ریلیاں، سیاسی رہنماؤں کے پیدل دورے اور ان سب سے بڑھ کر پارٹیوں کے عوام سے وعدے اور ان کے منشوروں میں عوام کو لبھانے والی اسکیموں کے اعلانات جاری ہیں۔ کوئی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کرتا ہے تو کوئی خواتین کو مفت بس میں سفر اور پکوان گیس سستی کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ دانشور ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر اس تبصرے بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے منشور کا تقابل کیا جاتا ہے، بحث و مباحثہ ہوتا ہے، اس کیفیت کو competitive political populism کہا جاتا ہے۔ سیاسی مسابقت کرتے ہوئے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیاں طرح طرح کے طریقے اختیار کرتی ہیں، ان ہی طریقوں میں سے ایک منشور کا جاری کرنا بھی ہے۔ منشور جاری کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے، یہ ہر انتخابات کے موقع پر تقریباً ہر پارٹی جاری کرتی ہے، اور اب تو یہ ایک مستقل روایت بن چکی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جیسے ہی انتخابات مکمل ہوجاتے ہیں اور کوئی پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو ان سے کیے گئے وعدوں اور وعدے کرنے والوں کو عوام چراغ لے کر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ کیفیت کسی ایک ریاست کے لیے خاص نہیں ہے، تمام ریاستوں کا یہی حال ہے۔ منشور میں جو وعدے کیے جاتے ہیں ان کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کتنے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس کا تخمینہ لگایا جائے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک پارٹی کوئی اسکیم جاری کرتی ہے تو اس کی مخالف پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو اس اسکیم کو ختم کر دیتی ہے یا پھر اس کو بدل کر اسی سے ملتی جلتی کوئی دوسری اسکیم کا اعلان کرتی ہے۔ لیکن فلاحی اسکیموں کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے، ان اسکیموں کو جاری رکھنے کے لیے وہ مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق عوام کی فلاح وبہبود سے ہوتا ہے لہٰذا ان کو جاری رکھنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ وہ اسے جاری بھی رکھتے ہیں اور اس کے لیے مختص رقم میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ مثلاً تلنگانہ میں ایک سیاسی پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں غریبوں کے علاج کے لیے آروگیہ شری اسکیم شروع کی تھی، بعد کی حکومت نے نہ صرف اسے جاری رکھا بلکہ اس کی رقم میں بھی اضافہ کیا، اسی طرح مفت بجلی کی اسکیم تھی اسے بھی بعد کی حکومت نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے چوبیس گھنٹے مفت فراہمی کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ کوئی ایک پارٹی نہیں بلکہ ہر پارٹی اپنے منشور میں درج کرتی ہے۔ یہ ساری کوششیں اپنی مقبولیت کو بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں آخر کیوں اس قسم کے مفت اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں؟ کیا ساری سیاست اسی پر چلتی ہے؟ کیا اس طرح کے اعلانات کرنا غلط ہے؟
آئیے ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ عوام کی خواہشات یہی ہیں، عوام یہی چاہتے ہیں، وہ مفت کی چیزیں ہی چاہتے ہیں وغیرہ۔ لیکن عوام کا موقف اس سے بالکل مختلف ہے، عوام کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اعلان کرتی ہیں کہ وہ ہم کو مفت دے رہے اور ہم مفت میں لے رہے ہیں۔ حالانکہ بنیادی بات ہے کہ سیاسی معاشیات میں اسے طلب و رسد کہا جاتا ہے، طلب ہوگی تو رسد ہوگی، جب طلب ہی نہیں ہوگی تو رسد کیوں کر ہوگی؟ عوام کا مطالبہ ہوگا تو ہی سیاسی پارٹیاں اسے پورا کریں گی۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام کا مطالبہ نہیں ہے پھر بھی سیاسی پارٹیاں انہیں غیر ضروری عوام کو فراہم کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سیاست پارٹیاں عوام کی صحیح رہنمائی کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں، وہ عوام کی رہنمائی نہیں کر رہی ہیں۔ رہنمائی یہ ہے کہ مشکل حالات میں عوام کو راستہ دکھایا جائے، انہیں بتایا جائے کہ مستقبل محفوظ کرنے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ کون سے اقدامات ہیں جنہیں کرنے سے عوام کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔ سیاسی رہنمائی یہی نہیں ہے کہ انتخابات میں جیت کیسے حاصل کی جائے، بلکہ ہر موقع پر عوام کو صحیح راستہ بتانا دراصل سیاسی رہنمائی ہے۔
عوام کو مفت رقم دینے کے بجائے انہیں مواقع فراہم کیے جائیں، آپ دیکھیں گے کہ کوئی سیاسی پارٹی یہ اعلان نہیں کر رہی ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کو اعلیٰ معیار کا بنائیں گے، جہاں امیر و غریب کی تفریق کے بغیر تعلیم دی جائے گی۔ سرکاری اسکولوں کی حالت زار دیکھیں اور سرمایہ داروں کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں کو دیکھیں، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں صرف غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں، اسی لیے سرکاری اسکولوں کی حالت غیر ہے۔ مخدوش عمارت، غیر معیاری تعلیم، اساتذہ کی قلت، اس کے برعکس خانگی اداروں کو دیکھ لیں، عالی شان عمارتیں، دیدہ زیب کتابیں، یونیفارم، بہترین سہولیات یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں لیکن اساتذہ اتنے معیار کے نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں معیار تعلیم بلند نہیں ہو پا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں دیکھیں جہاں پر امیر و غریب کے بچے سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھتے ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی اپنے منشور میں یہ اعلان نہیں کرتی کہ سرکاری اسکولوں کو ہم کارپوریٹ سطح کے معیار پر لے جائیں گے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ اسکولوں کو بین الاقوامی معیار کا بنائیں گے، جہاں امیر و غریب کی تفریق کے بغیر بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس طرح کے وعدے کوئی نہیں کر رہا ہے۔ ایسا کیوں کر ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ عوام کے ایجنڈے میں گورننس یعنی نظم و نسق باقی نہیں رہا، انہوں نے برسرِ اقتدار طبقے سے سوال ہی کرنا بند کر دیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے عوامی سطح پر کوئی کوششیں نہیں ہوتیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تعلیم پر جو ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں وہ دراصل ہمارے ہی پیسے ہیں، جنہیں ہم ٹیکس کی شکل میں حکومت میں جمع کراتے ہیں، لیکن ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ ہر سرکاری ادارہ ہمارا اپنا یعنی عوام کا ہے۔ ملک کے ذخائر یا شہریوں کے ٹیکسوں سے بنائے گئے ہیں، جب تک یہ احساس ہمارے اندر پیدا نہیں ہوگا ہماری حالت میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جب تک عوام گورننس نہیں چاہیں گے اس وقت تک سیاسی پارٹیاں بھی اس پر توجہ نہیں دیں گی۔
دوسری چیز، سیاست میں بنیادی اصول یہ ہے کہ منصوبے مستقبل کو پیش نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، آنے والی نسل کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے عوام مستقبل سے زیادہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور جلد حاصل ہونے والی چیزوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، انہیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے، نتیجہ میں سیاست داں بھی ان کی طرف سے بے فکر ہوگئے ہیں، ان کی توجہ مستقبل کے منصوبوں سے زیادہ مفت اسکیموں اور فوری راحت دینے والی چیزوں پر مرکوز ہو گئی ہے۔ پانچ سال بعد حاصل ہونے والی چیز سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس کے مقابلے میں آج ملنے والی چیز سے انہیں دلچسپی ہے۔ عوام میں دوسری خراب عادت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ انفرادی فائدے کیسے حاصل کریں؟ ان کے دماغوں سے اجتماعی فائدے کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے، وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ انتخابات سے ذاتی طور پر کیا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ اجتماعی طور پر فائدہ کیسے حاصل کیا جائے، کیسے مجموعی حیثیت سے ترقی ہو یہ ان کے ذہن سے نکل گیا ہے۔ جب کبھی کوئی لیڈر کسی گاؤں یا کسی علاقے میں جاتا تھا تو اس سے گاؤں کی ضروریات کے بارے میں مطالبہ کیا جاتا تھا، لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے، اب عوام کا رجحان اجتماعی ضروریات سے ہٹ کر انفرادی فائدے تک محدود ہو گیا ہے، اسی لیے سیاسی پارٹیوں کے منشوروں میں بھی انفرادی فائدوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ لہٰذا عوام میں جب تک اجتماعی فائدے حاصل کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک ان کی کیفیت تبدیل نہیں ہو سکتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کو باشعور دیکھنا نہیں چاہتی اور نہ انہیں باشعور یا بااختیار بنانا چاہتی ہے، ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ عوام ہمیشہ ان کے محتاج بن کر رہیں، کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر عوام باشعور یا با اختیار بن گئے تو ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی، اسی لیے وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کس طرح سے عوام کو بے چین و مضطرب رکھا جائے، انہیں سوچنے اور غور کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ کیوں کہ اگر عوام غور کرنے لگیں گے، سوچنے لگیں گے تو ان کا کام بگڑ جائے گا، انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ سیاست میں ایک مقولہ مشہور ہے یہ کہ عوام کو مچھلی دیتے رہو انہیں مچھلی پکڑنے کا موقع نہ دو، کیوں کہ اگر وہ مچھلی خود سے پکڑنے لگیں گے تو ہماری حیثیت ختم ہو جائے گی، ہماری کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ فلاحی اسکیموں پر توجہ کم کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے زیادہ سوچیں، اپنے آپ کو با اختیار بنائیں اور اجتماعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023