شہری قومیت اورمتحدہ قومیت۔ ایک مطالعہ
(سعادت اللہ حسینی صاحب کی کتاب ہندو انتہا پسندی۔ نظریاتی کشمکش کے پس منظر میں)
شبیع الزماں، پونے
ادارتی نوٹ:تصور قومیت کے موضوع پر جناب شبیع الزماں صاحب کی ایک تحریر دعوت کے گزشتہ شمارے میں شائع ہوئی تھی اس پر ایک تبصرہ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔
شبیع الزماں صاحب نے اس سلسلہ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی کتاب کے ایک باب میں بیان کردہ شہری قومیت کے تصور پر اپنے خیالات کااظہار کیا ہے۔ شبیع الزماں صاحب کا یہ مضمون ہم نے پئیر ریویو کے لیے مختلف اہل علم کو بھیجا ہے۔ اس پر صاحب تصنیف محترم سید سعادت حسینی صاحب صاحب کی جانب سے کچھ وضاحتیں ہمیں موصول ہوئی ہیں۔
شبیع الزماں صاحب کا مضمون اور مصنف کی وضاحت دونوں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔ ہم اس موضوع پر دیگر اہل علم حضرات کے سنجیدہ تبصروں کا خیر مقدم کرتے ہیں، دعوت کے صفحات ان کے لیے حاضر ہیں۔(ایڈیٹر)
نیشنلزم پر ہمارے یہاں ماضی میں شدید بحثیں ہوچکی ہیں اور اس کی بنیاد پر ملک کی تقسیم بھی ہوئی تھی۔ اس وقت بحث متحدہ قومیت اور دو قومی نظریہ کے مابین تھی۔ تقسیم ملک کے بعد یہ تمام بحثیں کوڑے دان میں چلی گئی تھیں لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تمام پرانی بحثیں پھر سے زندہ ہوگئی ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی ایک نئی کتاب ’’ہندوتوا۔انتہا پسندی۔ نظریاتی کشمکش‘‘ شائع ہوئی ہے، جس میں ہندوتوا کے نظریاتی چیلنج کے تحت مختلف عنوانات پر گفتگو کی گئی ہے اس میں ایک باب ’’قوم پرستی کا بیانیہ‘‘ ہے۔ جس میں مصنف نے بتایا کہ ہندوتوا کا قوم پرستی کا تصور یورپ کے نشأۃ ثانیہ کے دور کا یورپی تصور ہے جسے انہوں نے ’’انٹیگرل نیشنلزم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے رد میں انہوں نے ایک دوسرے نیشنلزم کے تصور کی تائید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس حوالے سے قومیت کا ایک ایسا متبادل بیانیہ سامنے لانا ضروری ہے جو معقول، ہندوستانی احوال سے ہم آہنگ اور یہاں بسنے والے تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو۔‘‘ اس کے لیے وہ سوک نیشنلزم (شہری قومیت) کا تصور تجویز کرتے ہیں۔
ان سطور میں اسی تصور پر چند معروضات پیش کیے گئے ہیں۔ اسلامی فکر میں جدید قومی تصورات اور ’نیشن اسٹیٹ‘ پر ایک سخت موقف رہا ہے۔ مشترکہ سماجوں میں مسلم اقلیتوں کی شناخت کے تعلق سے ہمیشہ ایک الجھن رہتی ہے۔ جدید مسلم مفکرین اس مسئلہ کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس کتاب میں بھی وہی کوشش نظر آتی ہے۔ مصنف کے نزدیک نیشن اسٹیٹ میں نیشنلزم کی دو قسمیں ہیں۔ انٹیگرل نیشنلزم اور سوک نیشنلزم یا شہری قومیت۔ شہری قومیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شہری قومیت کے نظریہ کے علم بردار قومی ریاست کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے تہذیب، نسل، زبان وغیرہ کی وحدت کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ریاست یا قوم کوئی تہذیبی اکائی نہیں ہوتی بلکہ محض ایک سیاسی انتظام ہوتا ہے۔ شہری قومیت میں ایک جمہوری ریاست کی شہریت کا اشتراک افراد کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہ قومیت زبان، نسل یا تہذیب کے ذریعے متعین نہیں ہوتی بلکہ ملک کے دستور اور کچھ متفقہ اصولوں کے ذریعے متعین ہوتی ہے۔ ملک کے دستور کی حیثیت معاہدے کی ہوتی ہے اور معاہدہ میں شریک ہوکر افراد قوم کا حصہ بنتے ہیں‘‘
ان کے نزدیک انٹیگرل نیشنلزم اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جبکہ شہری نیشنلزم اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہے۔ شہری قومیت کی بنیاد اور ملی وجود کی نسبت واضح کرتے ہوئے جناب سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کی ایک ملت اور امت کی حیثیت ان کے ہندوستانی شہری ہونے کی حیثیت سے متصادم نہیں ہے۔ قوم کے وہ معنی لیے جائیں جو یورپی قوم پرستی کے پس منظر میں متعین ہوئے تھے تو بے شک مسلمانوں کے تہذیبی تشخص پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے، لیکن ایک شہری قومیت جو دستوری معاہدے کی بنیاد پر ہو، وہ الگ الگ تہذیبی گروہوں کو معاہدے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ مسلمان اپنی منفرد تہذیبی قدروں کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہتے ہوئے اس شہری قومیت کا حصہ بنے رہ سکتے ہیں۔‘‘
اس تعبیر کو جماعت اسلامی کی بنیادی فکر کی تاریخ کے اعتبار سے ایک بڑا اجتہادی قدم کہا جا سکتا ہے۔ یہ تعبیر کم ازکم نیشن اسٹیٹ میں مسلمان اقلیتوں کی حیثیت کے کنفیوژن کے مسئلہ کو حل کرتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود نیشن اسٹیٹ اب ایک حقیقت ہے۔جہاں یہ تعبیر مسئلہ کا ایک عملی حل پیش کرتی وہیں اس پر کئی سولات بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اول یہ کہ نظریاتی سطح پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے انٹیگرل نیشنلزم ہو یا سِوک نیشنلزم دونوں ہی مغربی تصورات ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغرب ہی کے ایک تصور کو کلاسک لٹریچر سے سپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے یعنی کوئی نیا حل نہیں پیش کیا بلکہ ایک دوسری تہذیب کی چیزوں کو اپنی قدروں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جانرہی ہے۔’امپورٹیڈ کانسپٹ‘ ہی میں سے کچھ بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوم یہ کہ مغرب تصورات کے ساتھ مسئلہ یہ رہتا ہے کہ وہ جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں۔ مغربی مدبروں کی امتیازی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت سیاسی اصطلاحات اور دل فریب تعبیروں کی آڑ میں اپنے مفادات کو پورے کرنے والے نظریات کی ترویج و اشاعت کرتے ہیں۔ جمہوریت کے معاملے ہی کو لیجیے کن کن دلفریب نعروں کے ساتھ اسے لانچ کیا گیا تھا لیکن آج جب اس پر ایک عرصہ گزر گیا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ اصولی طور پر تو سب کے لیے یکساں آزادی تسلیم کی گئی تھی لیکن اب اکثریت پسندی (Majoritarianism) سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ پوری دنیا میں دائیں بازو کی طاقتیں خود جمہوریت ہی کا استعمال کر کے اقتدار تک پہنچی ہیں۔ دور کیوں جائیں خود جس ’مدر آف ڈیمو کریسی‘ میں ہم جی رہے ہیں اسکے دستور کے دیباچہ میں انصاف، آزادی اور مساوات کی یقین دہانی ہے لیکن ملک عزیز میں یہ قدریں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اس لیے اہل نظر نے ابتداء ہی سے ان نظریات پر خدشات کا اظہار کر دیا تھا اقبال جیسے مغرب شناس نے اسی وقت کہہ دیا تھا۔
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مغربی نظریات جیسے سیکولرزم، جمہوریت، نیشنلزم، لبرل ازم وغیرہ میں چند خوبیاں بھی ہیں جیسے ان تصورات کے سبب سے انسانی آزادی، فرد کی اہمیت، اور انسانی حقوق کی اہمیت بڑھی ہے اور اس کے حدود واضح ہوئے ہیں۔ مذہی تعصبات اور دقیانوسیت کا زور ٹوٹا، فکرو نظر کے زاویے وسیع ہوئے لیکن یہ تمام فائدے مغربی دنیا ہی کو ملے، یورپ اور امریکہ کی اقوام کے لیے آزادی اور حقوق کے اصول تسلیم کیے گئے لیکن باقی دنیا کو کم تر اقوام ہی سمجھا گیا اور انہیں یہ حقوق کبھی نہیں ملے۔ دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ ہی کا حال دیکھ لیجیے۔ اقوام متحدہ اپنی سرشت میں نا انصافی پر مبنی ہے یعنی پانچ قوتوں کو ویٹو کی طاقت دی گئی ہے۔ چاہے دلائل، سچائی اور انصاف کے تقاضے کچھ بھی ہو اور چاہے پوری دنیا ایک طرف ہی کیوں نہ کھڑی ہو لیکن پانچ طاقتوں میں سے کوئی بھی اسے ویٹو کرسکتا اور سچائی بدل جائے گی۔
سوم، مولانا مودودی اور علامہ اقبال کی نیشنلزم پر تنقید کے حوالے سے مصنف کا خیال یہ ہے کہ وہ تنقید انٹیگرل نیشنلزم کے حوالے سے تھی نہ کہ سوک نیشنلزم کے حوالے سے؟ وہ لکھتے ہیں:
’’بیسویں صدی کے وسط تک قومیت اور انٹیگرل قوم پرستی کے یہ تصورات تقریباً ہم معنی تھے۔ اس میں وطن قومی تہذیب کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا تھا۔ وطن سے تعلق اور محبت کا مطلب قومی تہذیب سے گہری وابستگی تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں متعدد اسلامی مفکرین نے اس تصور پر شدید تنقیدیں کیں۔ مولانا مودودی کی کتاب مسئلہ قومیت، علامہ اقبال کی مشہور نظم وطنیت اور ان کے مضامین وغیرہ ان ہی غالی تصورات کا ریسپانس تھے۔ لیکن جلد ہی مغرب کی علمی دنیا میں بھی قومیت کے اس انتہا پسند تصور کے مقابلے میں متبادل تصورات کا ظہور شروع ہوا۔‘‘
لیکن جب ہم مولانا مودودی کے قومیت پر مضامین اور علامہ اقبال کے خطبات اور شاعری پڑھتے ہیں تو یہ بات صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ نیشنلزم کو ہی فی نفسہ برا سمجھتے تھے۔ اس میں کوئی سوک اور انٹیگرل کی تفریق نہیں تھی۔ مثال کے طور پر اقبال کے درج ذیل اشعار دیکھیے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
ان اشعار میں نیشنلزم کی جو خباثتیں بتائی گئی ہیں وہ سوک یا انٹیگرل کی محتاج نہیں ہے ۔دونوں ہی صورتوں میں وہ یکساں رہے گی ۔ مولانا مودودی کے بھی تمام مضامین کو پڑھ لیجیے کہیں بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ نیشنلزم کے کسی مخصوص تصور پر تنقید کر رہے ہیں۔ جیسے ذیل کا پیراگراف دیکھیے۔
’’برعکس اس کے نیشنلزم انسان اور انسان کے درمیان اس کی قومیت کے لحاظ سے تمیز کرتا ہے نیشنلزم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر قوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیت کو دوسری تمام قوموں طور پر ترجیح دے اگر وہ جفا کار قوم پرست نہ ہو تب بھی قوم پرستی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ وہ تمدنی معاشی سیاسی اور قانونی حیثیت سے قومی اور غیر قومی میں فرق کرے۔ قومی مفاد کے لیے معاشی امتیازات کی دیوار کھڑی کرے۔ جن تاریخی روایا ت اور روایتی تعصبات پر اس کی قومیت قائم ہے ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کرے اور اپنے اندر قومی تفاخر کے جذبات پرورش کرے اور دوسری قومیت کے لوگوں کو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبے میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے۔ جہاں اس کی قوم دوسرے کے مقابلے زیادہ فوائد و منافع سے متمتع ہو رہی ہو رہی ہو ، یا ہو سکتی ہو وہاں عدل و انصاف کے لیے اس کا دل اندھا ہو جائے گا اس کا منتہائے نظر جہانی ریاست کے بجائے قومی ریاست ہوں گا اور اگر کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپیریلزم یہ قیصریت کی صورت ہوں گی کیونکہ اس کے اسٹیٹ میں دوسری قومیتوں کے لوگ کسی طرح برابر کے حصے دار کی حیثیت سے داخل نہیں ہو سکتے بلکہ صرف غلام کی حیثیت ہی سے داخل ہو سکتے ہیں‘‘ (حوالہ، کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے)
یہ بات مولانا مودودی نے نیشنلزم کے بالکل ابتدائی مفہوم کی بنیاد پر کہی۔ اسی مضمون میں وہ آگے چل کر وہ یورپین نیشنلزم پرالگ سے تنقید کر رہےہیں اور اس تحریر سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ نیشلزم پر عمومی تنقید کر رہے ہیں نہ کہ یورپین نیشنلزم پر۔ یہ تنقید انٹیگرل اور سوک کی تقسیم سے پرے ہے۔ اس لیے سعادت اللہ حسینی صاحب اپنی طرف سے تو یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سوک اور انٹیگرل نیشنلزم کی دو مختلف قسمیں ہیں جن کے تصورات اورنتائج مختلف رہیں گے لیکن مولانا مودودی اور علامہ اقبال کی طرف اس طرز کی تعبیر منسوب کرنا درست نہیں ہے۔
سعادت اللہ حسینی صاحب نے سوک نیشنلزم کی مثال میں یورپی یونین، ہنگری، سویڈن اور فن لینڈ کی مثالیں بطور نمونہ پیش کی ہیں۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یورپ میں انسانی جان، فرد کی آزادی اور اس کے تحفظ کے لیے سماج اور سرکاری سطح بہت کام ہے اور وہاں بالکل جدید قسم کے معاشرے وجود میں آ چکے ہیں۔ مغربی ممالک میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں اس کا دسواں درجہ بھی ہمارے یہاں نہیں ہے۔ ہندوستان کی صورتحال یکسر مختلف ہے اس لیے وہاں کے تجربات اور مثالیں ہندوستانی معاشروں میں سود مند ثابت نہیں ہو سکتیں۔ یہاں کے لیے حل خود یہاں کے حالات ہی میں غور و فکر کر کے نکالے جانے چاہئیں۔
چہارم، اس باب کے آخر میں سعادت صاحب فرماتے ہیں:
’’انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ مشترکہ سماجوں میں شہری قومیت کا راستہ ایک قابل عمل راستہ ہے۔ ایسے معاشروں میں اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسلام کے علم بردار اور اس کے سفیر بن کر معاشرے میں رہیں اور معاشرے میں اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے۔ اس لیے دستوری معاہدے کی بنیاد پر بننے والے ملک میں مسلمان ایک نظریاتی تہذیبی گروہ کے طور پر رہیں گے۔ وہ ملک کے بھی وفادار رہیں گے اور اپنے دین و تہذیب سے بھی ان کی اٹوٹ وابستگی ہوگی۔ اپنے اصولوں کی معقولیت وہ اہل ملک پر واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی دستور کی متفق علیہ قدروں کو رو بہ عمل لانے اور باقی اہل ملک کے ساتھ مل کر ملک میں امن و امان، عدل و انصاف اور تعمیر و ترقی کے لیے جد و جہد کرتے رہیں گے۔‘‘
یہ باتیں اصولی طور پر تو اچھی ہیں لیکن بیانیہ دینے میں شاید بہت دیر ہوچکی ہے۔ اس قسم کی تحریریں نہروین دور میں خوب لکھی گئی اور اس وقت مناسب بھی معلوم ہوتی تھیں۔ اس زمانے کے مسلم مفکرین کی تحریریں جب ہم پڑھتے ہیں تو اس قسم کے بیانیے کثرت سے ملتے ہیں لیکن جس شدت پسند حماقت کی طوفان میں ہم اس وقت پھنسے ہیں ان حالات میں اس سے بہتر بیانیے کی توقع تھی۔
پنجم، سوک نیشنلزم کے حق میں جو کچھ دلائل دیے گئے ہیں ان میں سے بعض دلائل وہی ہیں جو اس سے پہلے حسن اتفاق سے مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا آزاد نے متحدہ قومیت کے ضمن میں دیے تھے۔ مثلا سورہ حجرات کی آیت 13 نبی کریم (ﷺ) کے مدینہ میں کیے گئے مختلف معاہدات اور جدید دنیا میں شراکت کے اصول وغیرہ۔ نبی کریم (ﷺ) کے ذریعے کیے گئے معاہدوں سے دلیل دیتے ہوئے سعادت صاحب لکھتے ہیں:
’’ان حدود کا لحاظ کرتے ہوئے مشترک معاہدوں کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور اس کے رکن بنے رہنے کی نظیر تو خود اللہ کے رسول (ﷺ) کی سیرت سے ملتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں جو ریاست تشکیل فرمائی اس میں یہودی اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ شامل تھے۔ چناں چہ معاہدہ کے الفاظ میں یہ عبارت بھی تھی کہ وأن يهود بني عوف أمة مع المؤمنين لليهود دينهم وللمسلمين دينهم (بنو عوف کے یہودی، مومنوں کے ساتھ ایک امت ہوں گے۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین) بعد میں اسی طرح کا معاہدہ آپ نے نجران کے عیساٰیئوں کے ساتھ فرمایا تھا۔‘‘
متحدہ قومیت کے حق میں مولانا حسین احمد کی اس دلیل پر مولانا مودودی کی تنقید ہم جوں کی توں نقل کر رہے ہیں بلاشبہ سوک نیشنلزم اور متحدہ قومیت میں بڑا فرق ہے لیکن مولانا مودودی کی تحریر سے پھر بھی کچھ نہ کچھ رہنمائی اس باب میں بھی ہوتی ہے۔
"آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متحدہ قومیت بنائی تھی، اور اس کے ثبوت میں وہ معاہدہ پیش کرتے ہیں جو ہجرت کے بعد حضور اکرم (ﷺ) اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں کہیں یہ فقرہ مولانا کے ہاتھ آگیا کہ: وَأَنَّ يَهُودَ يَنِي عَوْفَ أُمَّةٌ مَّعَ الْمُؤْمِنِينَ بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک اُمت ہوں گے۔ سعادت اللہ حسینی صاحب نے بھی یہی فقرہ نقل کیا۔ یہ دعوی کرنے کے لیے محض اس فقرہ کو کافی سمجھ لیا گیا کہ یہودی اور مسلمان ایک اُمت ہوں گے۔ آج بھی مسلمانوں اور غیرمسلموں کی متحد و قومیت بن سکتی ہے۔ لیکن یہ پھر لفظی مغالطہ ہے۔
اُس لغوی اُمت کو آج کی اصطلاحی متحدہ قومیت سے کیا واسطہ؟ زیادہ سے زیادہ اس کو آج کل کی سیاسی زبان میں فوجی اتحاد کہہ سکتے ہیں۔ محض ایک تحالف تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہود اپنے دین پر اور مسلمان اپنے دین پر رہیں گے، دونوں کی تمدنی و سیاسی ہیئتیں الگ الگ رہیں گی، البتہ ایک فریق پر جب کوئی حملہ کرے گا تو دونوں فریق مل کر لڑیں گے اور دونوں جنگ میں اپنا اپنا مال خرچ کریں گے۔ دو تین سال کے اندر ہی اس تحالف کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں نے کچھ یہودیوں کو جلا وطن کیا اور کچھ کو ہلاک کر دیا۔ کیا اسی کا نام متحدہ قومیت ہے؟ کیا کسی معنی میں بھی یہ چیز اس”متحدہ قومیت سے مماثلت رکھتی ہے جو اس وقت معرض بحث میں ہے؟ کیا وہاں کوئی مشترک مجلس قانون ساز بنائی گئی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ یہودی اور مسلمان ایک مجموعہ ہوں گے اور اس مجموعہ میں سے جس کی اکثریت ہوگی وہی مدینہ پر حکومت کرے گا اور اسی کے منظور کیے ہوئے قوانین مدینہ میں نامزد ہوں گے؟ کیا وہاں مشترک عدالتیں قائم ہوئی تھیں جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے قضایا یک جا اور ایک ہی ملکی قانون کے تحت فیصلہ ہوتا ہو؟‘‘ (حوالہ متحدہ قومیت)
آخر میں اس کتاب سے ہٹ کر ایک بات، جیسا شروع میں ہم نے لکھی تھی کہ جدید نیشن اسٹیٹ میں مسلمانوں کا بالخصوص مشترک معاشروں میں یا جہاں مسلمان اقلیت میں ہے کا کیا کردار ہونا چاہیے یہ مسئلہ پچھلی صدی سے ہمارے مفکرین کے یہاں بحث کا موضوع رہا ہے اور اس پر مختلف تعبیریں یا حل پیش کیے جاتے رہیں ہیں لیکن واقعہ یہی ہے کہ زخم ہیں کہ رس رہے ہیں اور مرہم کا پتہ نہیں اس لیے تلاش مرہم ہنوز جاری ہے۔اسی طرز کی کوششیں ہمارے دور کے جدید مفکرین بھی کرتے رہتے ہیں۔ نیو ماڈرن مفکرین جیسے طارق رمضان، ضیاءالدین سردار وغیرہ نیشن اسٹیٹ کے تصورات کو لے کر کچھ نہ کچھ بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر بعض نے اتنی تکلیف بھی گوارا نہیں کی اور مزید آسان راستہ اپنا لیا جیسے محترم جاوید احمد غامدی صاحب جنہوں نے سرے سے اسلام میں قومیت ہی کا انکار کر دیا ہے ۔
دلوں کو فکر دو عالم سے کر دیا آزاد۔
ان مفکرین کی بنیادی خامی یہ ہے کہ چیزوں کو مغربی قدروں سے دیکھتے ہیں اور انہیں سے ناپتے ہیں حالانکہ انہیں اسلامی قدروں کے پیرامیٹرز سے چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے جیسا ماضی میں مولانا مودودی یا علامہ اقبال کا اپروچ تھا۔ ان مفکرین کے اس اپروچ سے وہ بات بھی سچ ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے جو فرانسس فوکویاما نے اپنی کتاب اینڈ آف ہسٹری اینڈ لاسٹ مین میں کہی تھی کہ اجتماعی سطح پر نظریات اپنی منطقی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اب جو بھی نئے نظریات جنم لیں گے وہ انہیں میں کمی بیشی کرکے بنائے جائیں گے، کوئی نیا ضابطہ حیات یا نظریہ جنم نہیں لے گا۔
۔ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس ابھی جو کچھ بچا ہے وہ ان کا فکری اثاثہ ہی ہے۔ ہندوستان میں سخت ترین حالات کے درمیان بھی مسلمان اپنی فکری بلندی پر قائم رہے ہیں۔ اگر ہم اس طرح مغربی اصطلاحات سے چیزوں کو دیکھنے کا مزاج پیدا کریں گے تو نظریاتی سطح پر ہماری مزاحمت کمزور ہو جائے گی اور عملی سطح پر تو مزید خرابی پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے مغربی تصورات سے استفادہ کرتے وقت مطلوب احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اختتام میں ہم خاتمہ علامہ اقبال کی اس تحریر پر کرتے جو اس میدان کے سب سے بڑے رمز شناس تھے۔
’’مذہبی خیال اسلامی جماعت کا سر چشمہ زندگانی ہے۔ اس جماعت کی صحت و توانائی کے قائم رکھنے کے لیے ان مخالف قوتوں کی نشو و نما کو جو اس کے اندر کام کر رہی ہیں بغور دیکھتے رہنا چاہیے اور خارجی عناصر کی صریح آمیزش سے اول تو بچانا اور یا اگر آمیزش منظور ہی ہو تو اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ آمیزش آہستہ آہستہ ہو اور بتدریج ہو تاکہ نظام مدنی کی قوت اخذہ و جاذبہ پر زیادہ زور نہ پڑے اور اس طور پر یہ نظام بالکل ہی درہم بر ہم نہ ہو جائے۔ جماعت اسلامی سے جس فرد کو تعلق ہو اس کا ذہنی سرمایہ اس دولت سے ماخوذ ہونا چاہیے جو اس کے آبا و اجداد کی دماغی صلاحیتوں کا ماحصل ہے تاکہ وہ ماضی و استقبال کے ساتھ حال کے رابطہ و تسلسل کو محسوس کرتا رہے۔‘‘
حوالہ جات۔
1۔ مسئلہ قومیت (و دیگر مضامین) ۔ مولانا مودودی
2۔متحدہ قومیت اور اسلام۔ مولانا حسین احمد مدنی
3۔ہندوتوا انتہا پسندی۔ نظریاتی کشمکش اور مسلمان۔ سید سعادت اللہ حسینی
4۔ مقالات اقبال۔ ( مرتبہ عبدالواحد معینی)
5 ۔کلیات اقبال۔ علامہ اقبال
6۔ خطبات آزاد- مولانا ابوالکلام آزاد
7 ۔انڈیا ونس فریڈم۔ مولانا ابوالکلام آزاد
8۔ دستور ہند
9۔ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں۔ سید عابد حسین
10۔ہندوستانی مسلمان۔ محمد مجیب
***
جناب سید سعادت اللّہ حسینی کی وضاحت
جناب شبیع الزماں صاحب کی اس تحریر میں دو بڑے مغالطے ہیں۔ اول یہ کہ زیر تنقید تحریر میں اسلام کے آئیڈیلز کی بحث نہیں ہے بلکہ موجودہ دور کے مخلوط معاشروں میں عملی راستے کی تلاش کی کوشش کی گئی ہے۔ تنقید نگار اس کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بات بھول جاتے ہیں۔ اسلام کا آئیڈیل تصور وحدت انسانی ہے جس کا ذکر کتاب میں موجود ہے۔ بلکہ کئی ابواب میں تکرار کے ساتھ اس پر گفتگو کی گئی ہے۔ لیکن نیشن اسٹیٹ کی موجودہ صورت حال میں مسلمان کیا کریں؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ انٹیگرل نیشنلزم جس میں نسل، زبان یا تہذیب کو انسانی اجتماع کی اصل اساس قرار دیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک استبدادی ریاست تشکیل پاتی ہے جو دیگر تہذیبوں سے مستقل تصادم کا رشتہ رکھتی ہے وہ اسلام کے مزاج تعلیمات اور مفاد سے راست متصادم ہے اس لیے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس کے مقابلے میں شہری قومیت کا معاصر تصور جو مخلتف تہذیبی گروہوں کی تہذیبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے اور دستوری معاہدے کو قوم سازی کی اصل اساس بناتا ہے وہ اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہے اور اس کی نظیریں بھی اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔
دوسرا یہ کہ، زمانے کے ساتھ تصورات بدلتے رہتے ہیں اور اصطلاحات کے معنی و مفہوم میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ تنقید نگار 2023 کے مباحث کو اسی نوے سال پرانے مباحث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور حسین احمد مدنیؒ کے زمانے میں نیشنلزم کا مطلب کیا تھا؟ اس وقت نیشنلزم کا ایک ہی مطلب تھا اور وہ انٹیگرل نیشنلزم تھا۔ مولانا مودودیؒ نے نیشنلزم کی جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ انٹیگرل نیشنلزم کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کیا اس وقت شہری قومیت کا متبادل تصور عام طور پر رائج تھا؟ کتاب میں تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ شہری قومیت سے مراد وہ تصورات ہیں جو پروفیسر ٹائن بی، ہانس کون، گیلنر، ہچنسن وغیرہ کے تصورات کے نتیجے میں، یورپ و امریکہ میں ہمہ تہذیبی معاشروں کے فروغ کے نتیجے میں اور گلوبلائزیشن کے نتیجے میں فروغ پائے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنا کس قدر مضحکہ خیز مغالطہ ہے کہ مولانا مودودیؒ یا علامہ اقبال نے نیشنلزم کی کسی قسم پر نہیں بلکہ مجرد نیشنلزم پر تنقید کی ہے اور شہری قومیت کی تائید کا کوئی خیال ان کے پاس نہیں تھا۔ شہری قومیت پر لکھنے یا قومیت کے متبادل تصورات کو زیر بحث لانے کے لیے مولانا مودودی کو عالم الغیب ہونا پڑتا تھا۔ بے شک شہری قومیت کا نام مولانا مودودی نے نہیں لیا ہے لیکن تنقید نگار اگر مولانا مودودیؒ کے وہ مضامین پڑھتے جو انہوں نے ’ہمارا سیاسی نصب العین‘، ’راہ عمل‘، ’شبہ دارالاسلام‘ وغیرہ عنوانات سے لکھے ہیں یا وہ خط پڑھتے جو انہوں نے قاسم رضوی کو لکھا تھا یا ایسی اور متعدد تحریریں پڑھتے تو انہیں یہ مغالطہ نہیں ہوتا۔ ان سب تحریروں میں مولانا نے جو اسکیم تجویز کی ہے وہ کم و بیش وہی ہے جسے ہم سوک نیشنلزم سے تعبیر کر رہے ہیں (یعنی معاہدہ کی بنیاد پر بننے والی مختلف مذہبی گروہوں کی مشترکہ ریاست، معاہدے کیا ہوں؟ یہ الگ الگ زمانوں میں انہوں نے الگ الگ معاہدے تجویز کیے ہیں) سوک نیشنلزم سے مراد کس قسم کی قومی ریاست کا تصور ہے اس کی تفصیلی وضاحت کتاب کے دیگر مضامین سے ہوتی ہے۔ خاص طور پر تیسرے حصے کے مضامین سے۔۔
باقی معاصر اصطلاحات سے گریز کی بات تو اس طرح وعظ اور خطبات تو ہو سکتے ہیں، اپنے زمانے سے کوئی سنجیدہ ڈسکورس نہیں ہوسکتا۔ یہ کام نہ قرآن نے کیا ہے کہ مروج جاہلی اصطلاحات کو مکمل طور نظر انداز کر دیا ہو اور نہ کسی بااثر اسلامی مفکر نے کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ پر ایک بڑا اعتراض یہی ہے کہ انہوں نے اسٹیٹ، قانون ساز، حاکمیت، اقتدار اعلی، حقوق، نظام، آئیڈیالوجی وغیرہ مغربی اصطلاحات وتصورات کو اسلامی فکر میں درآمد کیا ہے۔۔۔ظاہر ہے یہ ایک نامعقول اعتراض ہے ۔۔۔۔ مولانا مرحوم نے مروج زبان کو اسلامی فکر کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا ہے۔۔یہ ہر زمانے میں ضروری ہے۔
(سید سعادت اللہ حسینی)
***
اسلام اور قومیت
شبیع الزماں کے مضمون پر ایک تبصرہ
صلاح احمد صابری، پونے
جناب شبیع الزماں صاحب کا مضمون اسلام اور قومیت پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس کو مصنف نے دو قومی نظریہ اور متحدہ قومیت کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ بر صغیر کے چار اکابرین (اقبال، مولانا مودودی، مولانا حسین مدنی و مولانا آزاد مرحومین) کے نقطہ نظر اور ان کے درمیان کے مباحث کو قلم بند کیا ہے۔ اس کے بعد دو قومی نظریہ اور متحدہ قومیت کے تعلق سے جن لوگوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا اس کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مختصرا یہ مضمون تمام پہلو کا بخوبی احاطہ کرتا ہے۔ چند پہلوؤں پر مزید گفتگو توجہ طلب اور وضاحت درکار ہے۔
-1 اقبال کی وفات آزادی سے قبل ہو چکی تھی، مولانا مودودی بھی کبھی اقتدار حاصل نہیں کر پائے۔ اس کے برعکس مولانا حسین مدنی و مولانا آزاد اقتدار کا حصہ یا اس سے قریب رہے۔ اس وجہ سے ان دونوں بزرگان کو اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اگر ان کے ذہن میں آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے کوئی پالیسی تھی تو اس پر عمل کرنے و نفاذ کا پورا موقع تھا۔ اس کے بالمقابل نہ تو اقبال اور نہ ہی مولانا مودودی کے پاس اقتدار تھا۔ اس وجہ سے پاکستان کی یا وہاں کے مسلمانوں کی ناکامی میں ان کے نظریات کا عمل دخل رہا، یہ کہنا درست نہیں۔ اس وجہ سے اثرات کا جائزہ لیتے وقت یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ایک گروہ تو اقتدار کے قریب یا اس کا حصہ رہا جبکہ دوسرے گروہ کے ساتھ معاملہ مختلف تھا۔
-2 دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کے خلاف برے نتائج و خدشات کا تو اظہار کیا مگر ان کے ساتھ جو لوگ وابستہ تھے ان کے لیے کوئی مثبت پالیسی کیا ہوگی، وہ کس طرح سے نتیجے کے اعتبار سے بہتر ہوگا اس پر گفتگو نہیں کی۔ مولانا آزاد یا حسین احمد مدنی متحدہ قومیت کی بات کرتے نظر آتے ہیں، مگر جو مسلمان ان کی بات مان کر ہندوستان میں شامل ہو جاتے ہیں ان کے لیے کیا پلان ہے؟ ان کے معاش اور تعلیم کے مسائل کس طرح حل ہوں گے؟ مرحومین کے نزدیک متحدہ قومیت کے نتیجے میں مسلمان بچوں کو کیا تعلیم دی جائےگی؟ کیا ان کو یہ لگتا تھا کہ یا تو مدارس کی تعلیم دی جائے یا کامن سلیبس کے تحت عام مسلمانوں کو ہندووں کے ساتھ تعلیم دی جائے اور دین کی تعلیم کے لیے غیر منظم مساجد و مکاتب کے ذریعے تعلیم دی جائے؟ کیا قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے وقت دونوں میں سے کوئی ایک آپشن بھی دائمی اور ٹھوس ہے؟
-3 مولانا آزاد نے پاکستان کے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اپنے مزاجوں کی وجہ سے دو علاقے متحد نہیں رہ پائیں گے۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ پچیس سالوں کے اندر ہی پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا مگر تقسیم کی وجہ دو علاقے کے لوگوں کے مزاجوں کا فرق بتانا درست اور مکمل تجزیہ نہیں ہے۔ خود ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں لوگوں کے مزاج میں اس سے کہیں زیادہ فرق ہے۔ اگر جغرافیہ اور لیڈرشپ کی بات کی جاتی تو بات مکمل ہوتی۔ اس وقت جو لوگ بھی متحدہ قومیت کی بات کر رہے تھے یا پھر بٹوارے کی، دونوں طرف ویژن کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ ایک گروہ محض ہنگامہ آرائی سے ایک ملک بنانا چاہتا تھا تو دوسرا گروہ بلا شرط مسلمانوں کی تقدیر دوسرے کے ہاتھ میں سونپ دینا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں نہرو ایک ویژنری لیڈر تھے اور ان کو پتہ تھا کہ جس ملک کی جد و جہد کر رہے ہیں وہاں کیا کرنا ہے۔
-4 متحدہ قومیت کے تعلق سے دو خدشات کا تذکرہ بھی مضمون میں کیا گیا ہے۔ ایک ان کے دین اور تہذیب سے متعلق ہے تو دوسرا ان کی ترقی اور جان، مال اور آبرو کے تحفظ سے متعلق ہے۔ دوسرے پہلو پر تو مضمون نگار سے اتفاق ہے مگر پہلا پہلو مزید توجہ کا طالب ہے۔ مصنف نے مسلم دور حکومت سے موجودہ مسلمانوں کی مذہبی حالات کا بھی موازنہ کیا ہے۔ یہ گفتگو ظاہر ہے کہ طویل بحث چاہتی یے اور بہت آسانی سے اس کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔ مسلمانوں میں جو مذہبی رجحان بڑھا ہے وہ عالمی ہے اور یہ ہندوستان کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ دوسری بات اس دور کی ترقی نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ شرح خواندگی بھی پہلے کے مقابلے میں کافی بڑھی ہے۔ اور ان تمام عوامل کا اثر مسلمانوں کے مجموعی رجحان پر پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں دین کی عمومی واقفیت بڑھی ہے اور جہالت بھی دور ہوئی ہے۔ بہر حال یہ مضمون کا مرکزی موضوع نہیں ہے اور یہاں اس پر طویل گفتگو مناسب بھی نہیں۔ اردو زبان میں مسلمانوں کا دینی اور سماجی لٹریچر موجود ہے اور زبان کسی قوم کی تہذیب کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ بڑے علاقے سے اردو ختم ہو چکی ہے یا اس کا اثر کافی کم ہو گیا ہے۔ بڑی تعداد ایسی ہے جو اردو پڑھ اور لکھ نہیں سکتی۔ گویا مسلمان قوم اپنی تاریخ اور تہذیب سے دور ہوتی جا رہی ہے (مضمون نگار نے خود دوسرا مضمون زبان کے تعلق سے جو لکھا ہے اس کا مطالعہ مفید ہوگا) اور ظاہر ہے کہ جب متحدہ قومیت کے نتیجے میں مکمل خود سپردگی کر دی جائے گی اور نظام تعلیم پر سرکار کا مکمل قبضہ ہوگا تو یہ خدشات بے جا نہیں ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ مختلف عوامل کی وجہ سے مذہبیت میں کمی نہیں آئی ہے مگر اس پہلو کو نظر انداز کر دینا بھی درست نہیں ہے۔ ہندوستان کے اور عالمی مخصوص تناظر میں بھی ہندوتوا کا ایجنڈا کافی سست رفتاری کے ساتھ اور محتاط انداز میں اگے بڑھا ہے۔ اس وجہ سے بھی اس کے نتائج آگے آنے باقی ہیں۔
مضمون کل ملا کر بہتر ہے اور اس موضوع پر مزید گفتگو توجہ طلب ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023