شمال کا حال :کیا مسلمان آسام میں اچھوت بن جائیں گے؟

’لسانی عصبیت ‘کو مذہبی تعصب میں تبدیل کرنے کی مہم!

نور اللہ جاوید

بنگالی مسلمانوں کے سوال پر کانگریس بھی ہچکچاہٹ کی شکار
ویسے تو آسام کے مسلمانوں کو گزشتہ 75 سالوں سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آسامی کلچر، تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اس کو مٹنے سے بچانے کے نام پر ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے سے آسام میں آباد بنگالی مسلمانوں کو ’غیر‘ ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔اس مہم کے نتیجے میں 1983 فروری میں ’نیلی قتل عام‘ کا بدترین واقعہ پیش آیا جہاں محض 24 گھنٹوں میں 10 ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ 1984 میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے سرگرم رول کی وجہ سے ’آسام معاہدہ‘ کے نتیجے میں نیلی قتل عام کی جانچ بند کردی گئی۔ 40 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس قتل عام کے ایک بھی مجرم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ آسام کی اشرافیہ اس خونِ ناحق کو بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جس پر انہیں کوئی پشیمانی بھی نہیں ہے۔
نیلی قتل عام کی پوری سچائی جاپانی مصنفہ مکیکو کیمورا نے اپنی کتاب The Nellie Massacre of 1983:Agency of Rioters کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے درمیان رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک وزیر اعظم کی آسام میں انتخاب کرانے کی ضد اور انا کی وجہ سے نیلی قتل عام کا واقعہ پیش آیا۔ اور دوسرے وزیر اعظم کی وجہ سے قتل عام کے ملزمین کے خلاف مقدمات نہیں چل سکے۔اگر جاپانی مصنفہ اس کتاب کے لیے نیلی کی خاک نہیں چھانتیں تو دنیا کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نیلی کے مسلمانوں پر کس طرح سے طوفان آکر گزر گیا۔ آسام معاہدہ کے نتیجے میں این آر سی کا مہیب سایہ آسامی مسلمانوں کے سر پر چار دہائیوں تک چھایا رہا۔ 2020 میں این آر سی کی فائنل رپورٹ نے دنیا کے سامنے سچائی کو واضح کر دیا کہ اب تک مسلمانوں سے متعلق جو کچھ دعوے کیے جا رہے تھے وہ سب کے سب جھوٹ اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں تھے۔ جن 6 لاکھ مسلمانوں کا نام این آر سی کی فائنل لسٹ میں نہیں آسکا ان میں دو تہائی وہ ہیں جو افسران کے لاپروائی اور تعصب کے شکار ہوئے ہیں کیوں کہ باپ کا نام این آر سی میں تھا تو بیٹے کا نام نہیں تھا، بھائی کا نام این آر سی میں ہے تو دوسرے بھائی کا نام نہیں ہے۔ این آر سی کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا وہ الٹا پڑ چکا ہے۔2021 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہیمنت بسوا سرما کی قیادت میں بننے والی حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے کئی ایسے اقدمات کیے ہیں جن سے ملک کے سیکولر آئین کی بقا پر ہی سوال اٹھتے ہیں۔ آئین کا حلف لینے والے ہیمنت بسوا سرما غرور و تکبر سے کہتے ہیں کہ وہ آسام میں ایک بھی مدرسے کا وجود برداشت نہیں کریں گے، جبکہ مدرسوں کے قائم کرنے کا حق تو ملک کا آئین دیتا ہے۔ ایک وزیر اعلیٰ کے ذریعہ غیر آئینی باتیں شاید اس وقت چند لوگوں کو اچھی لگ رہی ہوں مگر ہر غیر آئینی قدم چاہے جس کے ذریعہ اٹھایا جائے اس سے ملک کی بنیادیں کمزور ہوں گی۔ گزشتہ مہینے میں دو مختلف پروگرامس، مختلف بینر تلے منعقد ہوئے مگر ان دونوں پروگراموں کے ذریعہ جو پیغام دیا گیا وہ یہ ہے کہ آسام کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کانگریس جیسی سیکولر جماعت بھی بنگالی مسلمانوں کے سوال پر مخمصے میں ہے۔
بنگلہ ساہتیہ سبھا آسام کا پروگرام مگر بنگالی مسلم ادباو شعراء نظر انداز
آسامی تحریک کا پورا مقصد بنگلہ کی مخالفت ہے۔ جب بھی آسام میں آباد بنگالیوں نے اپنی زبان اور کلچر کی حفاظت کے لیے کوئی قدم اٹھایا تو آسام میں اس کی شدید مخالفت ہوئی ہے۔ اس سے قبل بنگالی مسلمانوں کی جانب سے ’’میو میوزیم‘‘ کی تعمیر کی گئی تو بڑے پیمانے پر حکومت نے اس کے خلاف کارروائی کی جبکہ اس ملک کے آئین نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔ گزشتہ مہینے 25 مارچ کو نو تشکیل شدہ ادبی ادارہ ’’بنگلہ ساہتیہ سبھا آسام‘‘ کی ریاستی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی وجہ سے آسام کی سیاست میں کافی گرمی پیدا ہوئی۔ پہلے کانفرنس میں ’’آسامی فولم گا موسا‘‘ اور بنگالی گمچھا ‘‘ کو جوڑ کر مہمانوں کو پیش کیا گیا۔دوسرے یہ کہ اس کانفرنس میں آسامی تہذیب و ثقافت و کلچر کے محافظ کہے جانے والے بی جے پی لیڈروں نے شر انگریزی کی۔دراصل اب بی جے پی نے سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ بنگالی اور آسامی ہندوؤں کو متحد کرنے کا پیغام دینا شروع کر دیا ہے، کیونکہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد سخت گیر آسامی النسل باشندوں میں شدید ناراضگی ہے اور اس کا تدارک بنگالی ہندو ووٹرس کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ’’بنگلہ ساہتیہ سبھا‘‘ کے پروگرام سے بنگالی مسلم ادیب و شعرا کو دور رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مسلم شعرا و ادبا کی عدم شرکت اتفاق ہے یا پھر شعوری طور پر انہیں دور رکھا گیا ہے؟
’’آسامی فولم گاموسا‘‘ یہ ہاتھ سے بنا ہوا سرخ اور سفید تولیہ ہے آسامیوں کے لیے ایک وسیع پیمانے پر قابل احترام ثقافتی علامت ہے۔ اس میں بنگال گمچھا جوڑے جانے کو آسامی ثقافت و کلچر کی توہین قرار دیا گیا ہے۔ اس پر سخت رد عمل سامنے آیا اور آخر کار ’’بنگلہ ساہتیہ سبھا آسام‘‘ کی انتظامیہ کو اس پر معافی مانگی مانگنی پڑی۔ اس پر آسام کے متعدد علاقوں میں ایف آئی آر درج کی گئی مگر میو موزیم کے خلاف جس سرعت کے ساتھ کارروائی کی گئی تھی وہ نظر نہیں آئی۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کی وجہ سے سیاست میں شامل ہونے والے اکھل گوگوئی الزام لگاتے ہیں کہ 25 مارچ کی تقریب کو بی جے پی اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ گوگوئی نے کہا کہ ’’بی جے پی کی سیاست اب ہندو بنگالیوں کے گرد مرکوز ہو رہی ہے۔ بی جے پی والے 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کو ہندوتوا ایجنڈے کے تحت آسامی معاشرے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ یہ آسام معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ ہم بی جے پی کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔دراصل بی جے پی کی کوشش ہے کہ در اندازی کے پورے سوال کو صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔بی جے پی نے متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ آسامی تہذیب و ثقافت کے لیے مسلمان خطرہ ہیں۔ بنگالی اکثریتی آبادی پر مشتمل بارک وادی کے سلچر میں کاچار کالج میں پروفیسر دیپ بسواس کہتے ہیں کہ آسامی اور بنگالی تقسیم کو ختم کرنے کے نام پر منعقد ہونے والا یہ پروگرام مشکوک کردار ادا کر رہا ہے۔ آسامی گاموسا کے برعکس جو آسامی شناخت اور ثقافت کی علامت ہے، بنگالیوں کے پاس تمام بنگالیوں کی نمائندگی کے لیے کوئی خاص علامت یا نشان نہیں ہے۔ بنگالی گامچھا ایک چیک سرخ اور سفید کپڑے پر مشتمل ہے جو ہندو مذہبی رسومات میں استعمال ہوتا تھا۔ ’’ان کے لیے بنگالیوں سے مراد ہندو بنگالی ہیں‘‘ لیکن بنگالی بھی آسامیوں کی طرح ایک لسانی برادری ہیں۔جس میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔ ادبی تنظیم کے زیادہ تر عہدیداران ہندو بنگالی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم بنگالیوں کو منصوبہ بندی سے باہر کرنا دراصل یہ بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ بی جے پی کی سیاست زبان، نسل سے ماورا ہندوؤں کو مضبوط کرنا ہے۔ اسی کے نام پر وہ انتخابات جیت رہی ہے مگر آسام میں مسئلہ کچھ اور ہے۔ بنگلہ ساہتیہ سبھا کے پروگرام میں آسام کی تاریخی شخصیات چیتنیا مہا پربھو اور سریمانتا سنکردیوا کی تصویروں کو نمایاں طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ دونوں شخصیات آسامی اور بنگالی کے لیے عظیم ہیں مگر اس کانفرنس پر تنازع کھڑا ہونے کے بعد جس طریقے سے بی جے پی لیڈروں نے صوفی آذان فقیر کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے وہ شرمناک ہے۔ ایک صوفی منش شخصیت کو غلط طریقے سے تبدیلی مذہب سے جوڑ کر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسرا واقعہ مارچ کے دوسرے ہفتے میں پیش آیا جب کانگریس کی آسام یونٹ نے تمام اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ بلائی جس میں بی جے پی مخالف علاقائی طاقتیں جیسے رائیور دل، آسوم جاتیہ پریشد، بائیں بازو کی جماعتیں وغیرہ دس سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا مگر حیرت انگیز طور پر مولانا بدرالدین اجمل کی زیر قیادت آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ جو بنگالی نژاد مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے، اسے مدعو نہیں کیا گیا۔ اس میٹنگ کا مقصد بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنا مقصود تھا۔
آسام کانگریس کے سربراہ بھوپین کمار بورہ نے میٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ وہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا چاہتے ہیں۔ میٹنگ میں جمہوریت کے تحفظ اور ریاست میں قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کے لیے عوام دشمن، آئین مخالف اور فرقہ پرست بی جے پی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے کا عزم کیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اے آئی یو ڈی ایف کے بغیر آسام میں بی جے پی کے خلاف مشترکہ اپوزیشن اتحاد کی تشکیل ممکن ہے؟ بنگالی مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم سے بی جے پی کو فائدہ ملنے کے پیش نظر 2021 کے اسمبلی انتخابات کانگریس نے اے آئی یو ڈی ایف سے اتحاد کیا تھا۔
دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس کی پوری مشنری یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ بدرالدین اجمل آسامی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں کیونکہ وہ بنگلہ دیش سے نقل مکانی کو فروغ دینے کے حامی ہیں۔ بنگلہ دیش سے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر غیر قانونی مہاجرین کی آمد آسام میں ہمیشہ جذباتی موضوع رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آسام کی سیاست کئی دہائیوں تک متحرک رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اے آئی یو ڈی ایف سے متعلق جتنے بھی الزام ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد ہیں۔ بدرالدین اجمل کی قیادت میں بڑے پیمانے پر تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا گیا ہے جس سے فیضیاب ہونے والوں میں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔
اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد کا فائدہ کانگریس کو آسام کے زیریں علاقے وادی بارک میں ہوتا ہے جہاں بنگالی مسلم اکثریت میں ہیں۔ پہلے یہ علاقہ کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر اب اے آئی یو ڈی ایف نے کانگریس کی قیمت پر اپنی پکڑ مضبوط کر لی ہے۔ بی جے پی کے عروج کی وجہ سے کانگریس نے آسامی ہندوؤں میں اپنی جگہ کھو دی ہے۔ اب ہندوتوا کے ڈھانچے نے نسلی تحریک کو مذہبی تعصب میں تبدیل کر دیا ہے اس کی وجہ سے بی جے پی بنگالی ہندوؤں میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ایسے میں کانگریس کو ہر علاقے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ آسام کے کانگریس لیڈروں کا ماننا ہے کہ بالائی آسام میں کانگریس کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ بدرالدین اجمل کی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد ہے۔ تارکین وطن کی حامی امیج والی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ نسلی آسامی اس عظیم پرانی پارٹی کو ووٹ دینے سے باز آ گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بالائی آسام میں اچھی کارکردگی کے لیے کانگریس کو بدرالدین اجمل سے تعلقات توڑنے ہوں گے۔ تاہم اگر بدرالدین اجمل سے اتحاد نہیں کیا جاتا تو زیریں اور جنوبی آسام میں مسلم وٹروں کی تقسیم کا نقصان کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف دونوں کو ہو سکتا ہے۔ دراصل کانگریس کے لیے کسی ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار دھروبا پرتم شرما، جو گوہاٹی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر بدرالدین اجمل سے اتحاد نہیں کیا جاتا ہے تو کانگریس 2019 میں لوک سبھا انتخابات میں جیتی ہوئی سیٹ بھی ہار سکتی ہے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023