شمالی ہند میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ، کانٹے کا مقابلہ
انڈیا اتحاد کے حلیف این ڈی اے کو ٹکردے رہے ہیں
عرفان الہی ندوی
ای وی ایم پر سپریم کورٹ سے عوام کو امیدیں ۔عاپ لیڈر امانت اللہ خان بھی سلاخوں کے پیچھے
برے پھنسے بابا رام دیو، معافی ناقابل قبول
شمالی ہند میں پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ بخیر و خوبی گزر گیا۔ شمال مشرق سے لے کر مغربی یو پی اور اتر اکھنڈ تک اکا دکا واقعات کے ما سواء تشدد کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا جیسا کہ رام نومی کے موقع پر اندیشے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عوام کی سوجھ بوجھ کی بھی ستائش ہونی چاہیے جنہوں نے تیوہار کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے جشن میں بھی جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی۔ مغربی یو پی کے جن آٹھ پارلیمانی حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے ان میں کچھ بوتھوں پر ای وی ایم مشینوں کی خرابی کی شکایتیں ملیں۔ کچھ پولنگ مراکز پر مسلم خواتین نے پردے کے نام پر پریشان کرنے کا الزام لگایا اور کہیں کہیں ووٹر لسٹوں میں گڑبڑی کی شکایتیں موصول ہوئیں۔ تاہم، مجموعی طور پر پولنگ کا عمل اطمینان بخش رہا۔ صرف منی پور سے تشدد اور بوتھ پر قبضے کی اطلاعات ملی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق انتخابات سے قبل کرائے گئے سروے کے برعکس اکثر پارلیمانی حلقوں میں این ڈی اے اور انڈیا گٹھ بندھن میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ کہیں کہیں بی ایس پی یا دیگر جماعتوں کے امیدوار انتخابی مقابلے کو سہ رخی بنا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے کے انتخابات میں ووٹنگ کے پیٹرن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو انتخابات کے مقابلے اس انتخاب میں ووٹر خاموش ہیں۔ ہندو-مسلم پولرائزیشن بھی کم دکھائی دے رہا ہے۔ عوام اپنے مسائل پر سوالات بھی پوچھ رہے ہیں تاہم ذات برادری سب پر حاوی ہے۔ راجستھان اور مغربی یو پی میں راجپوت اور ٹھاکر برادری نے حکم راں جماعت کے خلاف کھل کر ووٹنگ کی۔ سہارنپور کیرانہ اور مظفر نگر پارلیمانی حلقوں میں اس کا واضح اثر دیکھا گیا۔ راجپوت ووٹنگ سے پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ اپنے وقار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
کسان اور نوجوان بھی سرکار سے ناراض ہیں۔ این ڈی اے کو سب سے زیادہ امید رام مندر کی تعمیر اور فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے ووٹروں سے ہے تاہم، ان میں اتنا جوش دکھائی نہیں دے رہا ہے جتنے کی توقع تھی۔ اپوزیشن کی خاموشی نے بھی اپنا کام کیا ہے۔ ای وی ایم کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی بحث ووٹروں میں موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے تاہم، کیرالا سے ملنے والی شکایتوں کی جانچ کا حکم دے کر عوام کی امیدوں کو زندہ بھی رکھا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے وی وی پیڈ کی پرچیوں کی صد فی صد ملان کا مطالبہ تسلیم کر لیا تو ووٹوں کا اعتماد بحال ہونے کے ساتھ ساتھ چونکانے والے نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگار ان انتخابات کا 2004 کے پارلیمانی انتخابات سے بھی موازنہ کر رہے ہیں جب شائننگ انڈیا کے پرفریب نعرے کی عوام نے ہوا نکال دی تھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے ون کی حکومت اختیار میں آئی جس نے 10 برس تک دہلی پر راج کیا۔ بہرحال شمالی ہند میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا جا سکتا، البتہ ووٹنگ کے پیٹرن سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی یا محاذ کے حق میں ایک طرفہ لہر یا ہوا نہیں چل رہی ہے۔ حکم راں جماعت کے لیڈر بھی اندرون خانہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ علاقائی پارٹیاں این ڈی اے اتحاد کو زبردست ٹکر دے رہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں ’’ساؤتھ صاف نارتھ ہاف‘‘ نعرہ دھوم مچا رہا ہے۔
حکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ای ڈی نے وقف بورڈ کے معاملے میں عآپ کے مسلم لیڈر امانت اللہ خان کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر وقف بورڈ ملازمین کی بحالی میں بد عنوانی کرنے اور منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا ہے۔ ای ڈی نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر جیل میں آم کھا کر وزن بڑھانے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی نے کیجریوال پر الزام لگایا تھا کہ وہ میڈیکل کی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنے کے لیے شوگر کے مریض ہونے کے باوجود آم اور مٹھائیاں کھا رہے ہیں۔ عآپ کے لیڈروں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ای ڈی نے بی جے پی کے اشارے پر یہ الزام لگایا ہے۔ دراصل بی جے پی اروند کیجریوال کو گھر سے ملنے والا کھانا بند کرانا چاہتی ہے۔ عآپ لیڈر آتشی نے جیل میں اروند کیجریوال کو زہر دینے یا کسی انہونی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے
یوگا گرو بابا ارام دیو اس مرتبہ قانون کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پتنجلی مصنوعات کے گم راہ کن اشتہارات کے معاملے میں ان کی غیر مشروط معافی کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بابا رام دیو کے خلاف سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے اور ان کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں درج مقدمات کی تفصیلات طلب کی ہیں جن پر تعطیل کے بعد سماعت ہوگی۔ واضح رہے کہ بابا ارام دیو نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے دوران ایلوپیتھی طریقہ علاج کا مذاق اڑایا تھا۔ اس پر انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے بہار اور چھتیس گڑھ میں مقدمے درج کرائے ہیں۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے دوران کچھ دلچسپ مناظر بھی سامنے آئے ہیں، ان میں کیرانہ پارلیمانی حلقے کے ایک بونے جوڑے کے ووٹ ڈالنے کے بعد کی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شاملی کے عظیم منصوری نے اپنی بیگم بشریٰ کے ساتھ ووٹ ڈالا۔ عظیم منصوری کا قد صرف ڈھائی فٹ ہے، جبکہ ان کی بیگم بھی ان کی طرح ہی بونے قد کی ہیں۔ دونوں کی شادی بھی سرخیوں میں رہ چکی ہے۔ اسی طرح مظفر نگر کی ایک دلہن منڈپ سے سیدھا پولنگ بوتھ پر پہنچ گئی، اس نے سرخ لہنگا اور سولہ سنگار کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ حال احوال کے۔ ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024