صدیق کپن کیس: سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا، 9 ستمبر کو ہوگی فیصل کن سماعت

نئی دہلی، اگست 29: سپریم کورٹ نے پیر کو صحافی صدیق کپن کے کیس کے سلسلے میں اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ عدالت اس کیس کی اگلی سماعت 9 ستمبر کو کرے گی، جس دن اسے نمٹا دیا جائے گا۔ انھوں نے اتر پردیش حکومت کو بھی 5 ستمبر تک اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔

کپن کو اتر پردیش پولیس نے 5 اکتوبر 2020 کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ تین دیگر افراد کے ساتھ ایک کار میں ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت خاتون کے ساتھ چار اونچی ذات کے ٹھاکر مردوں نے اجتماعی عصمت دری کے بعد اسے قتل کر دیا تھا۔

پولیس نے پہلے کیرالہ میں مقیم صحافی پر ذات پات کی بنیاد پر فساد شروع کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد غداری کے الزامات اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں۔

2 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو کپن کا ہاتھرس میں کوئی کام نہیں تھا۔

تاہم کپن کے ساتھ یو اے پی اے کے تحت گرفتار افراد میں سے ایک محمد عالم کو منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی۔ عالم اسلامک آرگنائزیشن پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا رکن ہے، جب کہ دیگر دو ملزمین کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی خزانچی عتیق الرحمن اور تنظیم کی دہلی یونٹ کے جنرل سکریٹری مسعود احمد ہیں۔

سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں کپن نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ہاتھرس اجتماعی عصمت دری کیس کی رپورٹنگ کے اپنے پیشہ ورانہ فرض کو پورا کرنا تھا۔

پیر کو سماعت کے دوران کپن کی نمائندگی کرنے والے وکیل کپل سبل نے کہا کہ ان کا مؤکل پچھلے دو سالوں سے جیل میں ہے۔

انھوں نے کہا ’’الزام یہ ہے کہ PFI [پاپولر فرنٹ آف انڈیا] نے میرے مؤکل کو 45,000 روپے دیے ہیں اور اس کا کوئی ثبوت نہیں، صرف الزام ہے۔ پی ایف آئی کوئی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم نہیں ہے۔‘‘

سبل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کیس میں داخل کی گئی 5000 صفحات کی چارج شیٹ میں سے صرف 165 صفحات ہی ان کے حوالے کیے گئے تھے۔

دریں اثنا اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں کل آٹھ ملزمین ہیں اور صرف ایک کو ضمانت دی گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ ملزمان بلند شہر اور دہلی کے فسادات میں بھی ملوث ہیں۔