سیاست میں مجرمانہ عناصر کا داخلہ اور کارپوریٹ کا کنٹرول بڑا مسئلہ

ملک کی سیاست کو صحیح رخ دینےکےلیے عوامی شعور کی بیداری واحد راستہ ۔پروفیسر محمدسلیم انجینئر سےانٹرویو

نئی دلی، دعوت نیوز ڈیسک

ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو 2024 کے عام انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ان انتخابات کو ملکی سیاست کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ پانچ میں سے چار ریاستوں میزروم، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں رائے دہی ہوچکی ہے اور اب صرف جنوبی ہند کی اہم اور نو تشکیل شدہ ریاست تلنگانہ میں ووٹنگ کا مرحلہ باقی ہے اور تین دسمبر کو تمام پانچوں ریاستوں کے نتائج سامنے آجائیں گے۔ پروفیسر محمد سلیم انجینیر نے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے تناظر میں دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ملک میں اقدار سے عاری سیاست اور سیاست میں جرائم زدگی (Criminalisation of politics) کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش ظاہر کی اور ملک میں رائج نظام سیاست کی بعض نمایاں خرابیوں کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے سیاسی اصلاحات کے لیے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس انٹرویو کے کچھ اقتباسات قارئین ہفت روزہ دعوت کی خدمت میں پیش ہیں۔
نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے جو ریاست راجستھان سے تعلق رکھتے ہیں، اس ریاست کے سیاسی منظر نامہ کے تعلق سے بتایا کہ عرصہ دراز سے راجستھان میں ایک مرتبہ کانگریس اور ایک مرتبہ بی جے پی حکومت کی تشکیل کا رواج چلا آرہا ہے۔ روایتی طور پر دونوں پارٹیوں کے درمیان مقابلہ اس بار بھی کانٹے کا ہے۔ اس لیے نتیجہ کیا ہوگا، اس کی پیشن گوئی مشکل ہے۔ لیکن ذاتی طور پر میرا احساس ہے کہ کانگریس کو سبقت حاصل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں اشوک گہلوٹ کی حکومت نے جو فلاحی اسکیمات لاگو کی ہیں ان کا فائدہ ہر طبقہ کو پہنچا اور لوگوں میں خوشی کا ایک ماحول دیکھنے کو ملا۔ کانگریس کو بھی کہیں نہ کہیں اطمینان حاصل ہے کہ اس مرتبہ پانچ سال کے بعد حکومت کی تبدیلی کا رواج ٹوٹے گا اور وہ ایک اور میعاد کے لیے حکومت تشکیل دے گی۔ اس اطمینان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی داخلی دشواریوں پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
جہاں تک چھتیس گڑھ اور میزورم کا تعلق ہے وہاں بی جے پی پہلے سے کمزور ہے۔ مدھیہ پردیش کے تعلق سے پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ 2018 میں وہاں کانگریس نے حکومت بنائی تھی لیکن جوڑ توڑ کے ذریعہ کمل ناتھ کی زیر قیادت کانگریس حکومت کو گراکر بی جے پی وہاں حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی تھی۔ وہاں مقابلہ اصلاً دو ہی پارٹیوں کے درمیان ہے اور لوگ بتا رہے کہ کانگریس اچھی پوزیشن میں ہے۔
تلنگانہ کے سیاسی منظر نامہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ریاست پر حکم راں پارٹی ٹی آر ایس جو اب بی آر ایس ہوگئی ہے اس کی اچھی گرفت ہے اور کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اس کی حلیف پارٹی ہے۔ دوسری طرف کانگریس اور بی جے پی مقابلے میں ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ریاست میں کانگرس پہلے کے مقابلہ میں کافی مضبوط ہوئی ہے اور صورتحال واضح طور پر کسی ایک پارٹی کے حق میں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے حکومت کس کی بنے گی یہ بتانا مشکل ہے۔
ملک میں انتخابات تو وقفے وقفے سے ہوتے رہیں گے جو ہماری پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے لیکن ملک کی اصل ضرورت یہ ہے کہ انتخابی عمل شفاف رہے، امیر وغریب، ذات پات، مذہب اور طبقاتی وابستگی میں فرق کیے بغیر سبھی کو جمہوری عمل میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملے۔ پروفیسر محمد سلیم نے کہا کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں اقدار پر مبنی سیاست کو پنپنے دیا جائے۔ آج کل جس طریقے سے سیاسی پارٹیاں انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور جس طریقے سے الیکشن لڑا جا رہا ہے یا جس طریقے سے امیدواروں کا انتخاب ہو رہا ہے ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست ہمارے درمیان سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے جو ہم سب کے لیے ایک شدید تشویش کا مسئلہ ہونا چاہیے، اور ملک میں جو ابھی امن پسند، انصاف پسند اور جمہوری قدروں کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں ان سب کو فکرمند ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست آہستہ آہستہ اقدار سے عاری کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ ایک وقت تھا جب لوگوں کا کردار دیکھا جاتا تھا۔ امیدوار کی امیج دیکھی جاتی تھی لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کی بات کرنا ایک خیالی چیز بن گئی ہے۔
لوگ اب ایسا سمجھنے لگے ہیں، اور انہوں نے ایسا مان بھی لیا ہے اور خاص طور پر جماعت اسلامی ہند ایسا ہی سمجھتی ہے اور یہ اس کی پالیسی کا حصہ بھی ہے۔چاہے لوگ ابھی اس پر پوری توجہ نہیں دے رہے ہیں لیکن یہ جماعت اسلامی ہند کی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اقدار پر مبنی سیاست ہی اس ملک کے لیے بہتر ہے۔ ملک کو صحیح معنی میں مضبوط کرکے اسے ترقی کی راہوں پر لے جاسکتی ہے۔ اس ملک میں امن و امان، یکجہتی، انصاف ومساوات کی جو قدریں ہیں وہ ہمارے دستور کی دی ہوئی ہیں اور یہ آئینی قدریں، اقدار پر مبنی سیاست کے بغیر صحیح معنی میں قائم نہیں ہوسکتیں۔
اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ’سیاست کا جرائم کَرن‘(Criminalization of Politics) اور سیاست میں مجرمانہ عناصر کا داخلہ ایک بڑا مسئلہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن پر جرائم کے مقدمات ہیں، جو جرائم میں ملوث ہیں۔ اور یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ سیاسی لوگوں پر مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ آپسی دشمنیوں کے باعث جھوٹے کیس دائر کیے جاتے ہیں۔ اس میں کسی حد تک صداقت  ہو سکتی ہے لیکن یہ رجحان عام ہے کہ جرائم زدہ افراد کا سیاست میں داخلہ بہت آسانی سے ہو رہا ہے اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے اعداد و شمار اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پارلیمنٹ میں اور اسمبلیوں میں بڑی تعداد ایسی ہے جن کے خلاف باقاعدہ جرائم کے معاملات زیر التوا ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ وہ  لوگ جو خود سماج میں مجرمانہ پس منظر رکھتے ہوں وہی بیٹھ کر قانون بنائیں گے اور حکومت کی پالیسیوں کو مرتب کریں گے تو ظاہر ہے یہ ہمارے سماج اور ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح کے قوانين بنائیں گے۔
دوسرا پہلو کرپشن کا ہے جو ہمارے یہاں بہت عام ہے۔ الیکشن میں پیسہ اتنا زیادہ استعمال ہو رہا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ پیسے کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی اداروں، پنچایتوں اور نگر پالیکاں کے انتخابات میں بھی لوگ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ اسمبلی کے الیکشن میں تو لوگ کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور پارلیمنٹ کا الیکشن تو اور بھی مہنگا ہوتا ہے۔ الیکشن میں ظاہر ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہوگا جو پیسہ مینیج کرسکتا ہے وہی الیکشن میں مقابلہ کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ بہت سی پارٹیاں تو ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیدواروں سے پیسہ لے کر ٹکٹ دیتی ہیں۔ یہاں ایسی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں اور الیکشن کے دوران آپ دیکھتے ہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر پیسے کا لین دین ہوتا ہے۔
یہاں امیدوار تو امیدوار ووٹرز بھی خریدے جاتے ہیں اور ووٹروں کو مختلف طرح کے لالچ دیے جاتے ہیں۔ اس کام میں بڑے پیمانے پر پیسے کا جو استعمال ہوتا ہے  وہ کالا دھن ہی ہوتا ہے۔ اور ہمارا الیکشن سسٹم ابھی پیسے کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ کارپوریٹ دنیا کا ہے وہ اپنا پیسہ الیکشن میں انویسٹ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنے فائدے کے لیے ہی کرتے ہیں اور اصل پیسے سے کئی گنا زیادہ پیسہ وصول کرنا ان کے پیش نظر ہوتا ہے۔ پھر قانون سازی میں ان لوگوں کا رول ہوتا ہے۔ جب کارپوریٹ سے پیسہ لیا جائے تو پالیسی سازی اور قانون سازی میں ان کا خیال رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چاہے یہ قوانین عوام کے حق میں کتنے ہی خلاف ہوں۔
پروفیسر محمد سلیم انجینئیرنے کہا ’’ہم نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں دیکھا ہے کہ کارپوریٹ کا جو کنٹرول ہماری سیاست پر ہوا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے۔ ہمارا پورا سیاسی سسٹم ایک بازار میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کارپوریٹ، پیسے کی بنیاد پر اس کو طے کرتے ہیں، کون سی پارٹی کون سا امیدوار جیت کر آئے گا۔ جن کو کارپوریٹ کی تائید حاصل ہوگی۔
اسی سے متعلق ایک مسئلہ الیکٹورل بانڈز کا ہے۔ الیکٹورل بانڈز کے ابھی جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان سے صاف پتہ لگ رہا ہے کہ جو پارٹی اس وقت اقتدار میں ہے الیکٹورل بانڈز کا تقریباً ستر فیصد پیسہ اسی کو گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹیاں کس طرح پیسہ حاصل کر لیتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ الیکٹورل بانڈز کی شفافیت کے بارے میں یہ بتایا جانا چاہیے کہ پارٹیوں کو پیسہ کس ذریعہ سے مل رہا ہے؟ کون کس پارٹی کو فنڈ دے رہا ہے؟ اس تعلق سے ہماری مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ عوام کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ ایک طرف شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ہزار روپے تک  جو ٹرانزیکشن ہوتا ہے اس کا ذریعہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے جب کہ الیکٹورل بانڈز کے بارے میں یہ ضروری نہیں ہے؟
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ پیسہ کے بل پر ہی سرکاریں گرائی جاتی ہیں۔
ایک پارٹی کو بہت اچھی سیٹس مل بھی گئیں تو پیسے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ دستور کے مطابق ہر شہری مساوی ہے اور اسے مساوی حق ملنا چاہیے لیکن پیسے کے رول کے رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی غریب آدمی اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جو جمہوریت کا ایک بہت ہی کمزور پہلو ہے۔غرض اس وقت ہماری سیاست پیسے پر بہت زیادہ منحصر ہوکر رہ گئی ہے اور پیسے سے کنٹرول ہو رہی ہے جو جماعت اسلامی ہند جیسی تنظیموں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جو اقدار پر مبنی سیاست کی بات کرتی ہیں۔ اس صورتحال کی اصلاح کا طریقہ اور راستہ عوامی بیداری ہی سے نکل سکتا ہے۔
پروفیسر محمد سلیم نے مزید کہا کہ ملک میں موقع پرستانہ سیاست عروج پر ہے۔ اہل سیاست کے پاس کوئی اقدار نہیں ہیں، کوئی ویژن نہیں ہے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ان کے لیے ذاتی مفاد ہی سب کچھ ہے۔ وہ آج ایک پارٹی میں تو کل دوسری پارٹی میں نظر آتے ہیں۔ لوگ  الیکشن سے پہلے بھی اور الیکشن کے بعد بھی پارٹیاں بدل رہے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست داں اپنی آئیڈیالوجی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان کی نگاہ میں آئیڈیالوجی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اچھے کردار والا امیدوار پارٹیوں کو چننا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جماعت کی جو الیکشن پالیسی ہے اس میں یہ بات شامل ہے کہ ہم عوام کو یہ بتائیں گے کہ وہ ایسے امیدواروں کو منتخب کریں جن کا کردار بھی اچھا ہو اور سماج میں امیج بھی اچھی ہو اور جن کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہ ہو۔  لیکن دیکھا یہ جا رہا ہےکہ پارٹیاں اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھ رہی ہیں۔ جب پارٹی کے ذمہ داروں سے کبھی ہماری ملاقات ہوتی ہے اور جب ہم ان کے سامنے یہ باتیں رکھتے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہمارے لیے جیتنے کی صلاحیت (winability) اہم ہے۔
غلط کردار کے لوگوں کو جب آگے بڑھائیں گے تو جو نتائج نکلیں وہ ظاہر ہیں۔ پارٹیاں اس بارے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہیں۔
ایک اور فیکٹر جو ہمارے ملک میں کام کر رہا ہے وہ ذات پات کا فیکٹر ہے۔ ہمارے ملک کی بیشتر ریاستوں میں ذات پات ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ اس کے ایک پہلو کو ہم تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جتنے گروپس یا طبقات ہیں ان کی سیاست میں نمائندگی ان کی آبادی کے لحاظ سے اگر ہو تو اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک طبقے کی آبادی بہت زیادہ ہو لیکن اس کی نمائندگی نہ ہو رہی ہو۔ الیکشن میں صرف ذات پات ایک فیکٹر بن جاتا ہے اور اگر لوگ، امیدوار چاہے جیسا بھی ہو، صرف ذات کو ووٹ دینے کا پیمانہ بنائیں گے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ ذات پات کا بھی ہمارے ملک کی سیاست میں ایک بہت بڑا رول ہوگیا ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئیر نے نفرت کی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی سیاست امن وامان اور ترقی کے لیے مضر ہے۔ ایک خاص مذہب کے خلاف نفرت پیدا کر کے ایک پوری سوسائٹی کو اس کے خلاف جمع کرنے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے اور اس کے لے نفرتی بیانیوں کا سہارا لینے کا رجحان نہایت خطرناک ہے۔اب تو پارلیمنٹ میں بھی لوگ ہیٹ اسپیچ کرنے سے نہیں کتراتے۔ پارلیمنٹ میں بھی لوگ فرقہ واریت کی زبان استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اس رویے سے ہماری سیاست کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف کسی خاص سماج کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے تحفظ کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
پروفیسر سلیم صاحب نے اس بات پر تاسف کا ظاہر کیا کہ پچھلے دس پندرہ برسوں سے نفرت اور تقسیم پیدا کرنے کی سیاست کو بہت تیزی سے فروغ ملا ہے۔اب ایسے لوگوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ دوسری کمیونٹی خاص طور سے مسلم کمیونٹی کے خلاف جو جتنی زیادہ نفرت کی زبان استعمال کرے گا اور جو جتنا زیادہ زہر اگلے گا وہ اتنا بڑا نیشنلسٹ کہلائے گا۔ اس کو سیاست میں اتنا ہی بڑا عہدہ ملے گا اور اس کی تیزی سے ترقی ہوگی۔ اس ملک میں ایک خاص پارٹی ہے جس کی یہی ایک پہچان بن گئی ہے۔ اس سیاست نے اب تک بہت نقصان کیا ہے۔ اور اگر اس کو نہیں روکا گیا تو یہ ملک کے لیے اور بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔
نفرت انگیز سیاست کی روک تھام کیسے کی جائے؟ اس سوال پر پروفیسر سلیم انجینئیر نے کہا ’’عدالتوں کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ لیکن عدلیہ کی بھی اپنی حدیں ہیں۔ اب تو عدالتیں بھی اتنی مضبوط نہیں رہیں کہ وہ اس طرح کی چیزوں کے مقابلے میں یا ایسے لوگوں کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ لے سکیں۔ بہرحال  عدالتوں پر اس کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کے ذریعے نفرتی عناصر کو روکنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ لیکن جو بڑا مسئلہ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب تک عوام اس طرح کی سیاست کو مسترد نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ عوام میں اس تعلق سے بیداری پیدا نہیں ہوگی تو اس طرح کے لوگ سیاست میں آگے آئیں گے اور ملک کا نقصان کریں گے۔ ملک کی ترقی رکے گی۔ بدنامی ہوگی اور ملک کمزور ہوگا۔ عوامی بیداری کے کام کو  بڑے پیمانے پر اور موثر طریقے سے انجام  دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کوئی سال دو سال میں ہونے والی چیز نہیں ہے۔ ایک  طویل اور موثر مہم چلاتے ہوئے عوام کو بتلانا ہوگا کہ اس ملک میں بحثیت شہری ان کی کیا ذمہ داری ہے؟ کس طرح کے لوگ سیاست میں آنے چاہیں اور کس طرح کے لوگ نہیں آنے چاہیں اور سیاست کو کس رخ پر جانا چاہیے۔ اس کام کے لیے عوام کی بیداری کے علاوہ اور کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ جب عوام کا رخ بدلے گا عوام کا ذہن بدلے گا تو سیاسی پارٹیاں بھی مجبور ہوں گی، وہ اس کے مطابق اپنے رویے کو بدلنے کو کوشش کریں گی۔ عوام میں اس شعور کا پیدا ہونا لازمی ہے کہ ووٹ ایک بہت قیمتی رائے ہے، اس کا صحیح جگہ استعمال ہو۔ یہ نہ پیسے سے متاثر ہونہ کاسٹ سے اور نہ ہی فرقہ وارانہ اور نفرت کی سیاست ووٹ پر اثر انداز ہو۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند الیکشن کے موقع پر پیپلز مینی فیسٹو جاری کرتی ہے۔ ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم کیسی سیاست چاہتے ہیں ؟ ہم کیسے لوگ چاہتے ہیں؟ کس طرح کے لوگ منتخب ہو کر آنے چاہئیں اور کیسے لوگ ہونے چاہئیں جو اس ملک کو صحیح رخ پر لے جائیں۔ اور ایسی پارٹیاں آنی چاہئیں جو اچھی آئیڈیالوجی رکھنے والی ہوں، ملک کو ترقی کی جانب لے جانے والی اور امن و امان قائم کرنے والی ہوں۔
پارٹیوں کے درمیان یہ دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کرنے والی تو نہیں، تقسیم کرنے والی اور ملک کے لیے نقصان دہ تو نہیں ہے۔ اس بیداری کے معاملہ میں مذہبی قائدین کا رول بہت اہم  ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت مذہب پسند ہے۔ مذہبی لیڈروں کی فالوئنگ بھی بڑھی ہوئی ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ بہت سے جعلی مذہبی لیڈر بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مذہبی چولا پہنتے ہیں لیکن ان کا مذہب سے تعلق نہیں ہوتا۔ ان سب کے باوجود ابھی بھی بڑی تعداد ایسے ایماندار اور شریف لوگوں کی ہے جو حقیقت میں مذہبی لیڈر ہیں۔ وہ بڑے سنجیدہ ہیں اور فکر مند بھی ہیں۔ ان کو منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اپنے خانوں میں نہ رہیں بلکہ باہر سوسائٹی میں آکر لوگوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلائیں۔ آج ضرورت ہے کہ اچھے لوگ سیاست میں آئیں اس کے لیے اچھے لوگوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی ہند اپنے طور پر بھی یہ کوشش کر رہی ہے اور دوسری تنظیموں اور سماجی قائدین کے ساتھ مل کر بھی کوشش کر رہی ہے تاکہ ملک میں اقدار پر مبنی سیاست کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔

 

***

 یہاں امیدوار تو امیدوار ووٹرز بھی خریدے جاتے ہیں اور ووٹروں کو مختلف طرح کے لالچ دیے جاتے ہیں۔ اس کام میں بڑے پیمانے پر پیسے کا جو استعمال ہوتا ہے  وہ کالا دھن ہی ہوتا ہے۔ اور ہمارا الیکشن سسٹم ابھی پیسے کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ کارپوریٹ دنیا کا ہے وہ اپنا پیسہ الیکشن میں انویسٹ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنے فائدے کے لیے ہی کرتے ہیں اور اصل پیسے سے کئی گنا زیادہ پیسہ وصول کرنا ان کے پیش نظر ہوتا ہے۔ پھر قانون سازی میں ان لوگوں کا رول ہوتا ہے۔ جب کارپوریٹ سے پیسہ لیا جائے تو پالیسی سازی اور قانون سازی میں ان کا خیال رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چاہے یہ قوانین عوام کے حق میں کتنے ہی خلاف ہوں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023